Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
سوا اس (صورت) کے کہ اللہ بھی چاہے،37۔ اور اپنے پروردگار کو یاد کرلیا کیجیے جب آپ بھول جائیے اور آپ کہہ دیجیے کہ عجب نہیں جو میرا پروردگار مجھے باعتبار راہنمائی کے اس سے بھی قریب تر (بات) بتائے،38۔
37۔ یعنی آپ ﷺ سے جب کوئی شخص کوئی بات جواب طلب دریافت کرلے۔ ؛ اور آپ اس سے آئندہ جواب کا وعدہ کریں تو لفظ انشاء اللہ تعالیٰ یا کوئی اور لفظ اس کے مرادف ضرور کہہ دیاکریں اور ایک وعدہ ہی کی تخصیص نہیں، اس کا لحاظ ہر امر میں رکھیں۔ آیت کی شان نزول یا آج کل کی اصطلاح میں پس منظر یہ ہے کہ ایک بار منکرین نے آکر رسول اللہ ﷺ سے تین سوالات بطور امتحان دریافت کیے۔ ایک یہ کہ ماہیت روح کیا ہے ؟ دوسرے یہ کہ اصحاب کہف کون تھے ؟ تیسرے یہ کہ ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ آپ نے وحی الہی کے بھروسہ پر وعدہ کرلیا کہ کل جواب دوں گا۔ اتفاق سے وحی پندرہ دن تک نہ آئی۔ آپ کو قدرۃ غم و صدمہ رہا۔ اس کے بعد وحی سے سوالات کے جوابات بھی ملے اور یہ حکم بھی۔ (آیت) ” لشایء “ شیء تنوین کے ساتھ نکرہ ہے۔ مفہوم عموم واستغراق کے لئے۔ گویا یہ بتا دیا کہ اپنے چھوٹے بڑے ہر ارادہ کو ارادۂ الہی پر معلق اور اس سے وابستہ رکھیے۔ اس چھوٹی سی تعلیم سے ایک طرف تو رد نکل آیا معتزلہ کا جو بندہ کو بعض افعال کا خالق وموجد قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف جبریہ کا جو بندہ کو جمادومجبور محض مانتے ہیں۔ صحیح مسلک اہل سنت کا یہ ہے کہ بندہ اپنے افعال پر قادر تو ہے لیکن مشیت الہی کے بعد اور اس کے ماتحت۔ (آیت) ” غدا “۔ غد سے مراد مطلق زمانہ مستقبل ہے، نہ کہ متعین ومخصوص (کل) ہی کا دن۔ اے فی مایستقبل من الزمان ولم یرد الغد خاصۃ (کشاف) اے فی مایستقبل من الزمان مطلقا (روح) (آیت) ” الاان یشآء اللہ “۔ الال۔ حرف استثناء ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے الا ان تقول انشاء اللہ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ یہاں قول کے لیے زبانی تلفظ شرط نہیں۔ اس لیے کہ مسئلہ اعتقادیات سے متعلق ہے اور اعتقادیات میں محض تصدیق قلبی کافی ہے۔ 38۔ یعنی میری نبوت پر دلیل بننے کے اعتبار سے کوئی بات اس سے بھی بڑھ کر بتلائیے، منکروں نے یہ قصہ اصحاب کہف سے متعلق سوال کرکے اپنے نزدیک کوئی بہت بڑا امتحان رسول اللہ ﷺ کا لے ڈالا تھا۔ آپ ﷺ کو یہ کہنے کی ہدایت ہورہی ہے کہ میں تو اپنی نبوت پر دلائل خدا کے فضل سے اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر رکھتا ہوں۔ معناہ العل اللہ یؤتینی من البینات والدلائل علی صحۃ انی نبی ما ھو اعظم فی الدللالۃ واقرب رشدا من نبا اصحاب الکھف (کبیر) اے اظہر دلالۃ علی انی نبی من نبا اصحاب الکھف (بیضاوی) (آیت) ” واذکر ربک “۔ یعنی جیسے ہی خیال آجائے اور تنبیہ ہوجائے، مشیت الہی کا استحضار کرلیا کیجئے۔ واذکر ربک اے مشیۃ ربک (مدارک)
Top