Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ میں برابر چلتا رہوں گا تاآنکہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچ جاؤں،91۔ یا (یوں ہی) سالہا سال تک چلا کروں،92۔
91۔ (جہاں کا پتہ مجھے ایک برگزیدہ بندۂ حق سے ملاقات کا بتایا گیا ہے) توریت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس سفر کا کوئی ذکر نہیں۔ اور اسی سے ظاہر ہے کہ توریت موجودہ ومروجہ بہ حیثیت تاریخ و تذکرہ کے بھی نامکمل وناقص ہے۔ (آیت) ” لفتہ “۔ فتی کے لفظی معنی نوجوان کے ہیں اور مجازی معنی غلام یا خادم کے۔ الفتی الطری من الشباب والانثی فتاۃ ویکنی بھما عن العبد والامۃ (راغب) والعرب تسمی الخادم فتی لان الخدم اکثر مایکونون فی سن الفتوۃ (روح) قیل للخادم فتی علی جھۃ حسن الادب (بحر) مراد حضرت یشوع بن نون سے ہے۔ حدیث بخاری میں یہ تصریح موجود ہے اور مفسرین بھی تقریبا سب اس پر متفق ہیں۔ حضرت یشوع حضرت موسیٰ کے عزیز خاص و خادم خاص تھے۔ بعد کو خود بھی نبوت سے مشرف ہوئے۔ وانطلق معہ بفتاۃ یوشع بن نون (بخاری، کتاب التفسیر) توریت میں ان کا ذکر متعدد مقامات پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم کی حیثیت سے ملتا ہے۔” موسیٰ کے خادم نون کے بیٹے یشوع نے جو اس کے برگزیدوں میں سے تھا ،” موسیٰ نے کہا “۔ (گنتی۔ 11: 28) ” اور موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے خادم یشوع آئے (خروج۔ 13: 24) ” اور وہ لشکر گاہ کو پھر ا۔ پر اس کا خادم نوجوان یشوع بن نون خیمہ میں سے نہ نکلا “ (33: 11) حسب روایت توریت 110 سال کی عمر میں وفات پائی۔” اور ایسا ہوا کہ بعد ان باتوں کے نون کا بیٹا یشوع خداوند کا بندہ جو ایک سودس برس کا بوڑھا تھا رحلت کرگیا “ (یشوع۔ 24: 29) (آیت) ” مجمع البحرین “۔ اس مقام کی تعیین جزم کے ساتھ مشکل ہے۔ یہ سفر اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوران قیام مصر میں پیش آیا تھا تو دریائے نیل کی دونوں شاخوں کے ملنے کی جگہ مراد ہوسکتی ہے اور اگر جیسا کہ اغلب ہے، سفر جزیرہ نمائے سینا کے دوران قیام میں پیش آیا تو عجب نہیں کہ جو بحر قلزم کے شمالی دوشاخہ کے اتصال کی جگہ مراد ہو۔ یعنی خلیج عقبہ یا خلیج سویز۔ مشائخ صوفیہ نے آیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مریدوں یا شاگردوں سے کام لینا اور انہیں سفر میں رفیق رکھنا سنت انبیاء میں سے ہے۔ 92۔ (تاآنکہ منزل مقصود تک پہنچ جاؤں اور مقصد سفر حاصل ہوجائے) محققین نے لکھا ہے کہ اس سے طلب علم میں ہر قسم کے صعوبات برداشت کرنے کی فضیلت نکلتی ہے۔ ذلک تنبیہ علی ان المتعلم لوسافر من المشرق الی المغرب لطلب مسئلۃ واحدۃ لمن لہ ذلک (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ شیخ کامل کی طلب میں سعی بلیغ چاہیے جب تک کہ اس سے کوئی واجب نہ فوت ہونے لگے۔
Top