Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 69
قَالَ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا
قَالَ : اس نے کہا سَتَجِدُنِيْٓ : تم مجھے پاؤگے جلد اِنْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہا اللہ نے صَابِرًا : صبر کرنے والا وَّلَآ اَعْصِيْ : اور میں نافرمانی نہ کروں گا لَكَ : تمہارے اَمْرًا : کسی بات
(موسی (علیہ السلام) نے) کہا آپ انشاء اللہ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے حکم کے خلاف نہ کروں گا،102۔
102۔ یعنی نہ آپ کی نافرمانی کروں گا اور نہ آپ کی اجازت کے بغیر آپ پر کوئی روک ٹوک کروں گا۔ (آیت) ” صابرا “۔ کا مفہوم یہاں ہے ضبط کرجانے والا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایسے مقبول بزرگ کوئی حرکت خلاف شریعت کریں گے، اسی لئے انہوں نے مطیع رہنے کی حامی بھر لی گویا حالا ان کا وعدہ یہ تھا کہ امور مباح میں آپ کا ساتھ دیتا رہوں گا اس پر بھی اتنی احتیاط رکھی کہ لفظ انشاء اللہ ملائی جس سے اقرار عہد و پیمان پیدا نہیں ہونے پایا اور اس لئے ان دونوں باتوں کی بناء پر آیندہ نقض عہد کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آیت سے استنباط کیا گیا ہے کہ متعلم کے لئے پہلی چیز یہ ہے کہ استاد کے احکام کی اطاعت اور اس پر ترک اعتراض ومخالفت کی عادت اختیار کرے اور اپنی طرف سے انتہائی فروتنی اور تذلل برتے۔ ھذا یدل علی ان المتعلم یجب علیہ فی اول الامر التسلیم وترک المنازعۃ والاعتراض (کبیر) وقول موسیٰ لہ تواضع شدید واظھار للتحمل التام والتواضع الشدید وکل ذلک یدل علی ان الواجب علی المتعلم اظھار التواضع باقصی الغایات (کبیر)
Top