Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ : نہیں الْبِرَّ : نیکی اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ قِبَلَ : طرف الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور دن الْاٰخِرِ : آخرت وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب وَالنَّبِيّٖنَ : اور نبی (جمع) وَاٰتَى : اور دے الْمَالَ : مال عَلٰي حُبِّهٖ : اس کی محبت پر ذَوِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکین (جمع) وَابْنَ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَالسَّآئِلِيْنَ : اور سوال کرنے والے وَفِي الرِّقَابِ : اور گردنوں میں وَاَقَامَ : اور قائم کرے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَى : اور ادا کرے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالْمُوْفُوْنَ : اور پورا کرنے والے بِعَهْدِهِمْ : اپنے وعدے اِذَا : جب عٰھَدُوْا : وہ وعدہ کریں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے فِي : میں الْبَاْسَآءِ : سختی وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَحِيْنَ : اور وقت الْبَاْسِ : جنگ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ صَدَقُوْا : انہوں نے سچ کہا وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار
طاعت یہ نہیں ہے،626 ۔ کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرلیا کرو،627 ۔ بلکہ طاعت یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ اور قیامت کے دن اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لائے،628 ۔ اور اس کی محبت میں مال صرف کرے قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیروں اور سائلوں پر،629 ۔ اور گردنوں کے آزاد کردینے میں،630 ۔ اور نماز کی پابندی کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے،631 ۔ اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جبکہ وعدہ کرچکے ہوں، اور تنگی میں اور بیماری میں، اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ، 632 ۔ یہی لوگ ہیں جو سچے اترے، اور یہی لوگ تو متقی ہیں،633 ۔
626 ۔ (جیسا کہ گمراہ و مشرک قومیں سمجھ رہی ہیں) قرآن مجید کے متعدد مقامات کی طرح یہ آیت بھی اصلا گمراہ و مشرک قوموں کے رد میں ہے اور اس کا مفہوم پوری طرح جبھی روشن ہوگا، جب ان کے عقائد باطل کو پیش نظر رکھا جائے۔ (آیت) ” البر “ بر کے معنی لغت عربی میں بہت وسیع ہیں، نیکی کے جملہ اقسام پر شامل ہے۔ اردو میں اس کا صحیح مفہوم لفظ طاعت ہی سے ادا ہوسکتا ہے۔ البرالتوسع فی فعل الخیر فمن اللہ تعالیٰ الثواب ومن العبد الطاعۃ (راغب) البرالطاعۃ (تاج) قال بعضھم البر الخیر قال ولا اعلم تفسیرا جمع منہ لانہ یحیط بجمیع ماقالوا (تاج) اہل لغت ہی کو نہیں اہل تفسیر کو بھی (آیت) ” بر “ کے مفہوم کی بھی وسعت مسلم ہے۔ البر اسم جامع للطاعات و اعمال الخیر المقربۃ الی اللہ تعالیٰ (کبیر) اسم عام لجمیع مایوجر علی الانسان (کبیر) اسم جامع لانواع الخیر والطاعات المقربۃ الی اللہ تعالیٰ (روح) البرکل فعل مرضی (بیضاوی) 627 ۔ (حالت نماز میں یا عبادت کے وقت) ظہور اسلام سے قبل دنیا کی بیشمار گمراہیوں میں سے ایک اہم گمراہی سمت پرستی تھی یعنی بےجان دیوتاؤں، دیویوں، مورتیوں، پتھروں، درختوں، پہاڑوں، دریاؤں کے علاوہ خود سمتوں یا جہتوں کی بھی پرستش جاری ہوگئی تھی اور مختلف جاہلی قوموں نے یہ اعتقاد جمالیا تھا کہ فلاں مخصوص سمت، مثلا مشرق، مقدس ہے، اور فلاں متعین جہت مثلا مغرب قابل پرستش ہے۔ قرآن مجید یہاں شرک کی اسی صورت خاص کی تردید کررہا ہے، اور ارشاد کررہا ہے کہ کسی جہت میں کیا تقدس رکھا ہوا ہے، اور کوئی سمت، بہ حیثیت سمت ہرگز قابل تقدیس نہیں۔ طاعت (البر) سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہمارے حضرات مفسرین کو اس آیت میں جو اشکال نظر آیا وہ محض اس لیے کہ ان کی نظر مذاہب غیر کی اس گمراہی پر نہ تھی۔ اسلام نے ظاہر ہے کہ نماز کے لیے کوئی سمت، بہ حیثیت سمت ہرگز متعین نہیں کی ہے، اس نے صرف ایک متعین مکان یعنی خانہ کعبہ کو ایک مرکزی حیثیت دی ہے۔ اور اسے قبلہ توجہ ٹھیرایا ہے خواہ ہو کسی سمت میں پڑجائے۔ چناچہ مشاہدہ ہے کہ کعبہ مصر وطرابلس وحبشہ سے مشرق میں پڑتا ہے۔ ہندوستان، افغانستان اور چین سے مغرب میں، شام و فلسطین و مدینہ سے جنوب میں، اور یمن اور بحرقلزم کے جنوبی ساحلوں سے شمال میں، اور بہت سے مقامات سے ان مختلف سمتوں کے مختلف گوشوں میں۔ (آیت) ” المشرق “ سورج دیوتا دنیائے شرک کا معبود اعظم رہا ہے۔ مشرک قوموں نے اس کی پرستش بڑی کثرت سے کی ہے۔ اور یہ چونکہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ اس لیے عموما جاہلی قوموں نے مشرق کو بھی مقدس سمجھ لیا، اور عبادت کے لیے مشرق رخی اختیار کرلی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے چند ہی سال بعد جب مسیحیوں میں ایک شخص پولوس نامی آگھسا (جسے ایک دنیا آج سینٹ پال کے نام سے یاد کرتی ہے) اور اس نے مسیحیت کا رخ بجائے تجدید موسویت کے ایک مستقل تثلیثی شرک کی طرف پھیر دیا۔ رومی اس وقت حاکم قوم تھی، اور جیسے آج ہندوستان کے ہر شعبہ زندگی میں انگریزیت اور ” صاحبیت “ کا بول بالا ہے، اس وقت بھی محکوموں کے دلوں میں رومی مشرکوں ہی کے علوم وفنون، تہذیب ومعاشرت، دین و عقائد کا تسلط چھایا ہوا تھا۔ اور رومی مذہب کا ایک جزو آفتاب پرستی بھی تھا۔ پولوسوی مسیحیوں نے جہاں اور بہت سے مشرکانہ مراسم رومیوں سے دھڑادھڑاخذ کرلیے، وہیں اس مشرق پرستی کو بھی ان سے لے لیا، اور عبادت مشرق کی طرف رخ کرکے کرنے لگے۔ چناچہ مسیحیوں کے گرجے آج تک مشرق رویہ چلے آتے ہیں، قرآن مجید نے اس مشرق رخی پر زبردست ضرب لگائی، اور بتادیا کہ یہ سمت وار تقدس تو کسی درجہ میں بھی طاعت یا عبادت نہیں، بلکہ طاعتیں وہ ہیں جن کی تفصیل یہی آیت آگے کررہی ہے۔ (آیت) ” المغرب “ مشرق پرستی سے تو بہرحال کم اور بہت کم، لیکن پھر بھی بہت کچھ عام اور وسیع وبامغرب پرستی کی بھی شرک کی دنیا میں رہ چکی ہے۔ آفتاب کے طلوع و غروب پر قیاس کرکے مشرک ذہنیت نے یہ نتیجہ نکالا کہ مصدر حیات جس طرح سمت مشرق ہے، اسی طرح مستقر موت واجل سمت مغرب ہے اور یہ بھی مستحق تعظیم و تقدیس ہے۔ نیز ملاحظہ ہوں حواشی نمبر 45 1، 453 ۔ پ 1 (آیت) ” المشرق والمغرب “ یہ دو نام صراحت کے ساتھ صرف مثال کے طور پر لے لیے گئے۔ مقصود تمام سمتوں کی تعمیم ہے، انہی دوسمتوں کی تحدید یا تخصیص نہیں۔ والمراد من ذکر المشرق والمغرب التعمیم لاتعیین المستین (روح) 628 ۔ مشرکانہ ذہنیت کی تردید کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ اصلی طاعت یہ ہے جس کا بیان اب ہورہا ہے، آیت کے اس جزو میں عقائد کی تصحیح آ الفراء والزجاج وقطرب (کبیر) (آیت) ” امن باللہ “۔ اس میں دہریت والحاد کی جلی وخفی ہر صورت کی تردید آگئی۔ ایمان وطاعت میں داخلہ کا یہی دروزاہ ہے، کوئی ایسانظام یا مسلک (خواہ اس کی بنیادیں نقلی ہوں یا اخلاقی یا معاشی یا سیاسی) جس میں اللہ کی آیات وصفات پر ایمان کامل داخل نہ ہو، طاعت سے کوئی علاقہ بھی نہیں رکھتا۔ مادیت وعقلیت (ریشنلزم) لاادریت (ایگناسٹی سزم) بالشویت وغیرہ سب اسی حکم کے تحت میں آجاتی ہیں۔ اور بودھ مذہب اور جین مت بھی، اگر ان کی بابت یہ بیان صحیح ہے کہ ان میں توحید باری موجود نہیں۔ (آیت) ” والیوم الاخر “ اس میں تردید ان تمام گمراہ قوموں کی آگئی جو وجود باری کی تو قائل تھیں، لیکن اس عقیدہ سے خالی ہیں کہ ایک عالم آخرت بھی ہے، جہاں ایک روز، جزائے اعمال کا سامنا کرنا اور زندگی کے ایک ایک معاملہ کا حساب دینا ہے۔ اور تو اور یہود نے اپنی زبردست توحید کے باوجود، عالم آخرت سے اپنا تعلق نہایت درجہ ضعیف کر رکھا تھا۔ جزاوسزا اسی دنیا میں سمجھنا خواہ قومی واجتماعی عروج وزوال سے، خواہ بہ قاعدۂ تناسخ مختلف قالبوں میں روح کے الٹ پھیر سے، یہ سب انکار آخرت ہی کی شکلیں ہیں۔ (آیت) ” والملئکۃ “ فرشتوں پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ ان نورانی اور مجرد مخلوقات کا وجود اللہ کے بندوں اور کارساز مطلق کے قاصدوں، خادموں اور کارندوں کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے، نہ یہ کہ خود انہی کو مستقل قوتوں کی طرح فاعل، عامل، متصرف مان کر ان سے دعائیں مانگی جائیں، اور انہی کو ایک چھوٹے پیمانہ پر حاجت روا قرار دے لیاجائے، اس ایمان بالملائکہ سے یونان، رومہ، ہندوستان، ایران کی ان تمام مشرک قوموں کی تردید ہوگئی، جنہوں نے فرشتوں ہی کے تخیل کو مسخ کرکے کائنات کے مختلف شعبوں کے لیے دیویاں اور دیوتے تجویز کرلیے ہیں (آیت) ” والکتب “ کتاب یہاں بہ طور اسم جنس آیا ہے اس کا اطلاق صحیفہ آسمانی کے نفس تخیل پر ہوگا، کتاب آسمانی کا عقیدہ بھی ایک تمامتر اسلامی عقیدہ ہے۔ مشرک قومیں تو خیر اس تخیل ہی سے ناآشنا ہیں، کہ اللہ کے ہاں سے کوئی کتاب کسی بندہ پر نازل ہوتی ہے۔ ” اہل کتاب “ تک اب اسلامی اصطلاح کے مطابق کسی ” کتاب الہی “ کے قائل نہیں۔ ان کے ہاں ” کتاب “ کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ خدا نے ہدایت کے لیے بعض اشخاص کو چن لیا، اور ان کے قلوب میں کچھ مضامین بہ طور الہام القاء کردیئے۔ اور ایسا الہام ہر عارف کو ہوسکتا ہے، نبوت اس کی کوئی لازمی شرط نہیں۔ پھر بعد کو ان بزرگوں اور عارفوں نے انہی مضامین ومعافی کو اپنے لفظ وعبارت میں مرتب کرکے اپنے شاگردوں اور مریدوں کوسنادیا، پھر ان سامعین نے انہیں اپنے طور پر لکھ لکھا لیا۔ (بجزتوریت کی ابتدائی پانچ سورتوں کے کہ وہ یہودی عقیدہ کے مطابق خود حضرت موسیٰ کی نوشتہ ہیں) ۔ گویا ان الہامی کتابوں کی حیثیت کل وہ ہے جو ہمارے ہاں بزرگوں کے جمع کیے ہوئے ملفوظات کی ہوتی ہے۔ اور کہاں مسلمانون کا یہ عقیدہ کہ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک حرف تک وحی شدہ ہے، جس میں خلط اور خطا کا امکان ہی نہیں اور مسیحی تو جب حضرت مسیح (علیہ السلام) کی رسالت ونبوت ہی کے سرے سے قائل نہیں بلکہ ان کی الوہیت کے مدعی ہیں تو حضرت محمد ﷺ کا صاحب کتاب رسول ہونا ان کے ہاں کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔۔ کوئی آپ اپنے اوپر بھی بھلا کتاب نازل کیا کرتا ہے ؟ (آیت) ” والنبین “ یعنی عقیدہ یہ ہو کہ اللہ انسانوں کو پیغمبر بنا کر بھیجتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ خود حق تعالیٰ مجسم ہو کر اس دنیا میں آجاتا ہے۔ یا کسی قالب میں حلول کر آتا ہے۔ اسی عقیدہ میں صاف تردید ہوگئی اوتار پرستی کی، مظہر پرستی کی، حلول کی، تجسم باری تعالیٰ کی ،” اوتار “ ٹھیک ضد اور مقابل ہے ” پیغمبر “ کے اوتار کا مفہوم یہ ہے کہ خالق کائنات خود کوئی مادی پیکر اختیار کرکے دنیا میں آجاتا ہے اور یہ بھی ضرور نہیں کہ وہ قالب انسان ہی کا ہو، شیوجی یا بشن جی جس طرح رام چندر جی بن کر یاسری کرشن بن کر آسکتے ہیں، اسی طرح سانپ بن کر، شیر، بن کر یا مچھلی یا کچھوے کا قالب اختیار کرکے بھی آسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ اوتار، معنی و حقیقت کے اعتبار سے خدا ہوتا ہے اور صورت اور ظاہر کے اعتبار سے انسان یا جانور، پیغمبر اس کے برعکس صرف بشر ہوتا ہے۔ اور ہمیشہ بشر ہی، نہ کبھی فوق البشر، نہ کبھی تحت البشر اور بجز اس کے کہ صاحب وحی ہوتا ہے (اور اس لیے اخلاق کی پاکیزگی میں بےنظیر، اور جرم وعصیان سے پاک) اور کسی حیثیت سے شکل و صورت میں، چلنے پھرنے میں، بولنے چالنے میں، بھوک پیاس میں، غم ومسرت میں، صفات بشری سے ممتاز نہیں ہوتا، آیت کے اتنے جزو میں قرآن مجید نے اپنی معجزانہ بلاغت و ایجاز سے تمام اعتقادی گمراہیوں کی جڑ کاٹ دی، اور سارے مذاہب باطلہ کی تردید کردی، اعتقادی گمراہی جب کبھی بھی انسانوں کو گھیرلے گی، ہمیشہ ایمان باللہ، ایمان بالآخرت، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب، اور ایمان بالانبیاء ہی کی کسی نہ کسی غلطی یا غلط فہمی کی راہ سے آئے گی ، 629 ۔ عقائد کی تصیح ہوچکی تو اب اعمال کی تصحیح شروع ہوئی اور اعمال میں بھی ابتداء شعبہ معاملات سے ہوئی، آیت کے اسی جزو میں اس کا بیان ہے (آیت) ” علی حبہ “ اس کی محبت میں۔ ضمیر اللہ کی طرف ہے۔ اس کی محبت سے مراد اللہ تعالیٰ کی محبت۔ یعنی یعطون المال علی حب اللہ اے علی طلب مرضاتہ (کبیر) قیل علی حب اللہ (کشاف) قیل الضمیر للہ تعالیٰ (بیضاوی) گویا یہ بتادیا کہ صرف مال فی نفسہ ہرگز محمود ومطلوب نہیں، مطلوب ومقصود صرف وہ صرف مال ہے، جو اللہ کی راہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اللہ کے دین کے فروع کے لیے ہو۔ دوسرے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ صرف مال، مال کی محبت کے باوجود ہو۔ یعنی ضمیر غائب کا مرجع بجائے اللہ کے، لفظ قریب مال کو قرار دیا گیا ہے۔ وھو قول الاکثرین انہ راجع الی المال (کبیر) اے مع حب المال والشح بہ کماقال ابن مسعود ؓ (کشاف) اس میں بھی ایک بختہ مومن کی تصویر آگئی ہے۔ مال وزر کی محبت اور قدر اس کے دل میں ہے، خواہشیں اس کی زندہ ہیں، اپنی ذات پر، اپنے محبوبات ومرغوبات پر وہ خرچ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن امر الہی کے آگے اپنی گردن جھکا دیتا ہے۔ اپنی خواہشوں کو دبا دیتا ہے۔ اپنے شوق کو حکم خداوندی پر قربان کردیتا ہے۔ وہ عمل اسی پر کرے گا، جو حکم ربانی ہے۔ اور خرچ وہیں کرے گا، جہاں شریعت حکم دیتی ہے۔ (آیت) ” ذوی القربی “ الخ۔ مصارف خیر کی اسلام نے یہ کتنی مناسب اور حکیمانہ ترتیب قرار دے دی ہے۔ آیت کے اس جزو میں امت کا پورا نظام معاشی ایک خلاصہ کی شکل میں آگیا ہے۔ مالی اعانت سب سے پہلے اپنے عزیزوں قریبوں کی کرنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ بھائی کی کوٹھیاں تیار ہورہی ہیں، اور بہن جھونپڑے کو ترس رہی ہو، چچا کے پاس موٹریں ہوں، اور بھتیجے کو تانگہ کے پیسے بھی میسر نہ ہوں، ہر زردار کو سب سے پہلے خبر گیری اپنے نادار عزیزوں، کنبہ والوں، بھائیوں، بہنوں، بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے قریبیوں کی کرنا چاہیے۔ اس کے بعد نمبر محلہ کے بستی کے، شہر کے یتیم بچوں، بچیوں کا آتا ہے، جن کا کوئی والی، وارث، سرپرست باقی نہیں رہا ہے، اس کے بعد درجہ بدرجہ نمبر امت کے عام مفلسوں، محتاجوں اور پھر ان مسافروں، راہ گیروں کا آتا ہے جو زادراہ سے محروم ہیں۔ اور اس لیے اپنے ضروری سفروں سے محروم رہے جاتے ہیں۔ یا بستی میں کہیں باہر سے وارد ہوگئے ہیں، اور کوئی ان کے ٹھیرانے، کھلانے پلانے کا روادار نہیں ہورہا ہے۔ اور پھر آخر میں اہل حاجت سوالی رہ جاتے ہیں۔ اس پورے معاشی پروگرام پر اگر قاعدہ سے عمل ہونے لگے تو امت میں کہیں مفلسی، تنگدستی، بےمعاشی، بےروز گاری کا وجود باقی رہ سکتا ہے ؟ 630 ۔ (قیدیوں اور غلاموں کی) (آیت) ” فی الرقاب “ رقاب، رقبۃ کی جمع ہے۔ لفظی معنی گردن کے ہیں، محاورہ میں اس سے مراد وہ ہوتے ہیں، جن کی گردنیں آزاد نہیں، یا جو بندھے ہوئے ہیں، یعنی غلام جو دوسروں کی رعایا ہیں۔ یا قیدی، جو کسی جرم فوجداری یا دیوانی کی علت میں گرفتار ہو کر محبوس ہیں۔ الرقبۃ جعل فی التعارف اسما للمما لیک کما عبربا لرأس وابالظھر من المرکوب (راغب) والرقبۃ مجاز عن الشخص (روح) تقدیر کلام یوں ہے، فی تخلیص الرقاب، یا فی فکاک الرقاب، گویا مضاف محذوف ہے، اور یہ ترکیب قرآن مجید میں عام ہے، مراد وہی زر معاوضہ دے کر قیدیوں کو قید سے اور غلاموں کو غلامی سے آزادی دلانا ہے، یعنی المکاتبین قالہ اکثر المفسرین (معالم) وقیل فداء الاساری (معالم) وھم المکاتبون (ابن کثیر) اے فی تخلیصھا بمعاونۃ المکاتبین اوفک الاساری (بیضاوی) اے فی تخلیصھا الرقاب وفکاکھا (روح) مصارف خیرواعانت کی ایک ضروری مدرہی جاتی تھی، قرآن مجید نے آخر میں اس کا بھی اضافہ کردیا، اور اب یہ فہرست امت کے اجتماعی نقطہ نظر سے ہر طرح مکمل ہوگئی۔ 631 ۔ تصحیح عقائد کی ہوچکی تصحیح معاملات کی ہوچکی۔ اب نمبر عبادات کا آتا ہے۔ عبادات بیشمار ہیں، بنیادی اور بڑی تقسیم عبادت بدنی اور عبادت مالی کی ہے۔ یہاں الصلوۃ والزکوۃ لا کر دونوں کی جنس کی طرف اشارہ کردیا، نماز ساری بدنی عبادتوں کی قائم مقام ہوگئی۔ زکوٰۃ ساری مالی عبادتوں کی۔ (آیت) ” اقام الصلوۃ “ یعنی نمازیں وقت مقرر پر، شرائط وقواعد معلوم کے ساتھ ادا کرتے رہتے ہیں، (آیت) ” اتی الزکوۃ “۔ یعنی زکوٰۃ، حسب آداب و شرائط شریعت باقاعدہ ادا کرتے رہتے ہیں ، 632 ۔ عقائد ہوچکے، معاملات ہوچکے، عبادتیں ہوچکیں، اب ذکر اخلاق کا شروع ہوا، (آیت) ” الموفون بعھدھم “ فقرہ ہر قسم کے معاہدات کا جامع ہے۔ خواہ وہ معاہدہ بندہ کا اپنے خالق کے ساتھ ہو، یا معاہدہ بندوں کا بندوں کے درمیان ہو، مومن جھوٹا وعدہ کرنا یا جھوٹا عہد لینا جانتا ہی نہیں، اے فی مابینہم وبین اللہ تعالیٰ وفی مابینہم وبین الناس (قرطبی) (آیت) ” الباسآء “ مصیبت اور تنگدستی میں۔ باسآء کا اصل تعلق مالی پریشانیوں سے ہے۔ اے الشدۃ والفقر (قرطبی) (آیت) ” الباسآء “ فی الاموال کالفقر (بیضاوی عن الازہری) (آیت) ” الضرآء “ بیماری کی تکلیفوں میں۔ ضرآء کا اصل تعلق جسمانی آزار سے ہے۔ اے المرض والزمانۃ (قرطبی) الضرآء فی الانفس کالمرض (بیضاوی۔ عن الازہری) (آیت) ” حین الباس “۔ یعنی جنگ کے وقت دشمنان دین کے مقابلہ میں۔ اے وقت مجاھدۃ العدو (بیضاوی) اے وقت الحرب (قرطبی) ثبات وصبر کے ظاہر کرنے اور جوہر سیرت و مردانگی کی چمک دکھانے کے یہی تین خاص مواقع ایک مومن کے لیے ہوتے ہیں۔ 633 ۔ یعنی کمالات حقیقی کے ساتھ موصوف، اور طاعت وپرہیزگاری (بروتقوی) میں پورے اترنے والوں کی علامتیں یہی ہیں جو اوپر بیان ہوچکیں۔ اس معیار سے جس کو چاہو، جانچ لو، پرکھ لو، اے صدقوا فی الدین واتباع الحق وطلب البر (بیضاوی) قرآن مجید کی ہر آیت بجائے خود معظم، محترم وواجب العمل ہے۔ لیکن اس آیت کے باب میں تو حدیث نبوی ﷺ میں یہاں تک صراحت موجود ہے، کہ من عمل بھذہ الایۃ فقد استکمل الایمان (جس نے اس آیت پر عمل کرلیا، اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا) اور محققین کا قول نقل ہوا ہے، کہ یہ آیت اہم ترین آیتوں میں سے ہے اور اس کے اندر دین و شریعت کے سولہ احکام آگئے ہیں۔ قال علماؤنا ھذہ عظیمۃ من امھات الاحکام لانھا تضمنت ست عشرۃ قاعدۃ الایمان باللہ وباسمہ وصفاتہ والنشر والحشر والمیزان والحوض والشفاعۃ والجنۃ والنار والملئکۃ والکتب المنزلہ وانھا حق میں عند اللہ والنبیین وانفاق المال فی مایعن من الواجب والمندوب وایصال القرابۃ وترک قطعھم وتفقد الیتیم وعدم اھمالہ والمساکین کذلک ومراعاۃ ابن السبیل والسوال وفک الرقاب (قرطبی) اور بعض صوفیوں نے آیت کے اجراء کی جامعیت پر نظر کرکے کہا کہ آیت اصل و مدار ہے شریعت وطریقت کی۔ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن کے لیے کافی نہ صرف باطنی اعتقاد ہے اور نہ صرف ظاہری، بلکہ دل میں ایمان ہونا بھی لازمی ہے اور ظاہر میں احکام کی اطاعت بھی، اور خیر یہ باتیں تو سب اپنوں کی تھیں۔ فرنگیوں میں سے ایک ذات شریف پادری وہیری (Wherry) نامی ہوئے ہیں۔ مسلمانوں اور اسلام کے بڑے ” عنایت فرما “۔ سن سفید ڈاڑھی کے بال اسلام کی عداوت ہی میں سفید کیے۔ سیل (Sale) کے انگریزی ترجمہ قرآن پر تفسیر کا اضافہ انہی کے قلم سے ہے۔ ؛ اس آیت پر پہنچ کر قدرت ان کے قلم سے یوں لکھواتی ہے :۔” یہ (آیت) قرآن کی بلند ترین آیتوں میں سے ہے۔۔ ذات باری پر ایمان، اور نوع انسانی کے ساتھ حسن سلوک، اس کو اس میں واضح طور پر مذہب کا جوہر اصلی بتایا گیا ہے۔ اس میں لب لباب عقائد اور اعمال کا آگیا “۔ خیریہی بہت غنیمت ہے کہ پادری صاحب کو کچھ تو آیتیں قرآن مجید میں ” بلند “ نظر آگئیں۔
Top