Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ
: نہیں
الْبِرَّ
: نیکی
اَنْ
: کہ
تُوَلُّوْا
: تم کرلو
وُجُوْھَكُمْ
: اپنے منہ
قِبَلَ
: طرف
الْمَشْرِقِ
: مشرق
وَالْمَغْرِبِ
: اور مغرب
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور دن
الْاٰخِرِ
: آخرت
وَالْمَلٰٓئِكَةِ
: اور فرشتے
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
وَالنَّبِيّٖنَ
: اور نبی (جمع)
وَاٰتَى
: اور دے
الْمَالَ
: مال
عَلٰي حُبِّهٖ
: اس کی محبت پر
ذَوِي الْقُرْبٰى
: رشتہ دار
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنَ
: اور مسکین (جمع)
وَابْنَ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
وَالسَّآئِلِيْنَ
: اور سوال کرنے والے
وَفِي الرِّقَابِ
: اور گردنوں میں
وَاَقَامَ
: اور قائم کرے
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتَى
: اور ادا کرے
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَالْمُوْفُوْنَ
: اور پورا کرنے والے
بِعَهْدِهِمْ
: اپنے وعدے
اِذَا
: جب
عٰھَدُوْا
: وہ وعدہ کریں
وَالصّٰبِرِيْنَ
: اور صبر کرنے والے
فِي
: میں
الْبَاْسَآءِ
: سختی
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
وَحِيْنَ
: اور وقت
الْبَاْسِ
: جنگ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
صَدَقُوْا
: انہوں نے سچ کہا
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُتَّقُوْنَ
: پرہیزگار
طاعت یہ نہیں ہے،
626
۔ کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرلیا کرو،
627
۔ بلکہ طاعت یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ اور قیامت کے دن اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لائے،
628
۔ اور اس کی محبت میں مال صرف کرے قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیروں اور سائلوں پر،
629
۔ اور گردنوں کے آزاد کردینے میں،
630
۔ اور نماز کی پابندی کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے،
631
۔ اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جبکہ وعدہ کرچکے ہوں، اور تنگی میں اور بیماری میں، اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ،
632
۔ یہی لوگ ہیں جو سچے اترے، اور یہی لوگ تو متقی ہیں،
633
۔
626
۔ (جیسا کہ گمراہ و مشرک قومیں سمجھ رہی ہیں) قرآن مجید کے متعدد مقامات کی طرح یہ آیت بھی اصلا گمراہ و مشرک قوموں کے رد میں ہے اور اس کا مفہوم پوری طرح جبھی روشن ہوگا، جب ان کے عقائد باطل کو پیش نظر رکھا جائے۔ (آیت) ” البر “ بر کے معنی لغت عربی میں بہت وسیع ہیں، نیکی کے جملہ اقسام پر شامل ہے۔ اردو میں اس کا صحیح مفہوم لفظ طاعت ہی سے ادا ہوسکتا ہے۔ البرالتوسع فی فعل الخیر فمن اللہ تعالیٰ الثواب ومن العبد الطاعۃ (راغب) البرالطاعۃ (تاج) قال بعضھم البر الخیر قال ولا اعلم تفسیرا جمع منہ لانہ یحیط بجمیع ماقالوا (تاج) اہل لغت ہی کو نہیں اہل تفسیر کو بھی (آیت) ” بر “ کے مفہوم کی بھی وسعت مسلم ہے۔ البر اسم جامع للطاعات و اعمال الخیر المقربۃ الی اللہ تعالیٰ (کبیر) اسم عام لجمیع مایوجر علی الانسان (کبیر) اسم جامع لانواع الخیر والطاعات المقربۃ الی اللہ تعالیٰ (روح) البرکل فعل مرضی (بیضاوی)
627
۔ (حالت نماز میں یا عبادت کے وقت) ظہور اسلام سے قبل دنیا کی بیشمار گمراہیوں میں سے ایک اہم گمراہی سمت پرستی تھی یعنی بےجان دیوتاؤں، دیویوں، مورتیوں، پتھروں، درختوں، پہاڑوں، دریاؤں کے علاوہ خود سمتوں یا جہتوں کی بھی پرستش جاری ہوگئی تھی اور مختلف جاہلی قوموں نے یہ اعتقاد جمالیا تھا کہ فلاں مخصوص سمت، مثلا مشرق، مقدس ہے، اور فلاں متعین جہت مثلا مغرب قابل پرستش ہے۔ قرآن مجید یہاں شرک کی اسی صورت خاص کی تردید کررہا ہے، اور ارشاد کررہا ہے کہ کسی جہت میں کیا تقدس رکھا ہوا ہے، اور کوئی سمت، بہ حیثیت سمت ہرگز قابل تقدیس نہیں۔ طاعت (البر) سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہمارے حضرات مفسرین کو اس آیت میں جو اشکال نظر آیا وہ محض اس لیے کہ ان کی نظر مذاہب غیر کی اس گمراہی پر نہ تھی۔ اسلام نے ظاہر ہے کہ نماز کے لیے کوئی سمت، بہ حیثیت سمت ہرگز متعین نہیں کی ہے، اس نے صرف ایک متعین مکان یعنی خانہ کعبہ کو ایک مرکزی حیثیت دی ہے۔ اور اسے قبلہ توجہ ٹھیرایا ہے خواہ ہو کسی سمت میں پڑجائے۔ چناچہ مشاہدہ ہے کہ کعبہ مصر وطرابلس وحبشہ سے مشرق میں پڑتا ہے۔ ہندوستان، افغانستان اور چین سے مغرب میں، شام و فلسطین و مدینہ سے جنوب میں، اور یمن اور بحرقلزم کے جنوبی ساحلوں سے شمال میں، اور بہت سے مقامات سے ان مختلف سمتوں کے مختلف گوشوں میں۔ (آیت) ” المشرق “ سورج دیوتا دنیائے شرک کا معبود اعظم رہا ہے۔ مشرک قوموں نے اس کی پرستش بڑی کثرت سے کی ہے۔ اور یہ چونکہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ اس لیے عموما جاہلی قوموں نے مشرق کو بھی مقدس سمجھ لیا، اور عبادت کے لیے مشرق رخی اختیار کرلی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے چند ہی سال بعد جب مسیحیوں میں ایک شخص پولوس نامی آگھسا (جسے ایک دنیا آج سینٹ پال کے نام سے یاد کرتی ہے) اور اس نے مسیحیت کا رخ بجائے تجدید موسویت کے ایک مستقل تثلیثی شرک کی طرف پھیر دیا۔ رومی اس وقت حاکم قوم تھی، اور جیسے آج ہندوستان کے ہر شعبہ زندگی میں انگریزیت اور ” صاحبیت “ کا بول بالا ہے، اس وقت بھی محکوموں کے دلوں میں رومی مشرکوں ہی کے علوم وفنون، تہذیب ومعاشرت، دین و عقائد کا تسلط چھایا ہوا تھا۔ اور رومی مذہب کا ایک جزو آفتاب پرستی بھی تھا۔ پولوسوی مسیحیوں نے جہاں اور بہت سے مشرکانہ مراسم رومیوں سے دھڑادھڑاخذ کرلیے، وہیں اس مشرق پرستی کو بھی ان سے لے لیا، اور عبادت مشرق کی طرف رخ کرکے کرنے لگے۔ چناچہ مسیحیوں کے گرجے آج تک مشرق رویہ چلے آتے ہیں، قرآن مجید نے اس مشرق رخی پر زبردست ضرب لگائی، اور بتادیا کہ یہ سمت وار تقدس تو کسی درجہ میں بھی طاعت یا عبادت نہیں، بلکہ طاعتیں وہ ہیں جن کی تفصیل یہی آیت آگے کررہی ہے۔ (آیت) ” المغرب “ مشرق پرستی سے تو بہرحال کم اور بہت کم، لیکن پھر بھی بہت کچھ عام اور وسیع وبامغرب پرستی کی بھی شرک کی دنیا میں رہ چکی ہے۔ آفتاب کے طلوع و غروب پر قیاس کرکے مشرک ذہنیت نے یہ نتیجہ نکالا کہ مصدر حیات جس طرح سمت مشرق ہے، اسی طرح مستقر موت واجل سمت مغرب ہے اور یہ بھی مستحق تعظیم و تقدیس ہے۔ نیز ملاحظہ ہوں حواشی نمبر
45
1
،
453
۔ پ
1
(آیت) ” المشرق والمغرب “ یہ دو نام صراحت کے ساتھ صرف مثال کے طور پر لے لیے گئے۔ مقصود تمام سمتوں کی تعمیم ہے، انہی دوسمتوں کی تحدید یا تخصیص نہیں۔ والمراد من ذکر المشرق والمغرب التعمیم لاتعیین المستین (روح)
628
۔ مشرکانہ ذہنیت کی تردید کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ اصلی طاعت یہ ہے جس کا بیان اب ہورہا ہے، آیت کے اس جزو میں عقائد کی تصحیح آ الفراء والزجاج وقطرب (کبیر) (آیت) ” امن باللہ “۔ اس میں دہریت والحاد کی جلی وخفی ہر صورت کی تردید آگئی۔ ایمان وطاعت میں داخلہ کا یہی دروزاہ ہے، کوئی ایسانظام یا مسلک (خواہ اس کی بنیادیں نقلی ہوں یا اخلاقی یا معاشی یا سیاسی) جس میں اللہ کی آیات وصفات پر ایمان کامل داخل نہ ہو، طاعت سے کوئی علاقہ بھی نہیں رکھتا۔ مادیت وعقلیت (ریشنلزم) لاادریت (ایگناسٹی سزم) بالشویت وغیرہ سب اسی حکم کے تحت میں آجاتی ہیں۔ اور بودھ مذہب اور جین مت بھی، اگر ان کی بابت یہ بیان صحیح ہے کہ ان میں توحید باری موجود نہیں۔ (آیت) ” والیوم الاخر “ اس میں تردید ان تمام گمراہ قوموں کی آگئی جو وجود باری کی تو قائل تھیں، لیکن اس عقیدہ سے خالی ہیں کہ ایک عالم آخرت بھی ہے، جہاں ایک روز، جزائے اعمال کا سامنا کرنا اور زندگی کے ایک ایک معاملہ کا حساب دینا ہے۔ اور تو اور یہود نے اپنی زبردست توحید کے باوجود، عالم آخرت سے اپنا تعلق نہایت درجہ ضعیف کر رکھا تھا۔ جزاوسزا اسی دنیا میں سمجھنا خواہ قومی واجتماعی عروج وزوال سے، خواہ بہ قاعدۂ تناسخ مختلف قالبوں میں روح کے الٹ پھیر سے، یہ سب انکار آخرت ہی کی شکلیں ہیں۔ (آیت) ” والملئکۃ “ فرشتوں پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ ان نورانی اور مجرد مخلوقات کا وجود اللہ کے بندوں اور کارساز مطلق کے قاصدوں، خادموں اور کارندوں کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے، نہ یہ کہ خود انہی کو مستقل قوتوں کی طرح فاعل، عامل، متصرف مان کر ان سے دعائیں مانگی جائیں، اور انہی کو ایک چھوٹے پیمانہ پر حاجت روا قرار دے لیاجائے، اس ایمان بالملائکہ سے یونان، رومہ، ہندوستان، ایران کی ان تمام مشرک قوموں کی تردید ہوگئی، جنہوں نے فرشتوں ہی کے تخیل کو مسخ کرکے کائنات کے مختلف شعبوں کے لیے دیویاں اور دیوتے تجویز کرلیے ہیں (آیت) ” والکتب “ کتاب یہاں بہ طور اسم جنس آیا ہے اس کا اطلاق صحیفہ آسمانی کے نفس تخیل پر ہوگا، کتاب آسمانی کا عقیدہ بھی ایک تمامتر اسلامی عقیدہ ہے۔ مشرک قومیں تو خیر اس تخیل ہی سے ناآشنا ہیں، کہ اللہ کے ہاں سے کوئی کتاب کسی بندہ پر نازل ہوتی ہے۔ ” اہل کتاب “ تک اب اسلامی اصطلاح کے مطابق کسی ” کتاب الہی “ کے قائل نہیں۔ ان کے ہاں ” کتاب “ کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ خدا نے ہدایت کے لیے بعض اشخاص کو چن لیا، اور ان کے قلوب میں کچھ مضامین بہ طور الہام القاء کردیئے۔ اور ایسا الہام ہر عارف کو ہوسکتا ہے، نبوت اس کی کوئی لازمی شرط نہیں۔ پھر بعد کو ان بزرگوں اور عارفوں نے انہی مضامین ومعافی کو اپنے لفظ وعبارت میں مرتب کرکے اپنے شاگردوں اور مریدوں کوسنادیا، پھر ان سامعین نے انہیں اپنے طور پر لکھ لکھا لیا۔ (بجزتوریت کی ابتدائی پانچ سورتوں کے کہ وہ یہودی عقیدہ کے مطابق خود حضرت موسیٰ کی نوشتہ ہیں) ۔ گویا ان الہامی کتابوں کی حیثیت کل وہ ہے جو ہمارے ہاں بزرگوں کے جمع کیے ہوئے ملفوظات کی ہوتی ہے۔ اور کہاں مسلمانون کا یہ عقیدہ کہ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک حرف تک وحی شدہ ہے، جس میں خلط اور خطا کا امکان ہی نہیں اور مسیحی تو جب حضرت مسیح (علیہ السلام) کی رسالت ونبوت ہی کے سرے سے قائل نہیں بلکہ ان کی الوہیت کے مدعی ہیں تو حضرت محمد ﷺ کا صاحب کتاب رسول ہونا ان کے ہاں کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔۔ کوئی آپ اپنے اوپر بھی بھلا کتاب نازل کیا کرتا ہے ؟ (آیت) ” والنبین “ یعنی عقیدہ یہ ہو کہ اللہ انسانوں کو پیغمبر بنا کر بھیجتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ خود حق تعالیٰ مجسم ہو کر اس دنیا میں آجاتا ہے۔ یا کسی قالب میں حلول کر آتا ہے۔ اسی عقیدہ میں صاف تردید ہوگئی اوتار پرستی کی، مظہر پرستی کی، حلول کی، تجسم باری تعالیٰ کی ،” اوتار “ ٹھیک ضد اور مقابل ہے ” پیغمبر “ کے اوتار کا مفہوم یہ ہے کہ خالق کائنات خود کوئی مادی پیکر اختیار کرکے دنیا میں آجاتا ہے اور یہ بھی ضرور نہیں کہ وہ قالب انسان ہی کا ہو، شیوجی یا بشن جی جس طرح رام چندر جی بن کر یاسری کرشن بن کر آسکتے ہیں، اسی طرح سانپ بن کر، شیر، بن کر یا مچھلی یا کچھوے کا قالب اختیار کرکے بھی آسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ اوتار، معنی و حقیقت کے اعتبار سے خدا ہوتا ہے اور صورت اور ظاہر کے اعتبار سے انسان یا جانور، پیغمبر اس کے برعکس صرف بشر ہوتا ہے۔ اور ہمیشہ بشر ہی، نہ کبھی فوق البشر، نہ کبھی تحت البشر اور بجز اس کے کہ صاحب وحی ہوتا ہے (اور اس لیے اخلاق کی پاکیزگی میں بےنظیر، اور جرم وعصیان سے پاک) اور کسی حیثیت سے شکل و صورت میں، چلنے پھرنے میں، بولنے چالنے میں، بھوک پیاس میں، غم ومسرت میں، صفات بشری سے ممتاز نہیں ہوتا، آیت کے اتنے جزو میں قرآن مجید نے اپنی معجزانہ بلاغت و ایجاز سے تمام اعتقادی گمراہیوں کی جڑ کاٹ دی، اور سارے مذاہب باطلہ کی تردید کردی، اعتقادی گمراہی جب کبھی بھی انسانوں کو گھیرلے گی، ہمیشہ ایمان باللہ، ایمان بالآخرت، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب، اور ایمان بالانبیاء ہی کی کسی نہ کسی غلطی یا غلط فہمی کی راہ سے آئے گی ،
629
۔ عقائد کی تصیح ہوچکی تو اب اعمال کی تصحیح شروع ہوئی اور اعمال میں بھی ابتداء شعبہ معاملات سے ہوئی، آیت کے اسی جزو میں اس کا بیان ہے (آیت) ” علی حبہ “ اس کی محبت میں۔ ضمیر اللہ کی طرف ہے۔ اس کی محبت سے مراد اللہ تعالیٰ کی محبت۔ یعنی یعطون المال علی حب اللہ اے علی طلب مرضاتہ (کبیر) قیل علی حب اللہ (کشاف) قیل الضمیر للہ تعالیٰ (بیضاوی) گویا یہ بتادیا کہ صرف مال فی نفسہ ہرگز محمود ومطلوب نہیں، مطلوب ومقصود صرف وہ صرف مال ہے، جو اللہ کی راہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اللہ کے دین کے فروع کے لیے ہو۔ دوسرے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ صرف مال، مال کی محبت کے باوجود ہو۔ یعنی ضمیر غائب کا مرجع بجائے اللہ کے، لفظ قریب مال کو قرار دیا گیا ہے۔ وھو قول الاکثرین انہ راجع الی المال (کبیر) اے مع حب المال والشح بہ کماقال ابن مسعود ؓ (کشاف) اس میں بھی ایک بختہ مومن کی تصویر آگئی ہے۔ مال وزر کی محبت اور قدر اس کے دل میں ہے، خواہشیں اس کی زندہ ہیں، اپنی ذات پر، اپنے محبوبات ومرغوبات پر وہ خرچ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن امر الہی کے آگے اپنی گردن جھکا دیتا ہے۔ اپنی خواہشوں کو دبا دیتا ہے۔ اپنے شوق کو حکم خداوندی پر قربان کردیتا ہے۔ وہ عمل اسی پر کرے گا، جو حکم ربانی ہے۔ اور خرچ وہیں کرے گا، جہاں شریعت حکم دیتی ہے۔ (آیت) ” ذوی القربی “ الخ۔ مصارف خیر کی اسلام نے یہ کتنی مناسب اور حکیمانہ ترتیب قرار دے دی ہے۔ آیت کے اس جزو میں امت کا پورا نظام معاشی ایک خلاصہ کی شکل میں آگیا ہے۔ مالی اعانت سب سے پہلے اپنے عزیزوں قریبوں کی کرنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ بھائی کی کوٹھیاں تیار ہورہی ہیں، اور بہن جھونپڑے کو ترس رہی ہو، چچا کے پاس موٹریں ہوں، اور بھتیجے کو تانگہ کے پیسے بھی میسر نہ ہوں، ہر زردار کو سب سے پہلے خبر گیری اپنے نادار عزیزوں، کنبہ والوں، بھائیوں، بہنوں، بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے قریبیوں کی کرنا چاہیے۔ اس کے بعد نمبر محلہ کے بستی کے، شہر کے یتیم بچوں، بچیوں کا آتا ہے، جن کا کوئی والی، وارث، سرپرست باقی نہیں رہا ہے، اس کے بعد درجہ بدرجہ نمبر امت کے عام مفلسوں، محتاجوں اور پھر ان مسافروں، راہ گیروں کا آتا ہے جو زادراہ سے محروم ہیں۔ اور اس لیے اپنے ضروری سفروں سے محروم رہے جاتے ہیں۔ یا بستی میں کہیں باہر سے وارد ہوگئے ہیں، اور کوئی ان کے ٹھیرانے، کھلانے پلانے کا روادار نہیں ہورہا ہے۔ اور پھر آخر میں اہل حاجت سوالی رہ جاتے ہیں۔ اس پورے معاشی پروگرام پر اگر قاعدہ سے عمل ہونے لگے تو امت میں کہیں مفلسی، تنگدستی، بےمعاشی، بےروز گاری کا وجود باقی رہ سکتا ہے ؟
630
۔ (قیدیوں اور غلاموں کی) (آیت) ” فی الرقاب “ رقاب، رقبۃ کی جمع ہے۔ لفظی معنی گردن کے ہیں، محاورہ میں اس سے مراد وہ ہوتے ہیں، جن کی گردنیں آزاد نہیں، یا جو بندھے ہوئے ہیں، یعنی غلام جو دوسروں کی رعایا ہیں۔ یا قیدی، جو کسی جرم فوجداری یا دیوانی کی علت میں گرفتار ہو کر محبوس ہیں۔ الرقبۃ جعل فی التعارف اسما للمما لیک کما عبربا لرأس وابالظھر من المرکوب (راغب) والرقبۃ مجاز عن الشخص (روح) تقدیر کلام یوں ہے، فی تخلیص الرقاب، یا فی فکاک الرقاب، گویا مضاف محذوف ہے، اور یہ ترکیب قرآن مجید میں عام ہے، مراد وہی زر معاوضہ دے کر قیدیوں کو قید سے اور غلاموں کو غلامی سے آزادی دلانا ہے، یعنی المکاتبین قالہ اکثر المفسرین (معالم) وقیل فداء الاساری (معالم) وھم المکاتبون (ابن کثیر) اے فی تخلیصھا بمعاونۃ المکاتبین اوفک الاساری (بیضاوی) اے فی تخلیصھا الرقاب وفکاکھا (روح) مصارف خیرواعانت کی ایک ضروری مدرہی جاتی تھی، قرآن مجید نے آخر میں اس کا بھی اضافہ کردیا، اور اب یہ فہرست امت کے اجتماعی نقطہ نظر سے ہر طرح مکمل ہوگئی۔
631
۔ تصحیح عقائد کی ہوچکی تصحیح معاملات کی ہوچکی۔ اب نمبر عبادات کا آتا ہے۔ عبادات بیشمار ہیں، بنیادی اور بڑی تقسیم عبادت بدنی اور عبادت مالی کی ہے۔ یہاں الصلوۃ والزکوۃ لا کر دونوں کی جنس کی طرف اشارہ کردیا، نماز ساری بدنی عبادتوں کی قائم مقام ہوگئی۔ زکوٰۃ ساری مالی عبادتوں کی۔ (آیت) ” اقام الصلوۃ “ یعنی نمازیں وقت مقرر پر، شرائط وقواعد معلوم کے ساتھ ادا کرتے رہتے ہیں، (آیت) ” اتی الزکوۃ “۔ یعنی زکوٰۃ، حسب آداب و شرائط شریعت باقاعدہ ادا کرتے رہتے ہیں ،
632
۔ عقائد ہوچکے، معاملات ہوچکے، عبادتیں ہوچکیں، اب ذکر اخلاق کا شروع ہوا، (آیت) ” الموفون بعھدھم “ فقرہ ہر قسم کے معاہدات کا جامع ہے۔ خواہ وہ معاہدہ بندہ کا اپنے خالق کے ساتھ ہو، یا معاہدہ بندوں کا بندوں کے درمیان ہو، مومن جھوٹا وعدہ کرنا یا جھوٹا عہد لینا جانتا ہی نہیں، اے فی مابینہم وبین اللہ تعالیٰ وفی مابینہم وبین الناس (قرطبی) (آیت) ” الباسآء “ مصیبت اور تنگدستی میں۔ باسآء کا اصل تعلق مالی پریشانیوں سے ہے۔ اے الشدۃ والفقر (قرطبی) (آیت) ” الباسآء “ فی الاموال کالفقر (بیضاوی عن الازہری) (آیت) ” الضرآء “ بیماری کی تکلیفوں میں۔ ضرآء کا اصل تعلق جسمانی آزار سے ہے۔ اے المرض والزمانۃ (قرطبی) الضرآء فی الانفس کالمرض (بیضاوی۔ عن الازہری) (آیت) ” حین الباس “۔ یعنی جنگ کے وقت دشمنان دین کے مقابلہ میں۔ اے وقت مجاھدۃ العدو (بیضاوی) اے وقت الحرب (قرطبی) ثبات وصبر کے ظاہر کرنے اور جوہر سیرت و مردانگی کی چمک دکھانے کے یہی تین خاص مواقع ایک مومن کے لیے ہوتے ہیں۔
633
۔ یعنی کمالات حقیقی کے ساتھ موصوف، اور طاعت وپرہیزگاری (بروتقوی) میں پورے اترنے والوں کی علامتیں یہی ہیں جو اوپر بیان ہوچکیں۔ اس معیار سے جس کو چاہو، جانچ لو، پرکھ لو، اے صدقوا فی الدین واتباع الحق وطلب البر (بیضاوی) قرآن مجید کی ہر آیت بجائے خود معظم، محترم وواجب العمل ہے۔ لیکن اس آیت کے باب میں تو حدیث نبوی ﷺ میں یہاں تک صراحت موجود ہے، کہ من عمل بھذہ الایۃ فقد استکمل الایمان (جس نے اس آیت پر عمل کرلیا، اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا) اور محققین کا قول نقل ہوا ہے، کہ یہ آیت اہم ترین آیتوں میں سے ہے اور اس کے اندر دین و شریعت کے سولہ احکام آگئے ہیں۔ قال علماؤنا ھذہ عظیمۃ من امھات الاحکام لانھا تضمنت ست عشرۃ قاعدۃ الایمان باللہ وباسمہ وصفاتہ والنشر والحشر والمیزان والحوض والشفاعۃ والجنۃ والنار والملئکۃ والکتب المنزلہ وانھا حق میں عند اللہ والنبیین وانفاق المال فی مایعن من الواجب والمندوب وایصال القرابۃ وترک قطعھم وتفقد الیتیم وعدم اھمالہ والمساکین کذلک ومراعاۃ ابن السبیل والسوال وفک الرقاب (قرطبی) اور بعض صوفیوں نے آیت کے اجراء کی جامعیت پر نظر کرکے کہا کہ آیت اصل و مدار ہے شریعت وطریقت کی۔ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن کے لیے کافی نہ صرف باطنی اعتقاد ہے اور نہ صرف ظاہری، بلکہ دل میں ایمان ہونا بھی لازمی ہے اور ظاہر میں احکام کی اطاعت بھی، اور خیر یہ باتیں تو سب اپنوں کی تھیں۔ فرنگیوں میں سے ایک ذات شریف پادری وہیری (Wherry) نامی ہوئے ہیں۔ مسلمانوں اور اسلام کے بڑے ” عنایت فرما “۔ سن سفید ڈاڑھی کے بال اسلام کی عداوت ہی میں سفید کیے۔ سیل (Sale) کے انگریزی ترجمہ قرآن پر تفسیر کا اضافہ انہی کے قلم سے ہے۔ ؛ اس آیت پر پہنچ کر قدرت ان کے قلم سے یوں لکھواتی ہے :۔” یہ (آیت) قرآن کی بلند ترین آیتوں میں سے ہے۔۔ ذات باری پر ایمان، اور نوع انسانی کے ساتھ حسن سلوک، اس کو اس میں واضح طور پر مذہب کا جوہر اصلی بتایا گیا ہے۔ اس میں لب لباب عقائد اور اعمال کا آگیا “۔ خیریہی بہت غنیمت ہے کہ پادری صاحب کو کچھ تو آیتیں قرآن مجید میں ” بلند “ نظر آگئیں۔
Top