Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ١ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تم تَبْتَغُوْا : تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب فَاِذَآ : پھر جب اَفَضْتُمْ : تم لوٹو مِّنْ : سے عَرَفٰتٍ : عرفات فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ عِنْدَ : نزدیک الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ : مشعر حرام وَاذْكُرُوْهُ : اور اسے یاد کرو كَمَا : جیسے ھَدٰىكُمْ : اسنے تمہیں ہدایت دی وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے لَمِنَ : ضرور۔ سے الضَّآلِّيْنَ : ناواقف
تمہیں اس باب میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے ہاں سے تلاش معاش کرو، 735 ۔ پھر جب تم جوق در جوق عرفات سے واپس ہونے لگو،736 ۔ تو اللہ کا ذکر مشعر حرام کے پاس کرلیا کرو،737 ۔ اور ان کا ذکر اس طرح کرو جیسا اس نے تمہیں بتایا ہے،738 ۔ اور اس سے قبل تم یقیناً محض ناواقفوں میں تھے،739 ۔
735 ۔ بہ سلسلہ سفر حج اسلام جس طرح فلاح اخروی کا ضامن ہے، فلاح دنیوی کا بھی داعی ہے، اور اس کی یہ جامعیت اس کی ہر عبادت سے بالکل ظاہر ہورہی ہے، وضو، نماز، نماز، باجماعت، روزہ، زکوٰۃ، سب سے روح کو جلا دینے اور اپنے باطن کو صیقل کرنے کے ساتھ ساتھ دینوی، مادی، جسمانی، معاشی فائدوں اور مصلحتوں سے بھی کتنے لبریز ہیں۔ یہی اصول حج کے بارے میں بھی کام کررہے ہیں حج کا منزل در منزل سفر، بری و بحری طویل سفر، اور امت کے مختلف طبقوں کا دنیا کے مختلف گوشوں سے یہ عظیم الشان اجتماع، ایک خشک عبادت اور محض ذکر الہی کے لیے نہیں، فرد وملت دونوں کے لیے یعنی انفرادی واجتماعی ہر قسم کے فائدے اس سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، اور کیے جانے چاہئیں حج کے روحانی اسرار وحقائق کا ادراک تو فرنگی دماغوں کے لیے آسان نہیں۔ لیکن اس ” بین الاقوامی سالانہ کانگریس “ سے جو سیاسی، ملی، اجتماعی فائدے وابستہ ہیں، اور اس ” بین الاقوامی سالانہ بازار “ سے جو مالی، تجارتی، معاشی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، ان کا اندازہ اور ان کا اعتراف تو فرنگیوں کی زبان سے بھی بارہا ہوچکا ہے۔ یہاں خاص طور پر توجہ اس سفر و اجتماع کے معاشی وتجارتی پہلو پر دلائی ہے۔ اور جو رکاوٹ ایک خالص ” دیندار “ شخص کو ان فوائد کو حاصل کرنے سے ہوسکتی ہے، اسے دور کیا ہے۔ (آیت) ” فضلا “ سب کا اتفاق ہے کہ فضل سے یہاں مراد مال اور نفع تجارت ہے۔ یعنی المال وما یکتسب (راغب) ھو النفع والربح بالتجارۃ (کشاف) لوگوں کا غلو اس باب میں اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جو تاجر مال تجارت لے کر منی اور مکہ کے بازاروں کے لیے جاتے، یا جو اونٹ والے اپنے اونٹ مزدلفہ، عرفات ومنی کے لیے لے جاتے، سمجھا جاتا تھا کہ ان کا حج ہی نہیں ہوتا، کہ جہاں تجارت آگئی، وہاں عبادت کا وجود کہاں باقی رہا، قرآن مجید نے اس مغالطہ عامۃ الورود کی تردید کردی۔ نزلت ردا علی من یقول لاحج للتجاروالاجراء والجمالین (کبیر) فی ھذا دلیل جواز التجارۃ فی الحج للحجاج مع اداء العبادۃ ولا یخرج بہ المکلف عن رسم الاخلاص للمفترض علی (ابن العربی) یدل علی ان الحج لا یمنع التجارۃ وعلی ھذا امر الناس من عصر النبی علی السلام الی یومنا ھذا فی مواسم منی ومکۃ فی ایام الحج (جصاص) ابن عباس ؓ صحابی سے لے کر حسن، عطاء مجاہد، قتادہ، وغیرہ تابعین منھم الحسن وعطاء ومجاھد وقتادۃ ولا نعلم احدا روی عنہ خلاف ذلک (جصاص) صرف ایک روایت کسی حد تک اس سے مخالف ملتی ہے، لیکن محققین نے تصریح کردی ہے کہ وہ ظاہر قرآن واجماع عام دونوں کے منافی ہے۔ ھذا قول شاذ خلاف ماعلیہ الجمھور و خلاف ظاہر الکتب (جصاص) (آیت) ” من ربکم “ یعنی حسب تقدیر الہی۔ بات بات میں بات پیدا کرنا قرآن مجید کا تو ایک مستقل اعجاز ہے۔ یہ ذرا سالفظ لا کر یاد دلا دیا کہ اس نفع وتجارت کو بھی اپنے قوت بازو کا ثمرہ نہ سمجھ لینا، جو کچھ بھی حاصل ہوگا، سب کو کار ساز حقیقی ہی کے لطف وکرم کر ثمرہ سمجھنا، نظر تجارت وکاروبار میں بھی ہر وقت اسی پر رہے۔ اس ہدایت پر عمل کے بعد تجارت کی کوئی بڑی سی بڑی مشغولیت بھی تجارت باقی رکھ سکتی ہے ؟ تجارت اس حال میں اگر عبادت نہ بن جائے، تو آخر کیا ہو۔ 736 (9 ذی الحجہ کی شام کو عرفات میں وقوف اور ادائے آداب وقوف کے بعد) حج کے اعمال (واجب، سنن ومستحباب) تو بہت سے ہیں۔ لیکن فرض تین ہی ہیں۔ ( 1) احرام پوشی ، (2) 9کو عرفات میں حاضری یا وقوف اور طواف فرض (3) ۔ ان تینوں ارکان میں بھی اہم ترین رکن یہی وقوف عرفات ہے۔ (آیت) ” افضتم “۔ افاضہ کے لفظی معنی انبوہ در انبوہ چلنے یا واپس ہونے کے ہیں۔ اے دفعتم منھا بکثرۃ (راغب) الافاضۃ الاندفاع فی السیر بکثرۃ (کبیر) اصطلاح فقہ میں اضاضہ عرفات سے مزدلفہ کو کہتے ہیں۔ (آیت) ” عرفت “ مکہ معظمہ سے جو سڑک مشرق کی جانب طائف کو جاتی ہے اس پر مکہ سے کوئی بارہ میل کے فاصلہ پر کئی میل کے رقبہ کا ایک لمبا چوڑا میدان پڑتا ہے۔ اور اس کا نام عرفات ہے اسی نام کی ایک پہاڑی بھی اسی میدان میں واقع ہے، سطح زمین سے کوئی 200 گز بلند۔ سال بھر یہ میدان بالکل سنسان پڑا رہتا ہے۔ صرف ایک دن یعنی 9 ذی الحجہ کو اس کی پوری کسر نکل آتی ہے۔ اس روز یہ میدان انسانوں اور ان کی سواریوں سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے۔ حاجیوں کو 8 ۔ ذی الحجہ کی دوپہر تک منی میں آجانا چاہیے، اور 9 کی صبح کو بعد اشراق قافلہ عرفات کے لیے روانہ ہوجائیں، تاکہ 8 ۔ 9 میل کا درمیانی فاصلہ دوپہر تک طے ہوجائے، دوپہر سے لے کر آخر وقت عصر تک اسی میدان میں رہنا چاہیے، اور اسی کا اصطلاحی نام وقوف ہے۔ یہی حاضری اعمال حج کی جان ہے اور یہ سارا وقت توبہ و استغفار، عبادت، انابت ہی میں صرف ہونا چاہیے، قریب غروب مزدلفہ (یا مشعر الحرام) کے لیے کوچ ہونا چاہیے، اور جس طرح آج ظہر کے ساتھ عصر کی نماز (باقاعدۂ تقدیم) عرفات کی مسجد نمرہ میں ملالی گئی تھی، اس طرح آج مغرب کی نماز (بہ قاعدۂ تاخیر) عشاء سے ملاکر اس وقت پڑھی جائے گی، جب قافلے مزدلفہ پہنچ جائیں۔ 737 ۔ (آیت) ” المشعر الحرام “۔ مشعر کے لفظی معنی نشانی یا علامت کے ہیں۔ اور حرام یعنی محترم یا مقدس اس کی تعظمیی صفت ہے، نام اس خاص مقام کا بھی ہے، جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے، اور خود سارے مزدلفہ کو بھی مشعرالحرام ہی کہتے ہیں۔ لم یختلف اھل العلم ان المشعر الحرام ھو المزدلفۃ (جصاص) والمشھور ان المشعر مزدلفۃ کلھا (روح) مزدلفہ مکہ سے کوئی 6 میل کے فاصلہ پر ہے منی سے عرفات جانے کا ایک تو سیدھا راستہ ہے۔ حاجی 9کو عرفات جاتے اسی راستہ سے ہیں۔ واپسی میں حکم ہے کہ دوسرے راستہ سے لوٹیں، یہ ذرا چکر کا ہے، اور مزدلفہ اسی راستہ میں پڑتا ہے، حاجیوں کے قافلے شب 10کے اول حصہ میں یہاں پہنچ جاتے ہیں، اور رات یہاں تسبیح وتہلیل، نماز و استغفار میں گزارتے ہیں۔ مسجد پہاڑی کے اوپر ہے۔ جبل یقف علیہ الامام وانما سمی مشعرا لانہ معلم العبادۃ ووصف بالحرام لحرمتہ (بیضاوی) (آیت) ” عند المشعر “ یعنی اس مسجد کے گردوپیش خصوصیت کے ساتھ، اور یوں تو سارا مزدلفہ (بجزوادی محسر کے) متبرک ومحترم ہے۔ خص اللہ تعالیٰ الذکر عندہ مع انہ مامور بہ فی جمیع المزدلفۃ لانہ کلھا موقف لمزید شرفۃ وفضلہ (روح) (آیت) ” واذکرواللہ “ نے یاد دلا دیا کہ یہ رات رنگ رلیاں منانے کی نہیں، جاہلی قوموں کے میلوں ٹھیلوں کی طرف روشنی وآتشبازی کے لیے نہیں، خواب غفلت میں پڑے رہنے کے لیے نہیں، فخریہ قصیدوں اور شعروشاعری میں صرف کرنے کے لیے نہیں ذکر و عبادت الہی کے لیے ہے۔ 738 ۔ (اپنے رسول کے ذریعہ سے اور اپنے اختراعی طریقوں سے بچو) الحادو انکار سے بچ کر دین و مذہب کے دائرہ میں آجانے کے بعد پھر جو خطرہ اہل مذہب کو شیطان کے ہاتھوں سب سے بڑھ کر در پیش رہتا ہے وہ بدعات ومحدثات کا ہے۔ انسان دل سے طرح طرح کے طریقے عبادت وذکر الہی کے ایجاد کرتا رہتا، اور انہیں مذہب میں داخل کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ دین صرف وہ ہے جو شارع اللہ ﷺ کی طرف سے پہنچائے، یا اپنے اجتہاد سے بتائے۔ یہاں اگر ایک طرف اس کی تاکید ہے کہ برابر یاد الہی میں لگے رہو، تو دوسری طرف اس کی بھی صراحت کہ اس یاد کے طریقے اپنے ایجاد کردہ ہوں، اللہ اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ ہی کے بتائے ہوئے ہوں، حکم ذکر کی تکرارتاکید کے لیے ہے۔ کر وہ الامر تاکیدا (قرطبی) کرر علی سبیل التوکید والمبالغۃ فی الامربالذکر (بحر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلا حکم مشعر الحرام میں ذکر کرتے رہنے کے لیے ہو، اور دوسرا حکم اہتمام اخلاص کے لیے ہو۔ قیل الاول امر بالذکر عند المشعر الحرام والثانی امر بالذکر علی حکم الاخلاص (قرطبی) 739 ۔ (عبادت اور ذکر الہی کے صحیح طریقوں سے) ضال۔ ہمیشہ گمراہی کے معنی میں نہیں آتا، ناواقف کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور ضلال سے مراد احکام الہی سے ناواقفیت ہوسکتی ہے۔ الضلال ضربان ضلال فی العلوم النظریۃ وضلال فی العلوم العملیۃ کمعرفۃ الاحکام الشرعیۃ التیھی العبادات (راغب) اور یہاں یہی مراد ہے۔ والمراد من الضلال الجھل بالایمان ومراسم الطاعات (روح) ان یہاں (آیت) ” ان “۔ ان “ کے معنی میں تحقیق و توثیق کے لیے ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ قد کے مرادف ہے۔ اے وانکم کنتم (روح) ان ھناعند البصربین التی للتوکید المخففۃ من الثقلیۃ (بحر) (آیت) ” من قبلہ “ میں ضمیرھدی کی طرف راجع ہے جو (آیت) ” ھدکم “ سے مفہوم ہوتا ہے۔ والھاء فی قبلہ عائدۃ علی الھدی المفھوم من قولہ (آیت) ” ھدکم (بحر)
Top