Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
ہاں تو تم وہاں جا کر واپس آؤ جہاں سے لوگ واپس آتے ہیں،740 ۔ اور اللہ سے مغفرت طلب کرو، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے، 741 ۔
740 ۔ یعنی عرفات سے۔ قریش کے گڑھے ہوئے عقیدوں میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ ہمیں حج میں عرفات کی حاضری کی کیا ضرورت ہے۔ وہاں تک سب کے ساتھ جانا ہماری (آیت) ” علو “ شان کے منافی ہے، ہماری لیے مزدلفہ تک جانا کافی ہے۔ کانت قریش ومن دان دینھا یقفون بالمزدلفۃ وکانوا یسمون الحمس وکانت سائر العرب یقفون بعرفات (صحیح بخاری۔ عن عائشہ ؓ) کانت قریش ومن کان علی دینھا وھم الحمس یقفون بالمزدلفۃ یقولون نحن قطین اللہ (ابن جریر۔ عن عائشہ ؓ کانوا یقولون لانخرج من الحرم فکانوا لایشھدون وقف الناس بعرفۃ معھم (ابن جریر) کانوا یقولون نحن قطین اللہ فینبغی لنا نعظم الحرم ولا نعظم شیئا من الحل (قرطبی) آیت انہی کی اصلاح کے لیے ہے۔ (آیت) ” الناس “ سے مراد جنس انسان ہے۔ المراد من الناس الجنس کماھو ظاھر (روح) (آیت) ” ثم “ یہاں تاخر زمانی کے لیے نہیں، فصل کلام کے لیے ہے۔ یعنی ایک بات ختم ہوئی، اب دوسری ہدایت سنو، جیسے اردو میں ایسے موقع پر ” اچھا تو “ یا ” ہاں تو “ کہتے ہیں۔ ثم لیست فی ھذہ الایۃ للترتیب وانھاھی لعطف جملۃ کلامھی ھھنامنقطعۃ (قرطبی) ثم للترتیب فی الذکر لاللترتیب فی الزمان الواقع فیہ الافعال (نہر) 741 ۔ (آیت) ” واستغفروا اللہ “۔ حدیث صحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں یوم عرفہ سے زیادہ بندے آگ سے آزاد کیے جاتے ہوں۔ حج کا بیان جہاں سے شروع ہوا ہے، دیکھتے آئیے تزکیہ قلب کا قدم قدم پر کس درجہ اہتمام ہے۔ حرم شریف نہیں، حدود حرم بھی ابھی منزلوں فاصلہ پر ہیں کہ ساری عمر کا مالوف ومانوس لباس جسم سے اتر گیا، اور اب نہ سر پر ٹوپی ہے، نہ کسی قسم کی پگڑی صافہ، اور جسم پر نہ شیروانی ہے نہ کوٹ، نہ عبانہ قمیص، شاہ وگدا، رئیس ورعایا، حکام وعوام سب کے سب دو دو چادروں میں ملبوس ! پھر احرام پہنتے ہی جو چیزیں حرام تھیں ان کا ذکر ہی نہیں جو ہمیشہ حلال تھیں، اور فی نفسہ جائز ہیں ایک خاصی طویل مدت کے لیے بالکل ممنوع ! کتنی ہی مرغوبات ومالوفات سے اس درمیان میں دستبرداری کرنی ہوتی ہے۔ یہ سب بھی کافی نہیں، گھڑی گھڑی لبیک کہتے رہو۔ اللہ، کے دربار میں حاضری بولتے رہو، مسلسل ذکر الہی کرتے رہو، اور اب یہ حکم مل رہا ہے کہ خطاؤں کو، گناہوں کو، سیہ کاریوں کو یاد کرکے ان سے معافی چاہتے رہو ! اتنے پاکیزہ، ایسے ستھرے اس قدر اصلاحی اجتماع سے دنیاجہان کے میلوں ٹھیلوں، بت پرستانہ، وہم پرستانہ، ہوس پر ستانہ، میلوں تہواروں کو کوئی بھی مناسبت ہے ؟۔ کوئی نسبت بھی ان آنکھوں سے ہے پیمانہ کو ! کیسا صریح ظلم وہ اہل قلم خود اپنی بصارت وبصیرت پر کرتے ہیں، جو اسلام کو دوسرے ادیان و مذاہب کی سطح پر سمجھے ہوئے ہیں ! (آیت) ” غفور “۔ آیت کے آخر میں یاد دلا دیا کہ تمہارے رب کی صفت غفر بہت بڑی ہے۔ اس سے مغفرت طلب کرکے دیکھوتو۔ طالبین مغفرت کی مغفرت وہ کیوں نہ کرے گا ؟ (آیت) ” رحیم “ اور ساتھ ہی اس کی صفت رحمت بھی تو بےپایاں ہے۔ طالبان مغفرت کے ساتھ وہ رحمت کا معاملہ کیوں نہ کرے گا ؟
Top