Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 200
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا١ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمْ : تم ادا کرچکو مَّنَاسِكَكُمْ : حج کے مراسم فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَذِكْرِكُمْ : جیسی تمہاری یاد اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ ذِكْرًا : یاد فَمِنَ النَّاسِ : پس۔ سے۔ آدمی مَنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي : میں اَلدُّنْیَا : دنیا وَمَا : اور نہیں لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت مِنْ خَلَاقٍ : کچھ حصہ
پھر جب تم اپنے مناسک ادا کررہے ہو،742 ۔ تو اللہ کی یاد کرو اپنے باپ دادوں کی یاد کی طرح، بلکہ یہ یاد اس سے بھی بڑھ کر ہو،743 ۔ اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے ہمیں دنیا (ہی) میں دے دے،744 ۔ اور ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں745 ۔
742 ۔ (اور ابھی منی سے منتشر نہیں ہوئے ہو) عرفات ومزدلفہ سے واپسی کے بعد منی میں قیام تین دن 10 ۔ 1 1 ۔ 12 ۔ کو لازمی ہے، اور بعض ائمہ کے نزدیک 13 ۔ کو بھی۔ اذا کے لفظ سے یہ دھوکانہ ہو کہ یہاں حکم ادائے مناسک کے بعد کے لیے مل رہا ہے۔ (آیت) ” اذا “ ہمیشہ بعد کے لیے نہیں آتا ہے۔ ہمزمانی کے موقع پر بھی قرآن مجید میں آیا ہے۔ مثلا (آیت) ” فاذا قضیتم الصلوۃ فاذکروا اللہ قیما وقعودا “ جس کے معنی ہیں کہ جب تم نماز پڑھتے ہو (نہ یہ کہ جب تم نماز ختم کرچکو) یا (آیت) ” اذا طلقتم النسآء “ جس کے معنی ہیں کہ جب تم طلاق دینے لگو (نہ یہ کہ جب تم طلاق دے چکو) اسی طرح یہاں بھی معنی یہ ہیں کہ جب تم ادائے مناسک کر رہو، (آیت) ” مناسککم۔ مناسک شعائر حج کو کہتے ہیں۔ ھی شعائر الحج (قرطبی) (آیت) ” قضیتم “ قضا کے معنی کسی عبادت کے ادا کرچکنے یا بجالانے کے ہیں۔ قضیتم ھنا بمعنی اذیتم وفرغتم (قرطبی) قضاء المناسک ھو فعلھاعلی تمام (جصاص) 743 قوی عظمت وقومی خود داری ، ، نسلی مفاخرت جس طرح جدید جاہلی تہذیب کا عنصر اعظم ہیں، عرب کے دین جاہلی کے بھی رکن اعظم تھے۔ عرب جب منی میں جمع ہوتے تو ہر ہر قبیلہ اپنے قبائل کی جے پکارتا اور اپنے بزرگوں کے مفاخر ومناقب کے پر زور بیان سے دلوں کو گرماتا۔ کان اہل الجاھلیۃ وجلسون بعد الحج فیذکرون ایام ابآء ھم (ابن عباس) کان القوم فی جاھلیتھم بعد فراغھم من حجھم ومناسکھم یجتمعون فتفاخرون بمآئر اباء ھم (ابن جریر) (آیت) ” کذکرکم ابآء کم “ مسلمانوں کو حکم ملتا ہے کہ یہی جوش و خروش تم اللہ کے ذکر میں دکھاؤ۔ تمہاری نہ کوئی قوم ہے، نہ کوئی نسل، نہ تمہارا کوئی وطن۔ تم ان سب کے بدلے اللہ کی عظمت دلوں میں بٹھاؤ، بساؤ اور اللہ کا نام زبانوں پر لاؤ۔ اویہاں تخییر کے لیے نہیں، بلکہ ترقی کا مفہوم دے رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے ساتھ ربط وتعلق کم از کم اس درجہ کا تو رکھو جتنا اپنے خاندان اپنے قبیلہ، اپنی قوم کے ساتھ رکھتے ہو، بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر ہو۔ قیل بمعنی بل (بحر) (آیت) ” اواشدذکرا “۔ مولانائے رومی (رح) نے اسی کو اپنی شاعرانہ وعاشقانہ زبان میں یوں ادا کیا ہے۔ عشق مولی کے کم از لیلی بود گوئے گشتن بہر اواولی بود۔ 744 ۔ دنیا میں ایسی بھی قومیں ہیں۔ جو خدا کی قائل ہوتی ہیں، اسے معبود اعظم سمجھتی ہیں، لیکن حشر ونشر جزاوسزا کی قائل نہیں، ایسے لوگوں کی دعائیں، التجائیں، تمنائیں قدرۃ اسی مادی دنیا کی ترقیوں تک محدود رہتی ہیں، مشرکین عرب کے عقیدے بھی اسی قسم کے تھے۔ اور یہ لوگ جب دعا بھی مانگتے تھے، تو تمامتر سامان دنیوی اور دشمن پر فتح و نصرت وغیرہ کی، ابن زید، سدی وغیرہ تابعین سے یہی معنی مروی ہیں۔ المراد المشرکون، قال ابو وائل والسدی وابن زید کانت العرب فی الجاھلیۃ تدعوا فی مصالح الدنیا فقط فکانوا یسالون الابل والغنم والظفر بالعدو ولا یطلبون الاخرۃ (قرطبی) (آیت) ” من یقول “ سے یہ لازم نہیں آتا کہ دعائیں بالکل انہیں الفاظ کے ساتھ کی ہی گئی ہوں۔ ” قول “ کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ تمنا کرنا، زبان حال سے کہنا، دل میں خیال لانا، سب اس میں شامل ہیں۔ 745 ۔ وہی آخرت جس کے تسلیم کرنے سے عمر بھر انکار کرتا رہا۔ اذ کانوا لایعرفون ولا یؤمنون بھا (قرطبی)
Top