Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے،753 ۔ کہ اس کی گفتگو جو دنیوی غرض سے اچھی معلوم ہوتی ہے اور جو اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ لاتا ہے ! درآنحالیکہ وہ شدید ترین دشمن ہے،754 ۔
753 ۔ (اس کی چرب زبانی کی بنا پر، اس کے دعوی اسلام وحب اسلام کے باعث) اوپر دو قسم کے انسانوں کا ذکر تھا۔ آخرت کے قائلین ومعتقدین کا اور آخرت کے منکرین کا۔ اب ذکر منکرین اور منافقین کا ہوتا ہے۔ اور ابتداء منافقین کے بیان سے ہوتی ہے۔ (آیت) ” ومن الناس “ لازمی نہیں کہ ایک ہی شخص مراد ہو، ایک بھی ہوسکتا ہے، بہت سے بھی ہوسکتے ہیں۔ اشارۃ الی بعضھم فیحتمل الواحد ویحتمل الجمع (کبیر) (آیت) ” فی الحیوۃ الدنیا “ فی اظہار یطلب بہ حظا من حظوظ الدنیا (کشاف) لطلب مصالح الدنیا (کبیر) فی ” باب میں “ یا ” دوبارہ “ کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں معنی ہوں گے کہ ” دنیوی امور سے متعلق “۔ اے ما یقولہ فی امور الدنیا واسباب المعاش “ (بیضاوی) درباب زندگانی دنیا (شاہ ولی اللہ دہلوی) شان نزول کی روایتوں میں آتا ہے کہ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص خوش منظر وخوش تقریر اخنس بن شریق نامی تھا۔ مجلس رسول اللہ ﷺ میں جب آتا تو خوب لمبے چوڑے دعوے اپنے ایمان واسلام کے کرتا، بات بات پر خدا کو گواہ ٹھہراتا۔ لیکن جب مجلس سے اٹھ کرچلا جاتا تو طرح طرح کی عملی شرارتوں میں لگ جاتا۔ نزلت فی اخنس بن شریق الثقفی (ابن جریر) کان رجلا حلوالکلام، حلوالمنظر (معالم) کان منافقا حسن العلانیۃ خبیث الباطن (کبیر) مگر شان نزول کی روایتوں سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آیت کا انطباق صرف اسی خاص شخص تک محدود ہے، بلکہ جہاں کہیں بھی وہ صفات پائے جائیں گے، وہاں وہ آیت بھی چسپاں ہوگی۔ القول الثانی فی الایۃ وھو اختیار اکثر المخققین من المفسرین ان ھذا الایۃ عامۃ فی حق کل من کان موصوفا بھذہ الصفات المذکورۃ (کبیر) 754 ۔ (اللہ کے دین کا، اللہ کے رسول کا) (آیت) ” یشھد اللہ “ یعنی آپ کو اللہ کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتا ہے۔ قسم کا مفہوم بھی شہادت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ یقول انی لاحبک ویحلف باللہ علی ذلک (معالم) رسول سے علم غیب کی نفی پر دلائل بہت سے قائم ہیں۔ ایک مزید دلیل اس آیت سے نکلتی ہے۔ منافق کے نفاق کا علم آیت کے ذریعہ سے حق تعالیٰ آپ ﷺ کو کر ارہا ہے۔ ورنہ آپ ﷺ تو اس کی باتوں سے خوش ہو رہے تھے۔ اگر آپ ﷺ اسے منافق پہچان گئے ہوتے، تو ظاہر ہے کہ اس سے گفتگو میں لطف ہی کیوں لیتے۔
Top