Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 214
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ١ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ
اَمْ : کیا حَسِبْتُمْ : تم خیال کرتے ہو اَنْ : کہ تَدْخُلُوا : تم داخل ہوجاؤگے الْجَنَّةَ : جنت وَلَمَّا : اور جبکہ نہیں يَاْتِكُمْ : آئی تم پر مَّثَلُ : جیسے الَّذِيْنَ : جو خَلَوْا : گزرے مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے مَسَّتْهُمُ : پہنچی انہیں الْبَاْسَآءُ : سختی وَالضَّرَّآءُ : اور تکلیف وَزُلْزِلُوْا : اور وہ ہلادئیے گئے حَتّٰى : یہانتک يَقُوْلَ : کہنے لگے الرَّسُوْلُ : رسول وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : ان کے ساتھ مَتٰى : کب نَصْرُ اللّٰهِ : اللہ کی مدد اَلَآ : آگاہ رہو اِنَّ : بیشک نَصْرَ : مدد اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب
کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے،779 ۔ درآنحالیکہ (ابھی) تم پر ان لوگوں کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں،780 ۔ انہیں تنگی اور سختی پیش آئی اور انہیں ہلا ڈالا گیا،781 ۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور جو لوگ ان کے ہمراہ ایمان لائے تھے بول اٹھے،782 ۔ کہ اللہ کی امداد (آخر) کب آئے گی،783 ۔ سن رکھو اللہ کی امداد یقیناً قریب ہی ہے،784 ۔
779 ۔ (بلامشقت اور بغیر امتحان، اے گروہ مومنین ! ) خطاب براہ راست عہد رسالت کے مومینن سے ہے۔ ایھا ال مومن ون باللہ ورسلہ (ابن جریر) 780 ۔ یعنی ان مومنین سابقین، ان انبیاء قدیم کی امتوں کی سی آزمائش اور مصیبتیں۔ مثل کے معنی غیر معمولی حالات وتجربات کے ہوتے ہیں۔ المثل الشبہ الا انہ مستعار لحال غیریبۃ اوقضیۃ عجیبۃ لھا شان (بحر) یہاں مراد ان پچھلی امتوں کے تحمل شدائد سے ہے۔ ما ینال من اذی الکفار والفقر والمجاھدۃ فی سبیل اللہ (بحر) حالھم التیھی مثل فی الشدۃ (کشاف) آیت سے یہ مراد نہیں کہ کوئی مومن محض ایمان کی برکت اور فضل خدا سے جنت میں داخل ہی نہ ہوسکے گا، جب تک کہ مجاہدات شدیدہ کی منزل سے نہ گزرے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ صحابہ جن درجات عالیہ کے طالب تھے اور بقول مرشد تھانوی (رح) ہر مومن کو طلب ایسی ہی رکھنی چاہیے۔ ان درجات عالیہ تک پہنچنے کے لیے عام شرط ان منزلوں سے گزرنے کی ہے۔ باقی نفس مجاہدہ تو ہر مومن کو اپنے درجہ و بساط کے لحاظ سے کرنا ہی ہوتا ہے۔ 781 ۔ (شدت تکلیف سے) اے مزکوا بانواع البلایا والرزایا (کبیر) (آیت) ” الباسآء والضرآء “ یعنی مخالفین کے ہاتھوں انہیں جو مصیبتیں جھیلنا پڑیں، دونوں لفظ قریب المعنی ہیں۔ فرق یہ کیا گیا ہے کہ باسآء میں راحت و آسائش کے فقدان کا پہلو نمایاں ہے اور ضراء میں واقعی درد واذیت کا۔ الباسآء عبارۃ عن تضییق جھات الخیر والضرآء عبارۃ عن انفتاح جھات الشر (کبیر) ان آزمائشوں کے تذکرے قدیم صحیفوں میں بھی بکثرت ملتے ہیں۔ مثلا ” صادق پر بہت سی مصیبتیں ہوتی ہیں “۔ (زبور۔ 34 ۔ 19) ” چاندی کے لیے گھر یا ہے اور سونے کے لیے بھٹی، پر خداوند دلوں کو تپاتا ہے “۔ (امثال 17:3) ” ضرور ہے کہ ہم بہت سی مصیبتیں سہ کر خدا کی بادشاہت میں داخل ہوں “ (اعمال 14:22) 782 (شدت غم وحزن سے بےقرار ہوکر) (آیت) ” الرسول “ سے مراد اس زمانہ کے پیغمبر ہیں۔ المراد من الرسول الجنس لا واحد بعینہ (روح) الرسول ھھنا اسم جنس (نہر) 783 ۔ (آیت) ” نصر اللہ “۔ یعنی نصرت موعود۔ انبیاء ومومنین کا یہ قول حالت اضطرار میں دعا ومناجات کے طور پر تھا، نہ بہ طور اعتراض و شکوہ، وعدہ نصرت الہی کا تھا، مگر یہ تعین تو نہ تھا کہ کس وقت ہوگی، جب ہجوم شدائد ہوتا، تو نصرت غیبی کی ضرورت محسوس کرتے، اور اپنے اجتہاد سے بہ الحاح وزاری پکارتے کہ حضرت، یہی تو وقت دستگیری ونصرت غیبی کے نزول کا ہے۔ (تھانوی) آیت میں اشارہ ہے کہ امت محمدی ﷺ کو بھی ہر قسم کی بلائیں پیش آئیں گی جیسی کہ اگلی امتوں کو پیش آچکی ہیں۔ 784 ۔ یہ جواب ان امتوں کو ان کی درخواست کا ملا کرتا، اس میں مومنین کو ہمیشہ کے لیے بشارت اور تسلی مل گئی، اور اس حقیقت کا بیان آگیا کہ نصرت الہی اپنے وقت پر ضرور آکر رہے گی، مجاہدات سے گھبرانا اور بددل نہ ہونا چاہیے۔ صوفیہ نے آیت سے یہ تعلیم بھی اخذ کی ہے کہ حالات مخالف کے ہجوم سے بہ تقاضائے بشریت اضطراب تو کاملین تک کو ہوتا ہے، مگر ساتھی ہی ثابت قدمی اور اتباع احکام کی برکت سے نصرت الہی حاصل ہو کر رہتی ہے۔
Top