Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 218
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ھَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يَرْجُوْنَ : امید رکھتے ہیں رَحْمَتَ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا،800 ۔ تو یہی لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھیں گے،801 ۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے، بڑا مہربان ہے،802 ۔
800 ۔ (آیت) ” الذین ھاجروا “۔ دین کے تحفظ وبقا کی خاطر وطن جیسی عزیز ومحبوب چیز کو مع وہاں کے تمام مرغوبات ومالوفات کے چھوڑنا اور کفر کی بستی کو ترک کرکے ایمان کی بستی میں آجانے کا نام ہجرت ہے الخروج من الکفر الی دارالایمان (راغب) (آیت) ” جھدوا “ جہاد کے معنی شدید کوشش اور جدوجہد کے ہیں۔ اس میں سب طرح کی بلائیں اور تکلیفیں آگئیں، اور اس کی بڑی فرد قتال ہے۔ فاطر کائنات کے قانون میں ہجرت و جہاد دونوں کے بڑے فضائل اور بڑے مرتبے ہیں۔ ایمان خود ہی کیا کم دولت ہے۔ اور پھر جب اس کے ساتھ یہ دونوں مرتبے بھی حاصل ہوجائیں، تو اس کے درجہ کا کیا ٹھکانا ہے ! نفس ایمان تو سب صحابیوں میں مشترک تھا ہی، کثرت سے صحابہ ان دونوں دولتوں سے بھی مشرف ہوچکے تھے۔ (آیت) ” فی سبیل اللہ “ یہ قید لگا کر پھر اس حقیقت کو صاف کردیا، کہ ہجرت و جہاد، بجائے خود کیسے ہی مجاہدے سہی، اللہ کے ہاں مقبول جبھی ہیں، جب خدا کی راہ میں ہوں، دین خدا کے واسطے ہوں، ورنہ محض محنت ہی محنت ہاتھ رہے گی، وطن، قوم، نسل، رنگ کے نام پر جانیں دے دینے والے، بڑی سی بڑی مصیبتیں جھیل لے جانے والے آج ہندوؤں، بارسیوں، جرمنوں، انگریزوں، روسیوں، امریکیوں، جاپانیوں سب میں لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں مل جائیں گے، سب کے سب (آیت) ” فی سبیل اللہ اور الذین امنوا “ کے وصف سے خالی ! اکبر (رح) نے خوب کہا ہے۔ ع : ثواب جب ہے کہ ناخوش ہو اس بنا پر تم دلوں کو طاعت حق سے یہ دور کرتے ہیں۔ نہ یہ کہ عیش میں میرے ہیں یہ خلل انداز ہمیں ضعیف سمجھ کر غرور کرتے ہیں۔ 801 ۔ اس میں بشارت و تسلی ان مومینن کے لیے ہے جن کے ہاتھ سے ایک مشرک کا قتل یکم رجب کو بغیر صحیح تاریخ سے واقفیت کے ہوگیا تھا۔ اوپر حاشیوں میں ضروری تفصیل گزر چکی۔ 802 ۔ ان صفات کے اثبات سے مقصود مومنین کی مزید تشفی وبشارت ہے۔ (آیت) ” غفور “۔ سو وہ اپنی صفت غفوریت کے تقاضہ سے اس سہو وخطا کو معاف کرے گا۔ (آیت) ” رحیم “۔ سو وہ اپنی صفت رحیمیت کے تقاضہ سے اجر بھی مرحمت فرمائے گا۔
Top