Tafseer-e-Majidi - An-Noor : 16
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا قُلْتُمْ : تم نے کہا مَّا يَكُوْنُ : نہیں ہے لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ نَّتَكَلَّمَ : کہ ہم کہیں بِھٰذَا : ایسی بات سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے ھٰذَا : یہ بُهْتَانٌ : بہتان عَظِيْمٌ : بڑا
اور تم نے جب اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا تھا کہ ہم کیسے بات منہ سے نکالیں توبہ یہ تو سخت بہتان ہے،27۔
27۔ یعنی تامل وتذبذب الگ رہا۔ تحقیق ہی کی کیا ضرورت تھی، تمہیں سنتے ہی کانوں پر ہاتھ رکھ کر انکار کردینا تھا۔ سرولیم میور کا شمار اسلام وشارع اسلام کے دوستوں میں نہیں، مخالفوں میں ہے۔ باوجود اس کے اقرار ہے :۔” عائشہ کی سیرت سے متعلق کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ...... ان کی زندگی واقعہ سے قبل بھی اور بعد بھی اس پر گواہ ہے کہ ہم انہیں اس الزام سے بالکل بری یقین کریں۔ “ (لائف آف محمد صفحہ 303، 304) بعض صحابہ کی جانب منقول بھی ایسا ہی قول ہے۔ انہوں نے جوں ہی یہ افواہ سنی تھی، فورا ہی وہ یہ کہہ اٹھے تھے۔ وفی بعض الاخباران ام ایوب قالت لابی ایوب الانصاری اما بلغک مایقول الناس فی عائشۃ فقال ابوایوب، سبحانک ھذا بھتان عظیم (معالم) یہاں تعلیم اس کو مل رہی ہے کہ سب کو یہی کہنا چاہیے تھا۔
Top