Tafseer-e-Majidi - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے ایمان والو تم اپنے (خاص) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل مت ہو جب تک کہ اجازت حاصل نہ کرلو،45۔ اور ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو تمہارے حق میں یہی بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو،46۔
45۔ یعنی پہلے ان گھروں میں رہنے والوں کو سلام کرکے ان سے اجازت لو، کہ ہم اندر آئیں ؟” یہ مسئلہ استیذان کا مردانہ اور زنانہ سب گھروں کے لیے ہے ....... استیذان واجب ہے اور تقدیم سلام سنت ہے۔ اور اپنے جس گھر میں یقیناً بجز منکوحہ یا مملوکہ شرعی کے کوئی نہ ہو وہ اس سے مستثنی ہے۔ ورنہ وہ بیوت بھی حکم میں (آیت) ” غیربیوتکم “۔ کے ہوجائیں گے۔ لاشتراک العلۃ۔ اور وہ مکان مردانہ بھی اس سے مستثنی ہے جہاں آدمی اس غرض سے بیٹھا ہو کہ جس کا دل چاہے ملنے کو آئے للاذن دلالۃ۔ اور جو مکان خلوت و آرام کے لیے مخصوص ہو، گومردانہ ہی ہو۔ یا مکان ملاقات کا خلوت خانہ میں جانا کسی وقت قرائن سے معلوم ہوجائے وہاں استیذان کی حاجت ہوگی، اور ہرچند کہ یہاں خطاب مردوں کو ہے مگر عورتوں کا حکم بھی یہی ہے اور مردانہ میں بھی اور زنانہ میں بھی۔ “ (تھانوی (رح) ایک صورت تو اذن صریح کی ہے، باقی اذن کبھی ضمنی بھی ہوتا ہے۔ مثلا مشائخ کے ہمراہ خادموں وامراء کے ہاں ملازموں کے لیے۔ اور کبھی اذن حکمی بھی ہوتا ہے۔ مثلا کسی حکم یا عرف یا قاعدہ سے معلوم ہوجائے کہ یہ وقت عام ملاقات کا ہے۔ یا میرے لیے مخصوص ہے ایسے موقعوں پر دریافت کرنے کی ضرورت نہیں، ایک گھر کے اندر جب کئی درجہ ہوں تو ہر درجہ جس میں کوئی مستقل رہتا ہو۔ ایک مستقل گھر کے اندر جب کئی درجہ ہوں تو ہر درجہ جس میں کوئی مستقل رہتا ہو۔ ایک مستقل گھر کے حکم میں ہے۔ اور اس میں جانے کے لیے اذن شرط ہے۔ (آیت) ” تستانسوا “۔ محض اجازت طلب کرنیکے لیے لفظ تستاذنوا کافی تھا۔ بجائے اس کے (آیت) ” تستانسوا “۔ لانے سے (جوانس سے ہے) مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسے اپنا نام وپتہ پوری طرح بتا دو تاکہ اسے وحشت نہ رہے۔ 46۔ یعنی اس اجازت لینے میں ہرگز اپنے لیے کوئی ذلت نہ سمجھو، یہ تو ذریعہ ہے بہت سے مفاسد کی جڑ کاٹ دینے کا، اور ہر طرح مفید ہی ہے۔ (آیت) ” ذلکم “۔ یعنی یہی اجازت طلبی اور سلام۔ اے الا ستیذان والتسلیم (مدارک)
Top