Tafseer-e-Majidi - An-Noor : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَبِالرَّسُوْلِ : اور رسول پر وَاَطَعْنَا : اور ہم نے حکم مانا ثُمَّ يَتَوَلّٰى : پھر پھر گیا فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مِّنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ اُولٰٓئِكَ : اور وہ نہیں بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور جب یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ (رسول) ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو ان میں کا ایک گروہ پہلو تہی کرتا ہے،102۔
102۔ (رسول کی خدمت میں حاضری دینے سے) یہ آیت اوپر کی آیت کی تفصیل کررہی ہے۔ یعنی اپنے قضیوں، جھگڑوں کے فیصلہ کے واسطے جب یہ رسول اللہ ﷺ کے حضور میں طلب کیے جاتے ہیں تو یہ لوگ یہ سمجھ کر کہ وہاں تو فیصلہ تمامتر حق و انصاف ہی کے مطابق ہوگا، اور کوئی خیانت، چالاکی چلنے نہ پائے گی، ٹال مٹول کرجاتے ہیں۔ (آیت) ” دعوا الی اللہ “۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی طلبی صرف بارگاہ رسول ہی میں ہوتی تھی مگر چونکہ رسول کے فیصلے عین خدائی ہی فیصلے کے نافذ کرنے والے ہوتے تھے اس لیے دعوا کے ساتھ (آیت) ” الی اللہ “ بڑھا دیا گیا۔ (آیت) ” دعوا الی اللہ “۔ میں دعوت حکم اللہ کی طرف ہے۔ دوربین فقہاء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ حاکم اسلام جب کسی مقدمہ کے تصیفہ کے لیے بلائیں تو حاضری لازمی ہے۔ معناہ الی حکم اللہ ھذا یدل علی من ادعی الی غیرہ حقا ودعاہ الی الحاکم فعلیہ اجابتہ والمصیر معہ الیہ (جصاص)
Top