Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 26
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ١ۘ وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
فَاٰمَنَ : پس ایمان لایا لَهٗ : اس پر لُوْطٌ : لوط وَقَالَ : اور اس نے کہا اِنِّىْ : بیشک میں مُهَاجِرٌ : ہجرت کرنیوالا اِلٰى رَبِّيْ : اپنے رب کی طرف اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ الْعَزِيْزُ : زبردست غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
پھر لوط (علیہ السلام) نے ان کی تصدیق کی،27۔ اور (ابراہیم علیہ السلام) بولے کہ میں اپنے پروردگار کی طرف ترک وطن کرکے چلا جاؤں گا بیشک وہی بڑا زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے،28۔
27۔ لوط حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور آگے چل کر خود بھی نبوت سے مشرف ہوئے، مفصل حاشیے پچھلی سورتوں میں گزر چکے۔ 28۔ وہ میری حفاظت پر بھی ہر طرح قادر ہے اور میری رہنمائی پر بھی (آیت) ” الی ربی “۔ یعنی اس مقام کی طرف جو میرے پروردگار کا بتایا ہوا ہے۔ اے الی حیث امرنی بالتوجہ الیہ (کبیر) امام رازی (رح) نے خوب لکھا ہے کہ قرآنی فقرہ (آیت) ” الی ربی “ تفسیری فقرہ الی حیث امرنی ربی سے کہیں زیادہ بلند وبلیغ ہے۔ یہ کہ اس میں توجہ تمامتر پروردگار ہی کی طرف ظاہر ہورہی ہے نہ کہ کسی جہت ومقام کی طرف (آیت) ” الی ربی “۔ بعض صوفیہ نے کہا ہے کہ اسی طرح طریقت میں اپنے رب کی طرف فنا ومحوہونا ہے اپنی خواہش واختیار وہستی کو ترک کرکے۔
Top