Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 15
وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ١ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِیْلًا
وَالّٰتِيْ : اور جو عورتیں يَاْتِيْنَ : مرتکب ہوں الْفَاحِشَةَ : بدکاری مِنْ : سے نِّسَآئِكُمْ : تمہاری عورتیں فَاسْتَشْهِدُوْا : تو گواہ لاؤ عَلَيْهِنَّ : ان پر اَرْبَعَةً : چار مِّنْكُمْ : اپنوں میں سے فَاِنْ : پھر اگر شَهِدُوْا : وہ گواہی دیں فَاَمْسِكُوْھُنَّ : انہیں بند رکھو فِي الْبُيُوْتِ : گھروں میں حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَوَفّٰىھُنَّ : انہیں اٹھا لے الْمَوْتُ : موت اَوْ يَجْعَلَ : یا کردے اللّٰهُ : اللہ لَھُنَّ : ان کے لیے سَبِيْلًا : کوئی سبیل
اور تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں،51 ۔ ان پر چار (آدمی) اپنے میں سے گواہ کرلو سو اگر وہ گواہی دے دیں تو ان (عورتوں) کو گھروں کے اندر بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کردے۔52 ۔ یا اللہ انکے لیے کوئی (اور) راہ نکال دے،53 ۔
51 ۔ یعنی زنا کے مرتکب ہوں۔ (آیت) ” الفاحشۃ “۔ فاحشۃ قولی وفعلی ہر بڑی برائی کے لیے عام ہے۔ الفاحشۃ ماعظم قبحہ من الافعال والاقوال (راغب) الفعلۃ القبیحۃ (کبیر) یہاں مراد زنا ہے۔ کنایۃ عن الزنا (راغب) واجمعواعلی ان الفاحشۃ ھھنا الزنا (کبیر) استعملت کثیرا فی الزنا لانہ من اقبح القبائح وھو المراد علی الصحیح (روح) (آیت) ” نسآئکم “۔ نساء ہر عورت کے لیے عام ہے یہاں مراد بیویاں ہیں۔ 52 ۔ زنا کی ایک سزا ابتداء اسلام میں عمرقید یا دائم الجس تھی۔ (آیت) ” اربعۃ منکم۔ اربعۃ “۔ اول تو نصاب شہادت اس معاملہ میں دوگنا ہے یعنی جہاں مسلمان مرد یا عورت کی عزت کا سوال ہے، گواہوں کی تعداد بجائے دو کے چار ہونا چاہیے اور پھر یہ چاروں :۔ ( 1) مسلم ہوں غیر مسلم نہ ہوں (2) آزاد ہوں، غلام نہ ہوں (3) عاقل ہوں، فاتر العقل نہ ہوں (4) بالغ ہوں، نابالغ نہ ہوں ، (5) گواہی چشم دید دیں، سماعی یا قیاسی شہادت کا یہاں دخل نہیں،۔ (آیت) ” فامسکوھن “۔ یہ قید حکام یا اہل حل وعقد کے حکم سے ہونا چاہیے۔ ھذا خطاب للحکام (معالم) فامسکوھن فی البیوت یعنی گھروں کے اندر انہیں قید یا نظر بند کردو بعض ظالموں نے جو اس سے پردہ مراد لیا ہے انہوں نے اپنی عقل وفہم پر ظلم کیا ہے فاحبسو ھن فی البیوت واجعلوھا سجنا علیھن (بیضاوی) 53 ۔ (اپنے رسول پر وحی کے ذریعہ سے) فقرہ خود اس پر دلالت کررہا ہے کہ گھروں کے اندر دائمی نظر بندی کی سزا عارضی تھی اور آئندہ کوئی دوسری سزا تجویز ہونے والی ہے چناچہ کچھ روز بعد سورة النور میں قرآن ہی کے ذریعہ سے دوسری سزا تجویز ہوئی۔ یعنی زانی مراد اور زانی عورت دونوں کو لیے سو 100 سو 100 تازیانے۔ اور سنت رسول ﷺ نے اس کی مزید تشریح یہ کی کہ یہ سزا ناکت خدا کے لیے ہے اور بیا ہے ہوؤں کے لیے جرم کی سزا سنگساری ہے۔ وھذا کلہ کان قبل نزول الحدود فنسخت بالجلد والرجم والجلد فی القرآن والرجم فی السنۃ (معالم)
Top