Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ (دوسری) بیوی بدلنا چاہو،69 ۔ اور تم اس بیوی کو (مال کا) انبار دے چکے ہو تو تم اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو،70 ۔ کیا تم بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کرکے اسے (واپس) لوگے،71 ۔
69 ۔ بلا اس کے کہ اس پہلی بیوی کا کوئی قصور ہو۔ یعنی محض اپنی رغبت و خواہش سے تم ایک بیوی چھوڑ کر دوسری کرنا چاہتے ہو۔ 70 ۔ (اور اس طرح اقرار کیے ہوئے مال کو روک بھی مت رکھو) (آیت) ” احدھن “۔ یعنی اس پہلی بیوی کو جسے اب چھوڑ رہے ہو، (آیت) ” قنطارا “۔ کے معنی مال کے انبار کے ہیں۔ القنطار المال العظیم (کبیر وکشاف) اس پر ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ حدیث میں تو مہر کی زیادتی کی ممانعت آئی ہے لیکن خلیفہ راشد حضرت عمر ؓ نے ایک مسجد میں سرمنبر گوپہلے مہر کی زیادتی سے روکا لیکن ایک ضعیفہ کے ٹوکنے پر اس کا جواز بھی تسلیم کرلیا اور خود اس آیت سے بھی ڈھیروں مال کا جواز ثابت ہو رہا ہے ؟ سوال کا ایک مشہور جواب تو امام رازی (رح) کے قلم و دماغ سے ہے یعنی آیت سے جواز کہاں ثابت ہوا ؟ آیت نے تو محض ایک مفروض ومشروط حالت کا ذکر کیا ہے کہ اگر تم ڈھیروں مال دے چکے ہو جب بھی اس کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں، اس سے اس مفروضہ یا شرط کا صحیح ہونا تو لازم نہیں ہوتا۔ لیکن اس سے بھی صاف، دل نشین اور بےتکلف جواب ہمارے زمانہ کے امام شریعت مفسر تھانوی (رح) کے قلم سے نکلا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ” یہ جواز مفہوم من القرآن بہ معنی صحت نفاذ ہے۔ اور حدیث میں جواز بہ معنی اباحت مطلقہ وعدم کراہت کی نفی ہے، پس کچھ تعارض نہیں، اور حضرت عمر ؓ کا ایک واقعہ میں زیادہ مہر کے جواز کو مان لینا اس لیے تھا کہ سامعین اس کو حرام نہ سمجھنے لگیں پس اس سے کراہت کا عدم ثابت نہیں ہوتا نہ حضرت عمر ؓ پر کوئی اعتراض لازم آتا ہے۔ “ 71 ۔ یعنی بلاوجہ واپس لوگے تو یا تو صریح ظلم کے مرتکب ہوگے اور یا پھر بات بنانے کے لیے عورت پر کوئی جھوٹا سنگین الزام، زنا کاری یا نافرمانی کا لگانا ہوگا۔
Top