Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں، مگر ہاں جو کچھ ہوچکا (ہوچکا) ،73 ۔ بیشک یہ بڑی بےحیائی اور نفرت کی بات تھی اور بہت برا طریقہ تھا،74 ۔
73 ۔ یعنی اس حکم کے نزول سے قبل جو ہوچکا۔ اب اس پر باز پرس نہیں۔ ای قبل نزول ایۃ التحریم فانہ معفوعنہ (کبیر) (آیت) ” لا تنکحوا “ میں نکاح اپنے لغوی معنی یعنی صحبت کرنے کے مفہوم میں لیا گیا ہے۔ فیہ تحریم وطی موطوء ۃ الاب بنکاح اوبملک یمین اور بزنا کما ھو مذھبنا وعلیہ کثیر من المفسرین (مدارک) (آیت) ” مانکح ابآؤکم “۔ عرب جاہلیت کے اس دستور کی طرف اشارہ ہے کہ سوتیلی ماؤں سے بھی نکاح کرلیا جاتا تھا۔ قال ابن عباس وجمھور المفسرین کان اھل الجاھلیۃ یتزوجون بازواج اباءھم (کبیر) (آیت) مانکح “ میں یتزوجون بازواج اباءھم (کبیر) (آیت) ” مانکح “ میں ما۔ من۔ کے معنی میں ہے۔ مابمعنی من (جلالین) (آیت) ” ابآؤکم “۔ اس کے ذیل میں وہ بیویاں بھی آگئیں جو دادا یا نانا کے نکاح میں رہ چکی تھیں ، 74 ۔ قرآن مجید نے تین لفظ استعمال کیے ہیں اور تینوں سے الگ الگ اشارے ہیں۔ (آیت) ” فاحشۃ “۔ یہ دستور بجائے خود اور عقلا بھی بڑی بےحیائی کی چیز تھا۔ (آیت) ” مقتا “۔ مذاق سلیم رکھنے والوں کے عرف میں بڑی گندی چیز تھا۔ مقت کہتے ہیں ایسی بری چیز کو جسے دیکھ ہی کر طبیعت میں گھن پیدا ہو۔ المقت بغض شدید لمن تراہ تعاطی القبیح (راغب) خود اہل جاہلیت بھی اس نکاح کو بہت بری نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کا نام ہی نکاح المقت پڑگیا تھا (آیت) ” سآء سبیلا “۔ یعنی اس کے نتائج بھی بڑے قبیح تھے۔ امام رازی (رح) نے فرمایا کہ قبیح کے تین درجہ ہوتے ہیں، ایک قبح عقلی، دوسرے قبح شرعی، تیسرے قبح عرفی، فاحشہ میں اشارہ اول کی جانب ہے، مقتا میں دوم کی جانب، ساء سبیلا میں سوم کی طرف۔
Top