Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 40
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ١ۚ وَ اِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَظْلِمُ : ظلم نہیں کرتا مِثْقَالَ : برابر ذَرَّةٍ : ذرہ وَاِنْ : اور اگر تَكُ : ہو حَسَنَةً : کوئی نیکی يُّضٰعِفْھَا : اس کو کئی گنا کرتا ہے وَيُؤْتِ : اور دیتا ہے مِنْ لَّدُنْهُ : اپنے پاس سے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
بیشک اللہ ذرہ بھر سے ظلم نہیں کرے گا،134 ۔ اور اگر ایک نیکی ہوگئی تو اسے دوگنا کردے گا اور اپنے پاس سے اجر عظیم دے گا،135 ۔
134 ۔ (قیامت کے دن) یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کی کوئی نیکی بلااجر رہ جائے یا کوئی بدی کسی کے حساب میں خواہ مخواہ لکھ لی جائے۔ (آیت) ” ان اللہ لایظلم “۔ اللہ جو خالق مطلق، حاکم مطلق، مالک مطلق ہے، حقیقۃ ظلم کا اطلاق تو اس کے کسی فعل پر بھی کسی حال میں نہیں ہوسکتا، یہاں مراد تو یہ ہے کہ وہ ظاہر میں اور مجازی معنی میں بھی ظلم نہیں کرتا۔ آیت میں دو پہلو اور بھی ہیں۔ ایک تو مشرک قوموں نے اپنی دیوی دیوتاؤں کو ظالم، ستم گر، خون خوار مانا ہے (مثلا کالی مائی) حق تعالیٰ کی تنزیہ اس قسم کی صفات سے کلیۃ ہوگئی۔ دوسرے جن آیتوں میں حق تعالیٰ کی قوت مطلق اختیارات کامل کا اثبات ہے، ان سے ممکن تھا کہ مسلمانوں کو بھی یہ خیال ہوجاتا کہ ہر طرح کا ظلم اس قادر مطلق کے لئے رواہے۔ اس کی تردید بھی آیت سے ہوگئی۔ 135 ۔ (سو کیا ٹھکانا ہے ایسے پروردگار کی رحمت وکرم کا) (آیت) ” من لدنہ “۔ اپنے پاس سے، یعنی زاید ازاستحقاق بلکہ بلااستحقاق۔ اسلام کا خدا نہ کوئی خون خوار دیوتا ہے نہ ایسا معذور کہ کسی پر کرم کرنا چاہے بھی تو اپنی صفت عدل کو برقرار رکھنے کے لئے کسی اور پر ظلم اسے کرنا پڑے ! شرک اور مسیحی شرک دونوں کی تردید آیت سے ہوگئی۔
Top