Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تو نے ان پر نظر نہیں کی جو اپنے پاکیزہ ٹھہراتے ہیں،160 ۔ حالانکہ اللہ جسے چاہے پاکیزہ ٹھہرائے،161 ۔ اور ان پر دھاگا برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا،162 ۔
160 ۔ (آیت) ” الم ترالی الذین “۔ یعنی ایسے لوگوں کی حماقت بھی قابل دید ہے۔ (آیت) ” الذین یزکون انفسھم “۔ یعنی اللہ نے توحید وتقوی کو جو معیار فضیلت، ومقبولیت رکھ دیا ہے، اسے چھوڑ چھاڑ لوگوں نے نسل وغیرہ کے طرح طرح کے معیار شرف و بزرگی کے گڑھ لئے ہیں اور ان بنیادوں پر اپنے کو معظم ومقدس سمجھنے لگتے ہیں، یہ تمام ترحماقت وضلالت ہے۔ آیت کا اشارہ خاص یہود کی جانب ہے۔ اپنے کونسل انبیاء میں سے ہونے کی بنا پر مقدس سمجھ رہے تھے باقی ہندوستان میں برہمن، چھتری وغیرہ اپنے کو محض مقدس خدندانوں سے انتساب کی بنا پر مقدس سمجھنے والے، اپنے چندر بنسی، سورج بنسی ہونے پر فخر وناز کرنے والے یا جاپانیوں کی طرح اپنے کو دیوتاؤں کی نسل میں قرار دینے والے سب اس کے تحت میں آجاتے ہیں۔ اور ہاں پھر کسی درجہ میں مسلمان پیرزادے، مخدوم زادے، سیدزادے وغیرہا۔ 161 ۔ یعنی معتبر تو پاکیزگی اسی کی ہے جسے اللہ پاکیزہ قرار دے اور اپنے زعم وپندار میں اپنے کو پاکیزہ ٹھیرالینے سے کیا ہوتا ہے۔ 162 ۔ یعنی جو سزا انہیں ملے گی وہ ان کے جرم سے ذرہ بھر بھی زائد نہ ہوگی، ان کا جرم ہے ہی اسی سزا کا مستحق (آیت) ” فتیلا “۔ فتیل کے لفظی معنی دھاگے کے ہیں۔ عربی محاورہ میں مراد حقیر سے حقیر چھوٹی سے چھوٹی چیز سے ہوتی ہے۔ جیسے ایک دوسری جگہ (آیت) ” ولا یظلمون نقیرا “۔ بھی آیا ہے۔ یرجع الی الکنایۃ عن تحقیر الشیء وتصغیرہ (قرطبی) اشارۃ الی اقل شئی (بحر) جیسے اردو میں ایسے موقع پر ” ذرہ بھر “” رتی بھر “۔ بال برابر “ استعمال ہوتے ہیں۔
Top