Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 56
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًا١ؕ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : کفر کیا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کا سَوْفَ : عنقریب نُصْلِيْهِمْ : ہم انہیں ڈالیں گے نَارًا : آگ كُلَّمَا : جس وقت نَضِجَتْ : پک جائیں گی جُلُوْدُھُمْ : ان کی کھالیں بَدَّلْنٰھُمْ : ہم بدل دیں گے جُلُوْدًا : کھالیں غَيْرَھَا : اس کے علاوہ لِيَذُوْقُوا : تاکہ وہ چکھیں الْعَذَابَ : عذاب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
بیشک جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کے ساتھ کفر کیا، ہم انہیں عنقریب (دوزخ کی) آگ میں جھونکیں گے جب کبھی انکی جلدی پک جائیں گی ہم ان کی جلدوں کو بدل کر دوسری کردیا کریں گے تاکہ وہ (برابر تازہ) عذاب چکھتے رہیں،173 ۔ بیشک اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے،174 ۔
173 ۔ آیت کا مقصود اہل دوزخ کے دوام عذاب کا اعلان ہے۔ (آیت) ” نضجت “۔ نضج کے لفظی معنی پک جانے کے ہیں۔ یہاں مراد جل چکنے سے ہے مقصود یہاں یہی ہے کہ عذاب منقطع نہ ہوگا۔ اور احساس عذاب ہمیشہ تازہ ہوتا رہے گا۔ یمکن ان یقال ھذا استعارۃ عن الدوام وعدم الانقطاع (کبیر) المقصود بیان دوام العذاب وعدم انقطاعھا (کبیر) صاحب بحر نے بھی اس قول کو نقل کیا ہے اگرچہ قبول نہیں کیا ہے۔ ارشاد یہ ہورہا ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ کھال جب جل جائے گی تو اس میں مزید الم کا ادراک ہی کہاں باقی رہے گا، نہیں بلکہ کھال کا احساس ہر دم تازہ ہوتا رہے گا اور جلد بےحس کبھی بھی نہ ہونے پائے گی، ، آخرت میں خواص اشیاء کو دنیا کے خواص طبعی پر قیاس کرنا یوں بھی کمال بےدانشی ہے۔ 174 ۔ چناچہ صفت عزیز کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نئے پرانے ہر قسم کے عذاب پر ہر وقت قادر ہے اور صفت حکیم کا تقاضا یہ ہے کہ عذاب ہو یا تجدید عذاب۔ کوئی بھی شے حکمتوں اور مصلحتوں سے خالی نہیں۔
Top