Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠   ۧ
اَفَحُكْمَ : کیا حکم الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَبْغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَمَنْ : اور کس اَحْسَنُ : بہترین مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ حُكْمًا : حکم لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
تو کیا یہ لوگ زمانہ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں ؟ ،188 ۔ اور جو قوم یقین (و ایمان) رکھتی ہے اس کے نزدیک اللہ سے بہترفیصلہ کس کا ہوسکتا ہے ؟ ،189 ۔
188 ۔ (حالانکہ اس دور سے خود ہی پناہ مانگتے ہیں) یہود ونصاری کو قائل کیا جارہا ہے کہ تم جو اسلام کے قانون سے گریزکر رہے ہو، تو یہ تو عمدا دور جاہلیت ہی کی طرف واپس جانا ہوا۔ جس قانون کی بنیاد تمامتر عدل اور ہر جہتی انصاف پر ہے، وہ تو اسلام ہی کا خدائی قانون ہے۔ ورنہ جاہلی قوموں کا عملدر آمد تو اسی اصل اصول پر رہا ہے (اور دور جاہلیت عرب اس سے مستثنی نہ تھا) کہ زبردست کا ساتھ دو ، جو قوی ہے اسے قوی تر کردو، اور زیر دستوں کی کوئی پروا نہ کرو، خود یہود اہل کتاب وصاحب شریعت ہونے کے باوجود اس فضا سے اس حد تک متاثر ہوچکے تھے کہ ان کے دو فرقے بنو نضیر اور بنو قریظہ جو حوالی مدینہ میں آباد تھے، ان میں بنو نضیر چونکہ زبردست تھے، اس لیے انہوں نے قاعدہ یہ مقرر کرلیا تھا کہ قتل وغیرہ کے معاملات میں د یت کی جتنی رقم خود دیتے، اس کی دوگنی شرح سے بنو قریظہ سے وصول کرتے ! (آیت) ” الجاھلیۃ “۔ جاھلیت پر حاشیہ پارہ 4 آل عمران، آیت 154 میں گزر چکا ہے، قانون جاہلیت کا اطلاق ہر ایسے قانون پر ہوگا جو خدائی اور آسمانی قانون کے مقابلہ میں بشری دماغ چلاتے ہیں، یا بشری اختراعات کو دخل دیتے ہیں، اور ایسے لوگوں کو قطعی کافرٹھہرایا ہے، جن سے جہاد واجب ہے، پوری عبارت گو طویل ہے لیکن نظر میں رکھنے کے قابل۔ ینکر تعالیٰ علی من خرج عن حکم اللہ المحکم المشتمل علی کل خیر الناھی عن کل شرو عدل الی ما سواہ من الاراء والاھواء والاصطلاحات التی وضعھا الرجال بلا مستند من شریعۃ اللہ کما کان اھل الجاھلیۃ یحکمون بہ من الضلالات والجھالات بما یضعونھا باراء ھم واھواء ھم وکما یحکم بہ التتار من السیاسات الملکیۃ الماخوذۃ عن ملکھم فان الذی وضع لھم الیاسق وھو عبارۃ عن کتاب مجموع من احکام قد اقتبسھا عن شرائع شتی من الیھودیۃ والنصرانیۃ والملۃ الاسلامیۃ وغیرھا وفیھا کثیر من الاحکام اخذھا من مجرد نظرہ وھواہ فصارت فی نبیہ شرعا متبعا یقدمونہ علی الحکم بکتاب اللہ وسنۃ رسول اللہ فمن فعل ذلک فھو کافر یجب قتالہ حتی یرجع الی حکم اللہ ورسولہ فلا یحکم سواہ فی قلیل ولا کثیر۔ 189 ۔ شریعت الہی سے بڑھ کر عادلانہ وحکیمانہ، صحیح ومناسب قانون اور کون ہوسکتا ہے، لیکن اتنی موٹی سی بات بھی محسوس وہی کرتے ہیں۔ جن کی عقلیں شرک والحاد کے زنگ سے صاف اور ایمان وایقان کی روشنی سے منور ہوتی ہیں۔
Top