Tafseer-e-Majidi - At-Talaaq : 12
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ١ؕ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ١ۙ۬ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۠   ۧ
اَللّٰهُ الَّذِيْ : اللہ وہ ذات ہے خَلَقَ سَبْعَ : جس نے پیدا کیا سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَّمِنَ الْاَرْضِ : اور زمین میں سے مِثْلَهُنَّ : انہی کی مانند يَتَنَزَّلُ : اترتا ہے الْاَمْرُ : حکم بَيْنَهُنَّ : ان کے درمیان لِتَعْلَمُوْٓا : تاکہ تم جان لو اَنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ عَلٰي كُلِّ : اوپر ہر شَيْءٍ : چیز کے قَدِيْرٌ : قادر ہے وَّاَنَّ اللّٰهَ : اور بیشک اللہ تعالیٰ نے قَدْ اَحَاطَ : تحقیق گھیر رکھا ہے بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز کو عِلْمًا : علم کے اعتبار سے
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پید اکئے اور انہیں کی طرف زمین بھی ان (سب) میں (اللہ کے) احکام نازل ہوتے رہتے ہیں، تاکہ تم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے، اور یہ کہ اللہ ہر شے (اپنے) علم سے گھیرے ہوئے ہیں،25۔
25۔ یعنی حق تعالیٰ کی صفات قدرت وعلم ہر طرح کامل، جامع وہمہ گیر ہیں۔ (آیت) ” ومن الارض مثلھن “۔ اس سے عام طور پر یہ استدلال کیا گیا ہے کہ زمینیں بھی تعداد میں سات ہی ہیں۔ اور یہ احتمالات بھی مفسر تھانوی (رح) اور دوسرے محققین سے منقول ہیں، کہ ممکن ہے، یہ زمینیں ایسی ہوں جو نظرنہ آتی ہوں یا یہ کہ انہیں کو لوگ مریخ وغیرہ کواکب کے نام سے موسوم کرتے ہوں، اور صاحب روح المعانی نے جس کی تاریخ اختتام 1267 ؁ھ یا انیسویں صدی عیسوی کا وسط ہے، ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ اس سے مراد زمین کے ساتھ بڑے خطے امریکہ، ایشیا، یورپ، افریقہ وغیرہ ہیں۔ اور محقق موصوف نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ممکن ہے کرۂ قمر وغیرہ کی مزید تحقیق کے بعد وہاں بھی زمین ثابت ہو۔ اور اس طرح زمینوں کے تعدد پر حس ومشاہدہ کی بھی گواہی ہوجائے، اس عاجز کے ذہن میں تو مثلیت کا اصل تعلق عدد سبع سے نہیں بلکہ فعل خلق سے ہے۔ یعنی یہ زمین یا زمینیں بھی آسمان ہی کی طرح مخلوق ہیں۔ اور یہ کہ ہر آسمان اور ہر زمین پر مخلوق بھی اسی کے ماحول کے متناسب آباد ہے۔ اور دلی مسرت ہوئی، جب ان سطور کی تحریر کے بعد مثلیت متعلق یہی قول بعض تفسیروں میں بھی نظرپڑگیا۔ وقیل المثلیۃ فی الخلق لافی العدد ولا فی غیرہ (روح) حدیث میں جو ان زمینوں کا اس زمین کے تحت میں ہونا وارد ہے ممکن ہے وہ باعتباربعض حالات کے ہو اور بعض حالات میں وہ زمین سے فوق ہوجاتی ہوں (تھانوی (رح)) اس عاجز کے خیال میں تو یہ بھی آسانی سے ممکن ہے کہ مراد اسی زمین کی سات پرتوں یا ساتھ تہوں سے ہو کہ اس سطح زمین کے نیچے 6 پرت یا 6 تہیں اور ہیں۔ (آیت) ” یتنزل الامر “۔ نزول احکام سے مراد احکام تشریعی کا نزول بھی ہوسکتا ہے اور احکام تکوینی کا بھی اور دونوں کے مجموعہ کا بھی، اسی نزول امر کا آسمانوں پر ملائکہ کے لیے ہوتے رہنا تو ظاہر ہی ہے اور تصرفات تکوینی کا اسی طرح ہر ممکن زمین پر ہوتے رہنا بھی اسی طرح ظاہر ہے۔ (آیت) ” لتعلموا “۔ الخ۔ یعنی یہ علم تمہیں اس لیے دے دیا گیا، تاکہ تم کو حق تعالیٰ کی قدرت کامل اور علم محیط پوری طرح معلوم ہوجائے۔
Top