Tafseer-e-Majidi - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور اسے ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اسے گمان بھی نہیں ہوتا،8۔ اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے گا سو اللہ اس کے لئے کافی ہے، اللہ اپنا کام (بہرحال) پورا کرکے رہتا ہے، اللہ نے ہر شے کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے،9۔
8۔ آیت میں صاف اس کی تعلیم ہے کہ دشواریوں اور تنگیوں سے نکلنے کی کنجی تقوی الہی ہے۔ (آیت) ” یجعل لہ مخرجا “۔ یعنی اسے ہر قسم کی مشکلات سے نجات دلا دیتا ہے۔ (آیت) ” ویرزقہ من حیث لا یحتس “۔ قرآن مجید کی جن چند آیتوں کی صداقت وحقانیت پر، اپنے ذاتی تجربہ ومشاہدہ کی بناء پر بےاختیار وجد کرنے کو جی چاہتا ہے، ان میں ایک یہ آیت بھی ہے، واقعہ یہی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے ایسے راستوں اور وسیلوں سے کھلاتا، پلاتا، آمدنیاں دلاتا ہے ادھر ان کا وہم و گمان بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اپنے اور دوسروں کیلئے روز مرہ اس کے مشاہدے ہوتے رہتے ہیں، بلکہ (آیت) ” ومن یتق اللہ کی قید کے بغیر بھی ! تقوی کے بغیر بھی عجیب عجیب اور حیرت انگیز طریقوں سے روزی پہنچاتا رہتا ہے۔ 9۔ (اور وہ انداز معین ہمیشہ حکمت ہی پر مبنی ہوتا ہے) یعنی خدائی کارخانہ میں کوئی چیز یوں ہی اٹکل پچو تھوڑے ہی ہوجاتی ہے۔ اس نظام عالم کا ادنی سے ادنی جزئیہ ایک حکیمانہ قانون کا پابند اور اسی سے وابستہ ومنسلک ہے۔ (آیت) ” ومن .... حسبہ “۔ یہ ان یہ بتلادیا کہ حق تعالیٰ ہی کی ذات تو تمام اسباب ظاہری کا آخری سرچشمہ اور ان پر حاکم و متصرف ہے، (آیت) ” ان اللہ بالغ امرہ “۔ یہاں یہ بتایا کہ جن چیزوں کو تم اسباب عادی سمجھ رہے ہو، ان کا اسباب عادی ہونا تو تمہارے ہی نقطہ نظر سے ہے۔ حق تعالیٰ تو بہرحال ان قوانین کا یا کوئی بھی قوانین ہوں، ان کا ہرگز محکوم وپابند نہیں۔
Top