Tafseer-e-Mazhari - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
انصاف کے دن کا حاکم
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ( مالک انصاف کے دن کا) عاصم و کسائی اور یعقوب کی قرأت میں مالک آیا ہے اور دیگر قاریوں نے مَلِکِ پڑھا ہے۔ ابو عمرو الرَّحِیْم مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن پڑھتے ہیں یعنی میم کو میم میں ادغام کرتے ہیں۔ اسی طرح ان دو متحرک حرفوں میں ادغام ہوتا ہے جو ایک جنس یا ایک مخرج کے ہوں یا دونوں قریب المخرج ہوں اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب ایک جنس کے دو حرف دو کلموں میں واقع ہوں تو ایسے سترہ حرفوں میں باہم ادغام جائز ہے ( لیکن چند مواقع ادغام سے مستثنیٰ ہیں) وہ سترہ حروف ہیں با۔ تا۔ ثا۔ حائے حطی۔ رائے غیر منقوطہ۔ سین مہملہ ‘ عین مہملہ اور عین کے بعد والے دس حروف ( غین سے لے کر یائے تحتانی تک) ان حرفوں میں سے ایک جنس کے دو حرف جب دو کلموں میں پاس پاس جمع ہوجائیں تو ادغام جائز ہے (ترتیب اور مثالیں الذَھَبْ بِسَمْعِھِم ( دیکھو لذھب کی ب اور بسمعھم کی ب دو کلموں میں واقع ہیں مگر پاس پاس ہونے کے سبب ان میں ادغام جائز ہے) علی ہذا القیاس غَیْرَ ذَات الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ ( الشوکۃ اور تکون کی ت) ثالث ثلٰثَۃٍ ( ثا) لا اَبْرَحُ حَتّٰی ( حائے حطی) وَاسْتَغْفَرْ رَّبَّہٗ ( رائے غیر منقوطہ) وَ تَرَی النَّاسُ سُّکَارٰی ( سین مہملہ) وَ طَبِع عَلٰی قُلُوْبِھِِمْ ( عین مہمل) وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ ( غین معجمہ) تَعْرِفْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ (فا) اَدْرَکَہُ الْغَرَقْ قَالَ (قاف) اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا (کاف) جَعَلْ لَّکُمْ ( لام) یَعْلَمُ مَّا اَحْسَن نَّدِیًّا ( میم و نون) اِلَّا ھُوَ وَّ الْمَلٰءِکَۃُ ( واوٗ ) اِنَّہٗ ھُوَ ( ہائے ہوز) یہاں ہائے ہوز کا صلہ ہونا مانع ادغام نہیں ہے۔ نُودِیْ یَّا مُوْسٰی ( یائے تحتانی) ان تمام حرفوں میں باہم ادغام جائز رکھا گیا ہے مگر اس قسم کے ادغام میں یہ شرط ہے کہ پہلا حرف تائے متکلم یا تائے مخاطب نہ ہو ورنہ ادغام جائز نہیں چناچہ کُنْتُ تُرَابًا اور اَنْتَ تُکْرِہُ میں ت کا ادغام نا درست ہے اور اسی طرح یہ بھی شرط ہے کہ پہلا حرف تنوین یا تشدید نہ رکھتا ہو اس لیے واسِعٌ عَلِیْمٌ کا عین اور ثُمَّ مِیْقَاتُ کا میم مدغم نہ ہو سکے گا جو موقع ادغام سے مستثنیٰ ہیں ان میں ایک لا یَحْزُنْکَ کُفْرُہٗ ہے چونکہ کاف سے پہلے اتفاقاً نون کا اخفا ہے اس لیے ابو عمرو 1 ؂ نے ادغام نہیں کیا۔ دوسرا وہ موقع ہے جہاں پہلے کلمہ کا پچھلا حرف محذوف ہو اور اس حذف کے باعث دو ہم جنس حرف ایک جا جمع ہوگئے ہوں مثلاً یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَام ( یبتغ دراصل یَبْتَغِیْ تھا) اور اِنْ یَّکُ کَاذِبًا ( کہ اصل میں یَکُنْ تھا) اور یخل لَکُمْ (دراصل یَخْلُوْنَھَا) ان کلمات میں ابو عمرو نے ادغام و اظہار دونوں باتوں کو جائز رکھا ہے۔ تیسرا موقع بعض کے نزدیک اٰل لوط ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اس میں ادغام جائز ہے۔ چوتھا موقع لفظ ھُوَ کا واؤ ہے جس کی ہائے ہوز ابو عمرو کی قرأت کے مطابق مضموم ہو اور اس کے بعد واو واقع ہو مثلاً ھُوَ وَ مَنْ یَّامُرُ بالْعَدْلِ یہ تیرہ جگہ ہے اور اس کے ادغام میں اختلاف ہے لیکن ادغام کی روایت قوی ہے۔ پانچواں موقع اسی ھو کا واؤ ہے جبکہ ابو عمرو کی قرأت کے مطابق ہائے ہوز ساکن ہو اور یہ تین جگہ ہے۔ فَھُوَ وَلِیُّھُمْ وَ ھُوَ وَاقِعٌ بِھِمْ اس میں بعض قراء بلا خلاف اظہار کے قائل ہیں اور بعض با خلاف مگر اظہار زیادہ قوی ہے یہ سب باتیں اس وقت ہیں کہ دو ہم جنس حرف دو کلموں میں ہوں لیکن اگر ایک کلمہ میں ہوں تو ابو عمر سے ادغام کی روایت صرف دو جگہ آئی ہے اوّل مَنَاسِکَکُمْ سورة بقرہ میں دوم سَلَکَکُمْ سورة مدثر میں مذکورہ بالا تمام قاعدے دو ہم جنس حرفوں کے ادغام کی بابت تھے۔ ہاں اگر دو قریب المخرج حرف ایک کلمہ میں جمع ہوجائیں تو قاف کاف میں مدغم ہوگا بشرطیکہ دونوں میں کا پہلا حرف ساکن اور دونوں کے بعد میم واقع ہو اسی لیے یَرْزُقُکُمْ میں ادغام ہوسکتا ہے۔ مِیثَاقَکُمْ اور نَرْزُقُکَ میں نہیں ہوسکتا طَلَّقَکُنَّ کے ادغام میں اختلاف ہے۔ اس کے سوا اور کہیں ادغام نہیں۔ البتہ اگر دو قریب المخرج حروف دو کلموں میں ہوں تو سولہ حرفوں میں ادغام جائز ہے بشرطیکہ وہ حروف تنوین والے اور تائے مخاطب یا مجزوم یا مشدد نہ ہوں چناچہ (1) زُحْزِحَ عَنِ النَّار میں حائے حطی عین میں مدغم ہوگی اور یہ بھی مروی ہے کہ یہ دونوں حرف جہاں کہیں مل جائیں تو حائے حطی عین میں مدغم ہوسکتی ہے مثلاً ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ. اَلْمَسِیْحُ عِیْسٰی . لَا جُنَاحَ عَلیْھِمَا (2۔ 3) قاف میں کاف مدغم ہوتا ہے اور کاف قاف میں بشرطیکہ دونوں کا ما قبل متحرک ہو مثلاً خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ لَکَ قَصُوْرًا ہاں فوق کل ذی علمٍ اور تَرَکُوْکَ قَاءِمًا میں اس لیے ادغام نہیں ہوا کہ دونوں کا ما قبل ساکن ہے (4) جیم تا میں مدغم ہوتا ہے چناچہ ذی المعارج تَعْرُجُ علی ہذا القیاس جیم کا ادغام شین میں درست ہے مثلاً اَخْرَج شَطْأَہٗ (5) شین معجمہ سین مہملہ میں مدغم ہوتا ہے۔ مثلاً ذِی العرش سَبِیْلًا (6) ضاد منقوطہ کو شین میں مدغم کرتے ہیں مثلاً لِبَعْضُ شَّانِھِمْ (7) سین مہملہ کا ادغام زائے منقوطہ میں درست ہے مثلاً اِذَا النُّفُوْسُ زُّوِّجَتْ عَلیٰ ہذا القیاس شین منقوطہ میں مثلاً واشْتَعَلَ الرَّاسْ شَیْبًا (8) دال مہملہ جہاں کہیں آئے دس حرفوں میں مدغم ہوجاتی ہے (1) ت میں مثلاً عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدْ تِلْکَ (2) س میں مثلاً عَدَدْ سِّنِیْنَ (3) ذ میں مثلاً وَالْقَلَاءِدْط ذّٰلِکَ (4) ش میں مثلاً شَھِدْ شَّاھِدٌ (5) ض میں مثلاً مِنْ بَّعْد ضَّرَّآءَ (6) ث میں یُرِیْد ثَّوَاب الدُّنْیَا (7) ز میں مثلاً تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحیٰوۃِ الدُّنْیَا (8) ص میں مثلاً نَفْقِد صُّوَاعَ الْمَلِکِ (9) ظ میں مثلاً مِنْ بَعْد ظُّلْمٍ (10) ج میں مثلاً دَاوٗدُ جَّالُوْتَ البتہ دار الْخُلْدِ جَزَآءً میں اختلاف ہے۔ تمام قرآن مجید میں دال طائے مہملہ کے ساتھ کہیں جمع نہیں ہوئی۔ دال مفتوحہ اگر ساکن کے بعد واقع ہو تو ت کے سوا اور کسی حرف میں مدغم نہیں ہوتی مثلاً لداوٗدَ سُلَیْمَانَ. بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ ۔ اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا۔ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا۔ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ ۔ بَعْدَ ظُلْمِہٖ ۔ بَعْدَ ثُبُوْتِھَا (ان مثالوں میں کہیں دال کا ادغام نہیں ہوا) لیکن کاد تَزِیْغُ اور بعد توکیدھا میں ادغام جائز ہے اور اس کی تیسری مثال نہیں پائی جاتی۔ تو ان ہی دس حرفوں میں مدغم ہوتی ہے لیکن جہاں دو ت جمع ہوجائیں اس کے متعلق ادغام کے قاعدے بیان ہوچکے ہیں علیٰ ہذا القیاست جہاں کہیں آئے گی ط میں مدغم ہوجائے گی۔ ت ہمیشہ ساکن ہو کر دال سے ملا کرتی ہے مثلاً قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا ایسی صورت میں ادغام واجب ہے۔ جواز ادغام کی مثالیں یہ ہیں۔ اَلْمَلٰءِکَۃُ طیّبین۔ بِالسَّاعَۃِ سَعِیْرًا۔ وَالذَّارِیٰتِ ذَرْوًا۔ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآءَ ۔ وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا۔ ت کے ض میں ادغام ہونے کی دوسری مثال (قرآن مجید میں) نہیں ہے۔ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلُ ۔ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا۔ وَالْمَلٰءِکَۃُ صَفًّا۔ وَالْمَلٰءِکَۃُ ظٰلِمِیْ ( یہ لفظ صرف سورة نساء اور سورة نمل میں ہے۔ تیسری مثال قرآن مجید میں نہیں ہے) عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ۔ حرف ساکن کی تائے مفتوحہ جہاں کہیں واقع ہوگی اس کا نام تائے خطاب ہے اور اس میں ادغام درست نہیں مگر ہاں چند موقع مستثنیٰ ہیں مثلاً الف کے بعد واقع ہو جیسا کہ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفِی النَّھَارِ ان میں بلا خلاف ادغام جائز ہے البتہ حُمِّلُوا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا میں اختلاف ہے۔ اسی طرح بعض موقعوں میں تائے مک سورة کی بابت اختلاف ہے۔ مثلاً اٰتِ ذی القُرْبٰی۔ وَلْتَأْتِ طَاءِفَۃٌ میں کسی نے ادغام جائز رکھا ہے کسی نے ناجائز۔ جءْتِ شَیْءًا کی ت اگرچہ تائے خطاب مکسور ہے مگر اس کے ادغام میں بھی اختلاف ہوا ہے ہاں تائے مفتوحہ کے ادغام میں اختلاف نہیں ہے۔ مثلاً لَقَدْ جِءْتَ شَیْءًا نُّکْرًا۔ ثَ ہر جگہ پانچ حرفوں میں مدغم ہوتی ہے۔ مثلاً (1) حَیْثُ تُوْمَرُوْنَ (2) وَوَرِث سُّلَیْمٰنُ (3) وَالْحَرْثُ ذٰلِکَ ۔ ذ میں مدغم ہونے کی صرف یہی ایک مثال ہے (4) حَیْث شِّءْتُمْ (5) حَدِیْثُ ضَیْفِ (ض میں مدغم ہونے کی اور کوئی مثال نہیں) ذ سین اور صاد میں ادغام کردی جاتی ہے۔ مثلاً فاتَّخَذْ سَبِیْلَہٗ سورة کہف میں دو جگہ ہے اور ما اتَّخَذْ صَاحِبَۃً لام ر میں ر لام میں ادغام کردی جاتی ہے۔ لیکن جب کسی حرف ساکن کے بعد یہ دونوں مفتوح واقع ہونگے تو ادغام نہ ہوگا۔ (ادغام کی مثال) کمثلُ رِیْحِ 228 ھُنَّ اَطْھَرْ لَّکُمْ ( عدم ادغام کی مثال) فَعَصَوْا رَسُوْلَ رَبِّھِمْ 228 اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ مگر قَالَ کا لام اگرچہ مفتوح بعد ساکن ہی کیوں نہ ہو جب اس کے بعد ر ہوگی مدغم ہوجائے گا۔ مثلاً قاَلَ رَّبِّ 228 قَالَ رَجُلَانِ ۔ قَالَ رَبُّکُمْ ۔ نون ر اور ل دونوں میں مدغم ہوتا ہے بشرطیکہ اس کا ماقبل متحرک ہو۔ مثلاً اِذْ تَاذَّنَ رَّبُّکَ ۔ خَزَاءِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ لَنْ نُؤْمِنْ لَکَ 228 تَبَیَّنْ لَّھُمْ ہاں سکون ما قبل کی حالت میں ادغام جائز نہیں۔ مثلاً یُخَافُوْنَ رَبَّھُمْ. بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ مگر نَحْنُ کا نون جہاں آئے گا باوجود سکون ما قبل مدغم ہو سکے گا مثلاً نَحْنُ لَہٗ وَ مَا نَحْنُ لَکَ اور یہ دس جگہ آتا ہے میم جس کے ما قبل حرف متحرک اور ما بعد ب واقع ہو ساکن خفی کردیا جاتا ہے اور یُعَذِبْ مَّنْ یَّشَآء میں ب ہر جگہ میم میں مدغم ہوجاتی ہے اور یہ سورة بقرہ کے سوا پانچ جگہ ہے۔ سورة بقرہ میں ابو عمرو کی قرأۃ کے لحاظ سے یُعَذِّبُ کی ب ساکن اور اس میں ادغام صغیر ہے۔ ابو عمر و جس جگہ ادغام کبیر کو جائز نہیں رکھتے وہاں تین صورتیں اور ہیں : (1) اِشمام ‘ (2) رَوم ‘ (3) اظہار۔ اشمام صرف حرف مضموم میں ہوتا ہے اور روم مفتوح کو چھوڑ کر مضموم اور مکسور میں۔ اشمام دونوں ہونٹوں کے ملانے کو کہتے ہیں گویا کسی معشوق کا بوسہ لے لیا۔ اس میں ضمہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور روم اخفاء اور بعض حرکت کے تلفظ کا نام ہے۔ ابوعمرو کے نزدیک اشمام اور روم تمام حروف میں جائز ہے لیکن ب میم کے ساتھ جمع ہو یا میم ب کے ساتھ تو ان صورتوں میں نہ اشمام جائز ہے نہ روم مثلاً نُصِیْبُ بِرَحْمَتِہٖ. یُعَذِّبْ مَّنْ یَشَآءُ 228 یَعْلَمُ مَّا اَعْلَمُ 228 بِمَا کَانُوْا اور جب دونوں حرفوں کے ما قبل حرف علت ساکن ہو تو ادغام نہ ہو سکے گا۔ 1 ؂ مثلاً خُذِ العَفْوَ وَ أمُر 228 بَعْدَ ظُلْمٍ 228 فِیْ المَھْدِ صَبِیًّا 228 دَار الخُلْدِ جَزَاءً ان میں اگر ادغام کیا جائے تو اجتماع ساکنین لازم آتا ہے ایسے موقع پر بعض حرکت کا تلفظ یعنی اخفاء اور روم ہی بمنزلہ ادغام ہے اس کو ادغام سے تعبیر کرنا مجاز ہے۔ اگر دونوں حرفوں کے ما قبل حرف علت ساکن ہو تو ادغام کرنا درست ہے مثلاً فِیْہِ ھُدًی 228 و قال لّھم 228 یَقُوْلُ رَبُّنَا 228 و قَوْمُ مُوْسٰی 228 وَ کَیْفْ فَّعَلَ وا اللہ اعلم۔ بعض کا قول ہے کہ مَلِک اور مالک کے ایک معنی ہیں جیسا کہ فَرِھِیْنَ 228 فَارِھِیْنَ 228 حَذِرِیْنَ اور حاذِرِیْنَ لیکن حق یہ ہے کہ مالک بمعنی رَب مِلْکٌ بکسر المیم سے مشتق ہے۔ یہ عرب کا محاورہ ہے مالِکُ الدَّار اور رَبُّ الدَّار 2 ؂ اور مَلِکْ بمعنی سلطان مُلْک بضم المیم سے لیا گیا ہے۔ دونوں لفظ خدا کی صفتیں ہیں اور دونوں قرأتیں متواتر ہیں اس لیے صرف قرأت ملک کو مختار کہنا جائز نہیں اور بعض کا قول ہے کہ مَلِکْ اور مالِکْ وہ ہے جو نیست سے ہست کردینے پر قادر ہو اس لیے ان لفظوں کا اطلاق ( مجاز سے قطع نظر) اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر درست نہیں۔ یَوْمِ الدِّیْنِ قیامت کا دن ہے۔ دین جزاء اور بدلے کو کہتے ہیں اور کَمَا تَدِیْنُ تُدَان دین ہی سے مشتق ہے (یعنی تو جیسے فعل کرے گا ویسا ہی بدلہ ملے گا) یہ ایک مشہور مثل اور مرفوع حدیث ہے اس کو ابن عدی نے کامل میں ضعیف سند سے روایت کیا ہے اور بیہقی کے نزدیک ایک حدیث مرسل اس کی شاہد ہے۔ احمد مالک بن دینار سے نقل کرتے ہیں کہ یہ توریت میں ہے اور دیلمی نے فضالہ بن عبید سے مرفوعًا روایت کیا ہے کہ یہ انجیل کا مضمون ہے مجاہد کہتے ہیں کہ یَوْمِ الدِّیْنِ بمعنی یوم الحساب ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں آیا ہے ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقََیِّمُ یعنی یہ سیدھا حساب ہے اور بعض کا قول ہے کہ دین بمعنی قہر ہے۔ عرب کہتے ہیں دَیَّنْتُہٗ فَدَانَ ( میں نے اس کو اطاعت پر مجبور کردیا اور وہ مطیع ہوگیا) یا لفظ دین سے اسلام اور طاعت مراد ہے کیونکہ وہ ایسا دن ہے جس میں اسلام اور اطاعت کے سوا کوئی چیز نفع نہ دے گی۔ یہاں اس دن کو مخصوص طور پر اس لے ذکر کیا گیا ہے کہ لفظ مَلِکْ کا اطلاق اس دن کے علاوہ اور ایام میں بطور مجاز غیر اللہ پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ بریں اس میں بندوں کو ڈرانا اور ان کو اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی طرف بلانا مقصود ہے۔ صفت کو ظرف یعنی مالک کو یوم کی طرف اس لیے مضاف کیا گیا ہے کہ یہاں ظرف مفعول بہ کے قائم مقام ہے چناچہ سارِقُ اللَّیْلَۃِ میں بھی اسی قسم کی اضافت ہے مالک ہے تو اسم فاعل کا صیغہ ( اور اسم فاعل حال اور مستقبل دونوں زمانوں میں مشترک ہوا کرتا ہے) مگر یہاں اس کے معنی ماضی کے ہیں جیسا کہ نادٰی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ میں کیونکہ جس چیز کا وقوع یقینی اور قطعی ہوا کرتا ہے وہ بمنزلہ واقع کے ہوا کرتی ہے اور جب یہ ہے تو اس کا معرفہ کی صفت واقع ہونا صحیح ہے۔ صفات مذکورہ یعنی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اور الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اور مالک یَوْمِ الدِّیْنِ اس لیے ذکر کی گئی ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ صرف ایک خدا ہی مستحق حمد اور سزا وار تعریف ہے اور جو ان صفات کے ساتھ متصف نہ ہو وہ قابل حمد نہیں چہ جائیکہ معبود قراردیا جائے۔ نیز آئندہ جملے اِیَّاکَ نَعْبُدُ الخ کی تمہید قائم کرنا بھی مقصود ہے اور الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ جیسا کہ اختیارکلی پر دلالت کرتا ہے ویسا ہی ایجاب بالذات کی نفی بھی کرتا ہے۔ (1) [ ارسطو اور اس کے متبعین اس کے قائل ہیں کہ واجب تعالیٰ تمام ممکنات کی علت العلل ہے یعنی اس کائنات کا واجب سے صدور بلا ارادہ اور بےاختیار ہوا ہے جس طرح سورج سے شعاعوں کا خروج بےارادہ ہے اور نہ صرف حدوث کائنات میں ارادۂ واجب کو دخل نہیں بلکہ صدور عالم واجب تعالیٰ سے بالذات لازم ہے یعنی یہ کائنات اصلاً اگرچہ ممکن ہے حادث ہے مگر قدیم بالغیر ہے اس باطل نظر یہ کہ بیخ کنی لفظ الرحمن الرحیم سے ہوجاتی ہے۔ رحمت یعنی مہربانی اور احسان غیر واجب الفضل کو کہتے ہیں۔ رحمت کرنے والا اپنے ارادہ اور اختیار سے غیر لازم مہربانی کرتا ہے ضروری حق ادا کرنے کو رحمت اور احسان نہیں کہا جاتا بلکہ اداء فرض کہا جاتا ہے پس اللہ کے رحمن و رحیم ہونے کا تقاضا ہے کہ اس کائنات کا صدور اس کے ذمہ واجب اور لازم نہ تھا نہ وجود وبقاء و وجود کا کوئی حق اس پر لازم تھا بلکہ اس نے اپنی مہربانی سے اس جہان کو بنایا اسباب بقاء پیدا کئے اور رفتہ رفتہ ترقی دے کر نوازا۔] پھر جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات مقدس کی نسبت اس بات کا اظہار فرما چکا کہ ہر طرح کی تعریف کا سزا وار میں ہی ہوں اور ساتھ ہی ان بڑے اور عظیم الشان اوصاف سے اپنی ذات مبارک کو موصوف کرچکا جو تمام مخلوقات کی ذوات سے ممتاز اور جدا ہے اور اس طرح ایک معین ذات بندوں کے دماغوں میں مستحضر ہوگئی تو غیب کے درجہ سے مرتبہ خطاب کی جانب عدول کرکے فرمایا۔ (2) [ اگر کسی چیز کے احوال وصفات ناقابل اشتراک اور مخصوص ہوں اور وہ صفات ذکر کردی جائیں تو اس چیز کی ذہن میں ایسی تعیین ہوجاتی ہے کہ گویا وہ نظر کے سامنے آگئی شدت تخیل غیر محسوس کو محسوس کرکے دکھا دیتی ہے علم غائبانہ شہود سے بدل جاتا ہے۔ حضور ذہنی وجود خارجی کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ علم حصولی معاینہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ پس جب ذات الوہیت کا نام ذکر کردیا اور مخصوص صفات کو بھی بیان کردیا تو ذات غائب شدت استحضار کی وجہ سے عارف کی نظر کے سامنے آگئی اس لیے اسے غائبانہ طرز کلام سے انتقال کرکے تخاطب کا اسلوب اختیار کیا جس ذات کا وہ غائبانہ ذکر کر رہا تھا وہ اس کے سامنے حاضر ہوگئی اور اس نے حاضر ذہنی سے اس طرح بات کرنی شروع کردی جیسے حاضر مرئی خارجی سے کی جاتی ہے۔]
Top