Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
مگر (انشاء الله کہہ کر یعنی اگر) خدا چاہے تو (کردوں گا) اور جب خدا کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو۔ اور کہہ دو کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے
اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۡ: مگر مشیت خدا کو ملا دیا کیجئے (یعنی انشاء اللہ ضرور کہہ دیاکیجئے) ابن المنذر نے مجاہد کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ یہودیوں نے قریش سے کہا تھا ان سے روح اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کرو۔ قریش نے حضور : ﷺ سے یہ سوالات کئے حضور : ﷺ نے فرمایا ‘ کل میرے پاس آنا میں بتادوں گا لیکن انشاء اللہ نہیں فرمایا ‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ اوپر دس روز تک کوئی وحی ہی نہیں آئی آپ کو اس سے بڑی بےچینی ہوگئی ادھر قریش نے کہا تم جھوٹے ہو ‘ اس موقع پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ شروع سورت کی تشریح میں اس مضمون کی ابن جریر کی روایت کردہ تفصیل ہم لکھ چکے ہیں اور سورت بنی اسرائیل کی آیت وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ کے ذیل میں یہ روایت ذکر کردی گئی ہے۔ آیت مذکورہ میں انشاء اللہ کہے بغیر کسی آئندہ کام کو کرنے کے وعدہ کی ممانعت رسول اللہ : ﷺ کو ادب آموزی کے لئے کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی کام کو پختہ طور پر کرنے کا ارادہ ہو تو کبھی بھی مشیت الٰہی سے وابستہ کئے بغیر اس کام کو کرنے کا وعدہ نہ کرو۔ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ اور جب آپ بھول جائیں تو اپنے رب کا ذکر کیا کیجئے۔ یعنی اگر انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو تسبیح و استغفار کرو۔ اس جملہ میں انشاء اللہ کہنے کی مزید اہمیت ظاہر کی گئی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے کسی حکم کی تعمیل تم بھول جاؤ تو اللہ کو اور اس کے عذاب کو یاد کرو تاکہ نسیان کی تلافی ہوجائے۔ یا یہ معنی ہے کہ اگر تم کسی بات کو بھول جاؤ تو اللہ کو یاد کرو ‘ تاکہ اللہ تم کو وہ بات یاد دلا دے۔ عکرمہ نے کہا آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت تم کو غصہ آئے تو اللہ کو یاد کرو۔ وہب کا بیان ہے ‘ انجیل میں آیا ہے ‘ اے ابن آدم تجھے غصہ آئے تو مجھے یاد کر (غصہ ٹھنڈا پڑجائے گا) جب مجھے غصہ آئے گا تو میں بھی تیری یاد کروں گا (اور تیری کمزوری پر رحم کروں گا) ضحاک اور سدی کے نزدیک آیت مذکورہ کا حکم نماز سے تعلق رکھتا ہے (نماز میں کچھ بھول جاؤ تو اللہ کو یاد کرو یا یہ معنی ہے کہ نماز پڑھنی بھول جاؤ تو جس وقت یاد آجائے پڑھ لو۔ حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص نماز پڑھنی بھول جائے تو جس وقت یاد آجائے پڑھ لے۔۔ رواہ البغوی۔ امام بخاری ‘ مسلم ‘ امام احمد ‘ ترمذی اور نسائی کی روایت میں حدیث ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ جو شخص نماز کو بھول جائے یا سو جائے (یا سوتا رہے) اور نماز نکل جائے تو اس کا اتار یہ ہے کہ جب یاد آجائے تو فوراً پڑھ لے۔ حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ جو شخص وتر کی طرف سے سو جائے (یعنی سو جانے یا سوتا رہنے کی وجہ سے وتر نہ پڑھ سکے) یا وتر (پڑھنا) بھول جائے تو جب یاد آجائے پڑھ لے۔ رواہ احمد والحاکم و صحیحہ۔ حضرت ابن عباس : ؓ ‘ مجاہد اور حسن نے کہا ‘ آیت کا معنی یہ ہے کہ انشاء اللہ کہنا اگر بھول جاؤ تو جس وقت بھی یاد آئے انشاء اللہ کہہ لو۔ اسی تشریحی مطلب کی وجہ سے ان حضرات کے نزدیک (آج کے کلام سے متعلق) ایک سال بعد بھی انشاء اللہ کہنا درست ہے بشرطیکہ انشاء اللہ کہنے سے پہلے کلام کے خلاف کوئی حرکت نہ کی ہو۔ اس مطلب کی تائید ابن مردویہ کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے (کچھ اوپر دس روز یا چالیس روز کے بعد) انشاء اللہ کہہ لیا۔ جمہور فقہاء کا فتویٰ حضرت ابن عباس کے قول کے خلاف ہے۔ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر کوئی غیر مستقل کلام ایسا ہو جس سے پہلے کلام کے حکم میں تبدیلی آرہی ہو تو اس کو پہلے کلام کے بالکل متصل اور ساتھ ساتھ ہونا چاہئے۔ مثلاً اگر کلام کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کرنا ہے یا کلام کو انشاء اللہ کے ساتھ مقید کرنا ہے یا غایب زمانی و مکانی کو ظاہر کرنا ہے یا کسی مبدل منہ کے بعد بدل بعض کو بیان کرنا ہے تو شرط اور انشاء اللہ اور غایت اور بدل بعض پہلے کلام کے بعد متصلاً ذکر کرنا ضروری ہے اگر دیر کے بعد لگائی ہوئی شرط یا قید کو معتبر مانا جائے گا تو نہ کوئی اقرار صحیح ہوگا نہ طلاق نہ غلام کی آزادی۔ نہ صدق معلوم ہوگا نہ کذب (مثلاً زید نے اقرار کیا کہ عمر کا مجھ پر اتنا روپیہ قرض ہے اور کچہری سے نکلنے کے بعد اس نے کہا بشرطیکہ عمر مجھے فلاں چیز دے دے ‘ یا زید نے بیوی کو طلاق دے دی یا غلام کو آزاد کردیا اور دو گھنٹہ کے بعد کسی شرط کے ساتھ مشروط کردیا اسی طرح زید نے کوئی بات کہہ دی ‘ اب معلوم نہیں کہ اس نے جھوٹ کہا یا سچ۔ ممکن ہے کل کو وہ اپنے گزشتہ کلام کو کسی شرط کے ساتھ مشروط یا کسی قید کے ساتھ مقید کر دے اور اس وقت کا سچ کل کو جھوٹ ثابت ہوا ایک واقعہ منقول ہے کہ خلیفہ منصور کو کسی نے اطلاع دی کہ امام ابوحنیفہ آپ کے دادا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں اور انشاء اللہ کی شرط کو کلام سے متصل ہونا ضروری قرار دیتے ہیں اور دیر کے بعد انشاء اللہ کہنے کا کوئی اعتبار نہیں کرتے خلیفہ نے امام ابوحنیفہ کو طلب کیا ‘ امام ابوحنیفہ نے خلیفہ کے سوال کے جواب میں فرمایا ‘ حضرت ابن عباس ؓ : کا فتویٰ تو آپ کے خلاف پڑتا ہے ‘ آپ رعایا سے فرماں بردار اور وفادار رہنے کی بیعت لیتے ہیں اور لوگ بیعت کرتے ہیں لیکن آپ کے دربار سے نکلنے کے بعد اگر وہ انشاء اللہ کہہ لیں تو کیا ان کی بیعت قابل اعتبار نہیں رہے گی۔ منصور نے امام ابوحنیفہ کے قول کو مان لیا اور امام کے خلاف جس نے مخبری کی تھی اس کو دربار سے نکلوا دیا۔ رہا ابن عباس کا یہ استدلال کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد انشاء اللہ فرمایا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے پچھلی غلطی کی تلافی نزول آیت کے بعد انشاء اللہ کہہ کر کی تھی بلکہ آیت میں جو آپ کو ہر عزم اور قول کے وقت انشاء اللہ کہنے کا حکم دیا گیا تھا آپ ﷺ نے انشاء اللہ فرما کر یہ ظاہر کردیا کہ آئندہ انشاء اللہ میں اس حکم کی تعمیل کرتا رہوں گا۔ صوفیا نے آیت واذْکُرْ رَبَّکَ اِذَا نَسِیْتَکی ایک بہت ہی پُر کیف تشریح کی ہے ‘ آیت کا مطلب بر قول صوفیا یہ ہے کہ جب اللہ کے سواتم ہر چیز کو بھول جاؤ ‘ اس وقت خالص دل سے اللہ کو یاد کرو۔ صوفیا کہتے ہیں اللہ کی ہمہ وقت یاد اس وقت تک نہیں ہوسکتی ‘ جب تک ماسوا کے تصور کو دل سے مٹا نہ دیا جائے ‘ عام طور پر دل کی حالت بدلتی رہتی ہے۔ یکسوئی عموماً نہیں رہتی اور ظاہر ہے کہ ایک آدمی کے دو دل تو ہیں نہیں کہ ایک میں یاد خدا جمی رہے اور دوسرے میں مخلوق کا ذکر قائم رہے دل ایک ہی ہے جب اس میں ماسوی اللہ کا تصور ہوگا تو اللہ کی یاد میں فتور آجائے گا اور اللہ کے سوا اگر ہر چیز کو دل فراموش کر دے گا اور ماسوی اللہ کے تصور کو مٹا دے گا تو دل ہر دم یاد الٰہی میں مشغول اور غرق رہے گا ‘ اسی کو فناء قلب کہتے ہیں جب تک فناء قلب کا درجہ حاصل نہ ہوجائے صوفی اس کو موحد نہیں کہتے۔ حضرت مفسر (رح) نے لکھا ہے کہ صوفیاء کی تشریح ہی کتاب اللہ کی صراحت اور عربی قوانین لغت کے زیادہ مناسب ہے اس قول پر مجازی معنی کی طرف رجوع کرنا بھی نہیں پڑتا دیکھو اِذَا نَسِیْتَکا تعلق اُذْکُرْسے ہے ‘ یعنی بھولنے کے وقت اللہ کی یاد کرو۔ بھولنا اور یاد کرنا دو متضاد فعل ہیں ایک وقت میں دونوں کا اجماع نہیں ہوسکتا لا محالہ مجازی معنی مراد لینا ہوگا۔ دونوں فعل جدا جدا مختلف اوقات اور مختلف حالات میں ظاہر ہوں گے اور آیت میں تاویل کرنی پڑے گی ‘ کوئی بھی تاویل کی جائے مجاز کی طرف رجوع کئے بغیر چارۂ کار نہ ہوگا ‘ البتہ صوفیاء کا قول مبنی بر حقیقت ہے ذکر رب ‘ نسیان ماسوا کے وقت ہی ہوتا ہے اور اسی کو ذکر رب کہتے ہیں جس میں ماسوا کا نسیان ہوجائے۔ وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا : اور کہہ دیجئے کہ مجھ کو امید ہے میرا رب (نبوت کی صداقت کو) اس سے بھی زیادہ قریب الوصول بنا دے گا۔ اقرب رَشَدًاسے مراد ہے کوئی ایسی بہتری جو متصل ہی آنے والی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اگر انشاء اللہ کہنا یا اللہ کے کسی حکم کی تعمیل کرنا تم بھول جاؤ تو اللہ کی یاد کرو یعنی تسبیح و استغفار کرو اور کہو کہ امید ہے اللہ مجھے کوئی ایسی راہ بتادے گا جو فراموش شدہ (لفظ یا حکم) سے افضل اور بہتر ہوگی یہ بہترین راہ کون سی ہے (جس سے گزشتہ کی تلافی اور آئندہ کی ترقی وابستہ ہے) وہ ہے صرف گزشتہ پر ندامت توبہ ‘ استغفار اور فوت شدہ کی قضاء۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ لوگوں نے جب رسول اللہ ﷺ سے اصحاب کہف کا واقعہ دریافت کیا اور اللہ نے اصحاب کہف کا قصہ بیان کردیا تو آخر میں اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو یہ بات بتادیں کہ اصحاب کہف کے واقعہ سے بڑھ کر روشن دلیل اور برہان نبوت اللہ عطا فرمائے گا چناچہ یہ وعدہ اللہ نے پورا کیا ‘ تمام انبیاء کے علوم بلکہ ماضی و مستقبل کے سارے علمی خزانے اللہ نے آپ کو عطا فرما دیئے ‘ اصحاب کہف کے واقعہ کے اظہار سے آپ کی نبوت کی سچائی کا اتنا قوی ثبوت نہیں ملتا جتنا تمام انبیاء ومرسلین کے علوم اور گزشتہ و آئندہ کے واقعات و حالات کے علم عطا فرمانے سے ملتا ہے۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ : کو (اور بواسطۂ رسول ﷺ ہر مسلمان کو) حکم دیا ہے کہ جب انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ اور پھر یاد آجائے تو انشاء اللہ کہنے کے بعد یہ بھی کہو عَسٰی اَنْ یَّہْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًایہی گزشتہ قصور کی توبہ ہے۔ صوفیا کی تشریح پر آیت کا مطلب اس طرح ہوگا کہ جب اللہ کے سوا ہر چیز کو بھول جاؤ تو اللہ کی یاد کرو اور یہ (بھی) کہو کہ امید ہے اللہ مجھے ایسے راستے کی ہدایت کر دے گا یا ایسی چیز بتادے گا جو اس ذکر سے بھی زیادہ اقرب ہوگی یعنی اللہ اپنی ذات تک خود پہنچا دے گا اللہ کی ذات رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے۔
Top