Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 35
وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖۤ اَبَدًاۙ
وَدَخَلَ : اور وہ داخل ہوا جَنَّتَهٗ : اپنا باغ وَهُوَ : اور وہ ظَالِمٌ : ظلم کر رہا تھا لِّنَفْسِهٖ : اپنی جان پر قَالَ : وہ بولا مَآ اَظُنُّ : میں گمان نہیں کرتا اَنْ : کہ تَبِيْدَ : برباد ہوگا هٰذِهٖٓ : یہ اَبَدًا : کبھی
اور (ایسی شیخیوں) سے اپنے حق میں ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔ کہنے لگا کہ میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو
ودخل جنتہ وہو ظالم لنفسہ قال ما اظن ان تبید ہذہ ابدا۔ اور اپنے اوپر جرم قائم کرتے ہوئے اپنے باغ میں پہنچا کہنے لگا میں نہیں خیال کرتا کہ یہ کبھی بھی تباہ ہوگا۔ یعنی اللہ کی طرف سے ڈھیل ملنے ‘ دماغ پر غفلت کے پردے پڑجانے اور شوق و ہوس کی ہمہ گیری کے سبب وہ خیال کرنے لگا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ زندگی بھر میرے پاس رہے گا ‘ کبھی برباد نہ ہوگا۔ یہ مطلب نہیں کہ ان نعمتوں کے ساتھ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا کیونکہ کسی کافر کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہوسکتا کہ میں موت سے ہمیشہ محفوظ رہوں گا کبھی نہیں مروں گا۔ ہاں قول سے مراد اگر دلالت حال لی جائے تو مؤخر الذکر مطلب بھی ہوسکتا ہے ‘ جو لوگ دنیا اور دنیا کی لذتوں میں غرق ہوتے ہیں ان کے اعمال اور خیالات زبان حال سے پکار کر کہتے ہیں کہ ایسے اعمال و خیالات رکھنے والے اپنی زندگی کو دوامی سمجھے ہوئے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ کبھی موت نہیں آئے گی اور دنیا کی یہ لذتیں ان کو ہمیشہ حاصل رہیں گی۔
Top