Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 5
مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِهِمْ١ؕ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ؕ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا
مَا : نہیں لَهُمْ بِهٖ : ان کو اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم وَّلَا : اور نہ لِاٰبَآئِهِمْ : ان کے باپ دادا كَبُرَتْ : بڑی ہے كَلِمَةً : بات تَخْرُجُ : نکلتی ہے مِنْ : سے اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ (جمع) اِنْ : نہیں يَّقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِلَّا : مگر كَذِبًا : جھوٹ
ان کو اس بات کا کچھ بھی علم نہیں اور نہ ان کے باپ دادا ہی کو تھا۔ (یہ) بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے (اور کچھ شک نہیں) کہ یہ جو کہتے ہیں محض جھوٹ ہے
مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَاۗىِٕهِمْ ۭ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا : نہ تو اس کی کوئی دلیل ان کے پاس ہے نہ ان کے باپ دادا کے پاس تھی بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے اور وہ بالکل ہی جھوٹ بکتے ہیں۔ اللہ کو صاحب اولاد قرار دینا شدید ترین کفر ہے اسی شدت کفر کو ظاہر کرنے کے لئے خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کو ڈرانے کا ذکر کیا جو کسی کو اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ مَالَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمِیعنی اللہ کی (مفروضہ) اولاد کا یا اولاد قرار دینے کا یا اس (کفریہ) بات کا ان کو کوئی علم نہیں۔ مطلب یہ کہ جو بات زبان سے نکالتے اور جو عقیدہ رکھتے ہیں اس کی حقیقت کا ان کو کوئی علم نہیں ‘ محض جہالت یا توہم پرستی یا دوسروں کی تقلید میں ایسا کہتے ہیں خود ان کو اپنے کلام کی مراد معلوم نہیں۔ باپ (اب) بیٹے (ابن) کا اطلاق ان کے نزدیک مؤثر اور اثر پر بھی ہوتا ہے اور نسبی باپ بیٹے پر بھی اگر ان کو اس لفظ کی مراد معلوم ہوتی اور نسبی باپ بیٹا مراد ہوتا تو ایسا لفظ کبھی نہیں بولتے ‘ یہ بات جو ان کی زبانوں سے نکل رہی ہے ‘ بڑی کفریہ ہے اس سے مخلوق کا خالق جیسا ہونا ‘ اللہ کے ساتھ مخلوق کو شریک کرنا اور اللہ کا محتاج ہونا اور اپنا جانشین بنانے کا ضرورت مند ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ایک شبہ نادانی میں کوئی جرم ہوجائے تو قابل مواخذہ نہ ہونا چاہئے ‘ خطاء اجتہادی قابل عفو ہے پس بےعلمی کی وجہ سے کچھ لوگ کفریہ الفاظ زبان سے نکالتے ہیں اور خدا کو صاحب ولد کہتے ہیں تو کیوں ان کو عذاب کی وعید دی گئی۔ ازالہ کسی چیز کا علم نہ ہونے کی دو صورتیں ہوتی ہیں (1) وہ چیز موجود ہو اور اس کے احوال کا علم نہ ہو۔ (2) وہ چیز معدوم ہو بلکہ اس کا وجود ہی ناممکن ہو اس لئے اس کی کسی حالت کا علم نہ ہو۔ (اوّل صورت میں ناواقفیت کبھی کبھی عذر بن سکتی ہے لیکن دوسری قسم کی جہالت کا کوئی عذر قابل پذیرائی نہیں) اس جگہ ناواقفیت اور جہالت کی دوسری صورت مراد ہے (جو بہرحال قابل مواخذہ ہے) کَبُرَتْکے دو معنی ہوسکتے ہیں ‘ ایک یہ کہ کفر کے اعتبار سے یہ (کفریہ) بات بڑی ہے۔ دوسرا معنی کَبُرَتْ کا بِءْسَتْہے یعنی یہ بات بری ہے۔ کلمہ کا استعمال پورے کلام بلکہ پورے قصیدہ کے لئے بھی ہوتا ہے اس جگہ کلام (بات) ہی مراد ہے ‘ بات کی آواز تو منہ سے ہی نکلتی ہے اس آیت میں تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْکا لفظ بڑھا کر یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کی جرأت کفر بہت زیادہ ہے کہ کلمۂ کفر اپنے منہ سے (دانستہ) نکالتے ہیں۔ جھوٹ کہنے سے یہ مراد ہے کہ اس بات کی واقع میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے بیان کیا کہ قریش کی ایک جماعت جس میں ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابوجہل بن ہشام اور نضر بن حارث اور عاص بن وائل اور اسود بن مطلب اور ابوالبختری شامل تھے جمع ہوئے (اور رسول اللہ ﷺ کو بلوایا اور آپ سے وہ گفتگو کی جو اوپر شروع میں نقل کردی گئی ہے اور بالآخر رسول اللہ ﷺ مایوس ہو کر مجلس سے اٹھ آئے) تو ان لوگوں کی مخالفت اور نصیحت سے سرتابی حضور ﷺ : کو بہت کھلی اور قلبی تکلیف ہوئی اس پر مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔
Top