Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 184
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اَيَّامًا : چند دن مَّعْدُوْدٰتٍ : گنتی کے فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی مِّنْ : سے اَ يَّامٍ اُخَرَ : دوسرے (بعد کے) دن وَعَلَي : اور پر الَّذِيْنَ : جو لوگ يُطِيْقُوْنَهٗ : طاقت رکھتے ہیں فِدْيَةٌ : بدلہ طَعَامُ : کھانا مِسْكِيْنٍ : نادار فَمَنْ : پس جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ لَّهٗ : بہتر اس کے لیے وَاَنْ : اور اگر تَصُوْمُوْا : تم روزہ رکھو خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
(روزوں کے دن) گنتی کے چند روز ہیں تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کرلے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے۔ اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے
اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ (چند روز ہیں گنتی کے) فعل محذوف صوموا (روزہ رکھو) کا مفعول فیہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ الصیام مصدر کی وجہ سے منصوب نہیں ہے کیونکہ درمیان میں اجنبی فاصل ہے۔ معدودات کا مطلب یہ ہے کہ گنتی کے چند دن ہیں کیونکہ عادتاً جو چیز کم ہوتی ہے اسی کو شمار کیا کرتے ہیں اور بہت کو شمار نہیں کرتے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اِیَّامًا معدودات ( گنے ہوئے دن) سے ہر مہینے کے تین روزے اور ایک روزہ عاشورہ کا مراد ہے کیونکہ یہ روزے ربیع الاوّل سے لے کر رمضان تک ہر مہینے میں تین تین روزے واجب تھے پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوگیا اور یہ منسوخ ہوگئے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ہجرت کے بعد اوّل جو حکم منسوخ ہوا وہ قبلہ کا اور روزہ کا حکم تھا اور بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ رمضان کے روزوں کا حکم بدر کے واقعہ سے ایک ماہ اور چند دن پیشتر نازل ہوا ہے اور غزوہ بدر 17 رمضان 2 ھ روز جمع کو ہوا ہے۔ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ رمضان کے روزے نازل ہونے سے پہلے عاشورہ کے روزہ کا حکم فرمایا کرتے تھے جب رمضان کے روزوں کا حکم آیا تو پھر یہ ہوگیا کہ جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ سلمہ بن الاکوع سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ نے ایک شخص کو بھیجا کہ اعلان کردو کہ آج یوم عاشوراء ہے جس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ شام تک نہ کھائے پیئے اور جس نے نہیں کھایا وہ اب نہ کھائے روزے کی نیت کرلے کیونکہ آج کا دن روزہ عاشورہ ہے اس کو بھی بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ایاماً معدودات سے مراد رمضان کا مہینہ اور آیت منسوخ نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ سب اقوال میں سے راجح یہ ہے کہ عاشورہ کا روزہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بالکل فرض نہ تھا بلکہ نبی ﷺ نے اپنے اجتہاد سے اس کو پسند فرمایا تھا یا ایسا ہو کہ حضور کی عادت شریف اس دن روزہ رکھنے کی ہو اس لیے اوروں کو بھی اس کا حکم فرماتے ہیں غرض کچھ ہو فرض تھا۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب جناب رسول اللہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تم اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو۔ انہوں نے کہا یہ بہت مبارک دن ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دی تھی تو اس دن موسیٰ ( علیہ السلام) نے شکریہ کے طور پر روزہ رکھا تھا اس لیے ہم بھی رکھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو میں موسیٰ ( علیہ السلام) کی اقتداء کرنے کا تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں اس لیے حضور ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور اوروں کو بھی رکھنے کا حکم فرمایا۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ قریش عاشورہ کے دن ایام جاہلیت میں روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ بھی قبل از بعثت اس دن روزہ رکھتے تھے جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بھی اس روز روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا۔ اس حدیث کو بھی بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے علامہ سیوطی (رح) نے فرمایا ہے کہ امام احمد اور ابو داؤد اور حاکم نے معاذ بن جبل ؓ سے عاشوراء کا روزہ اور ہر مہینے میں تین روزے کا واجب ہونا روایت کیا ہے لیکن یہ وجوب اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا اور اس آیت سے منسوخ ہوگیا بس معلوم ہوا کہ ایامًا معدودات سے مراد رمضان کا مہینہ ہے۔ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا ( پھر جو شخص تم میں سے بیمار ہو) مریضاً سے مراد وہ شخص ہے کہ وہ یا تو فی الحال مریض ہو اور روزہ رکھنے سے مرض بڑھے یا دیر میں شفا ہونے کا خوہو یا بالفعل تو تندرست ہے لیکن ایسا سست اور کمزور ہے کہ گمان غالب ہے کہ اگر روزہ رکھوں گا تو مرض پیدا ہوجائے گا اسی میں شامل ہیں وہ حاملہ عورتیں اور دودھ پلانے والی کہ ان کو اپنی یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو۔ جاننا چاہئے کہ مریض کو روزہ رکھنے کی اجازت پر سب علماء کا اتفاق ہے مگر امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ کھاناپینا تو جائز ہے لیکن عورت سے صحبت کرنی درست نہیں اگر مسافر یا مریض جماع کرے گا تو ان کے نزدیک اس پر کفارہ واجب ہے لیکن ہاں اگر قبل از جماع کچھ کھاپی لیا ہے اور بعد اس کے جماع کیا تو کفارہ نہیں ہے اور دیر میں شفا ہونے یا مرض بڑھنے کے اندیشے سے روزہ نہ رکھنے پر سب کا اتفاق ہے ابن سیرین فرماتے ہیں کہ تھوڑی سی بیماری بھی جس کو بیماری کہا جاتا ہے افطار کے لیے کافی ہے کیونکہ آیت میں بلا کسی قید کے مریض کا لفظ ہے۔ اور حسن اور ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایسی بیماری مراد ہے کہ جس کی وجہ سے نماز بیٹھ کر پڑھنا درست ہوجائے۔ اَوْ عَلٰي سَفَرٍ ( یا سفر پر ہو) لفظ علیٰ اوپر) اس طرف مشیر ہے کہ اگر کوئی شروع دن میں روزہ سے ہو اور پھر اس کو سفر پیش آئے تو اس کو افطار جائز نہیں اور اسی پر اجماع ہے لیکن داؤد ظاہری سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سفر خواہ طویل ہو یا قصیر افطار جائز ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ جس سفر سے روزہ کے افطار اور نماز کے قصر کی اجازت ہے اس کی کتنی مسافت ہے امام مالک اور شافعی اور احمد فرماتے ہیں کہ ادنیٰ مقدار سفر کی سولہ فرسخ چار برید ہے کیونکہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اے مکہ والو ! چار برید سے کم کی مسافت میں قصر مت کرو اور چاربرید کی مقدار اس قدر ہے جیسے مکہ سے عسفان تک اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ضعیف راوی ہے اور عبد الوھاب بہت ہی ضعیف ہے۔ امام احمد اور یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ عبد الوھاب کچھ نہیں اور سفیان ثوری فرماتے ہیں کذاب ہے اور نسائی نے کہا ہے متروک الحدیث ہے اور امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ ایک دن کی مسافت میں قصر کرے اور امام ابوحنیفہ (رح) : تین دن تین رات کی مسافت میں کہ جو اونٹ اور آدمی کی چال سے ہو افطار و قصر جائز فرماتے ہیں اور امام ابو یوسف دو دن پورے اور تیسرے دن کے اکثر حصہ کی مسافت کے قائل ہیں ابوحنیفہ (رح) کی دلیل حضرت علی کی حدیث ہے کہ ان سے موزوں پر مسح کرنے کی مدت دریافت کی گئی فرمایا کہ رسول اللہ نے تین دن تین رات مسافر کے لیے اور ایک دن اور ایک رات مقیم کے لیے مقرر فرمایا ہے اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث تو صحیح ہے مگر یہ استدلال ضعیف ہے اور اطلاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کے لیے اگر کوئی سفر کرے تو اس میں بھی افطار جائز ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی مذہب ہے اور امام مالک اور شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ گناہ کے سفر سے افطار مباح نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : فمن اضطر غیر باغ الخ اور حق یہ ہے کہ بغی اور عدوان سفر کی ذات میں داخل نہیں بلکہ سفر سے ان کا تعلق ہے اور اس آیت کی تفسیر اور امام مالک و شافعی (رح) کے مذہب کا مستنبط نہ ہونا ہم اس کے موقع میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ ( تو ضروری ہے کہ گنتی دوسرے دنوں سے) فَعِدَّۃً .... یا تو فعل محذوف کتب کا نائب فاعل ہوا یا اور مبتدا محذوف کی خبر اس صورت میں عدت کا مضاف اور مضاف الیہ اور ایک شرط محذوف ماننی ہوگی کہ یہ سب بقرینہ مقام حذف کردیئے گئے تقدیر عبارت کی اس طرح ہوگی فالواجب علیہ صیام عدۃ ایام مرضہٖ و سفرہٖ من ایام اخر ان افطر ( یعنی اگر مریض اور مسافر افطار کرے تو اس پر بیماری اور سفر کے دنوں کی شمار کی قدر و روزے واجب ہیں اور اطلاق آیت سے یہ معلوم ہوا کہ قضا روزوں کی پے در پے رکھناواجب نہیں اس پر سب علماء کا اتفاق ہے۔ داؤد ظاہری فرماتے ہیں کہ پے در پے ہونا ضروری ہے اور اطلاق سے جو پے در پے ہونے کی شرط نہ ہونا مستفاد ہوتا ہے اس کی ایک حدیث بھی تائید کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے قضا رمضان کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر چاہے تو جدا جدا رکھے اور چاہے پے در پے رکھے اس حدیث کو دارقطنی نے متصل اور مرسل دونوں طرح روایت کیا ہے اور حدیث میں ہے کہ محمد بن المنکدر فرماتے ہیں کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ سے کسی نے رمضان کی قضا روزوں کو جدا جدا رکھنے کو دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا تجھ کو اختیار ہے جس طرح چاہے رکھ اس حدیث کو دار قطنی نے مرسل روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے اور متصل بھی روایت کی گئی ہے لیکن اتصال صحیح نہیں اور اس مضمون کی حدیث دار قطنی نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے بھی روایت کی ہے لیکن اس کی سند میں واقدی اور لھیعہ دونوں ضعیف راوی ہیں اور سعید بن منصور نے انس ؓ سے بھی اس کو روایت کیا ہے اور بیہقی نے ابو عبید اور معاذ بن جبل اور انس اور ابوہریرہ اور رافع بن خدیج ؓ سے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے داؤد پے در پے کے واجب ہونے پر ابوہریرہ ؓ کی اسی حدیث کو دلیل لاتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جس کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں اس کو چاہئے کہ مسلسل رکھے اور بیچ میں نہ توڑے اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں عبد الرحمن بن ابراہیم بن العاص ایک راوی ہے اس کی نسبت یحییٰ الفاظ لیس بشئ ( کچھ نہیں) استعمال کرتے ہیں اور دار قطنی نے ضعیف لیس بالقوی (ضعیف ہے قوی نہیں) کہا ہے اس میں اختلاف ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی جب افطار کریں تو ان پر قضا کے ساتھ فدیہ بھی واجب ہے یا نہیں حالانکہ اس پر سب متفق ہیں کہ مریض اور مسافر پر قضا واجب نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) تو فرماتے ہیں کہ قضا ہی واجب ہے فدیہ نہیں اور ایک روایت امام مالک سے بھی یہی ہے اور ایک روایت امام مالک سے یہ ہے کہ دودھ پلانے والی پر فدیہ ہے اور حاملہ پر نہیں اور امام احمد اور شافعی (رح) کے نزدیک واجب ہے لیکن وجوب کی دلیل قابل اعتماد کسی کے پاس نہیں حضرت ابن عمر اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی پر کفارہ واجب ہے قضا واجب نہیں اور اگر قضاء رمضان میں بغیر عذر تاخیر کرے حتیٰ کہ دوسرا رمضان آپہنچا تو اس میں اختلاف ہے کہ قضا کے ساتھ فدیہ بھی واجب ہے یا نہیں امام احمد اور شافعی (رح) تو فرماتے ہیں کہ واجب ہے اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر برسوں کے بعد بھی قضا کرے تب بھی قضا کے سوا اور کچھ واجب نہیں کیونکہ یہ کتاب اللہ پر بغیر قطعی دلیل کے زیادتی ہے اور اگر مرض یا سفر کے عذر کے سبب سے دوسرے رمضان سے بھی تاخیر ہوجائے تو اس میں بالاتفاق قضا کے سوا کچھ واجب نہیں۔ عبد الرزاق اور ابن منذر نے بطریق صحیحیہ نافع سے انہوں نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جس کو بیماری میں پے در پے دو رمضان گذر گئے اور اس کے بیچ میں تندرست نہیں ہوا تو دوسرے رمضان کی تو قضا واجب ہے اور پہلے رمضان کا کفارہ طحاوی نے کہا ہے کہ یہ قول ابن عمر ؓ کے سوائے اور کسی کا نہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں عبد الرزاق نے ابن جریح سے ابن جریح نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے یحییٰ فرماتے ہیں مجھ کو یہ با ت پہنچی ہے کہ عمر کا بھی یہی قول ہے لیکن عمر ؓ کا مشہور قول اس کے خلاف ہے قضا کے ساتھ کفارہ واجب ہونے کی دلیل ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رمضان میں بیمار ہوا اور اس نے روزے رکھے پھر تندرست ہوگیا اور روزے نہیں رکھے حتی کہ دوسرا رمضان آگیا تو جناب رسول ﷺ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ اس رمضان موجودہ کے روزے رکھے اور اس کے بعد پہلے رمضان کے رکھے اور ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا دے۔ اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے لیکن یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند میں ابراہیم بن نافع راوی ہے اور ابو حاتم نے اس کی نسبت لفظ کان یکذب ( جھوٹ بولتا تھا) کہا ہے اور ایک راوی عمر بن موسیٰ ہے وہ جھوٹی حدیث بنا لیا کرتا تھا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ کفارہ کے وجوب میں کوئی حدیث مرفوع پائیہ ثبوت کو نہیں پہنچتی البتہ آثار صحابہ سے کچھ اس کا ثبوت ہوتا ہے اور امام شافعی ؓ وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں علی ؓ اور جابر ؓ اور حسین ؓ بن علی ؓ سے بھی آثار وارد ہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ مجھے سوائے ابوہریرہ اور ابن عباس ؓ کے اثار کے کسی اور اثر کی سند صحیح نہیں پہنچی اور اگر بالفرض کوئی حدیث مرفوع بھی اس بات میں ہوتی تو اس وقت بھی اس سے استدلال نہ ہوسکتا کیونکہ زیادتی کتاب اللہ پر لازم آتی ہے اور خبر واحد سے زیادتی جائز نہیں۔ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ ( اور ان لوگوں پر جن کو طاقت ہے فدیہ ہے) علامہ محمد حسین بغوی فرماتے ہیں کہ اس آیت کی تاویل اور حکم میں علماء نے اختلاف کیا ہے اکثر علماء تو یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے۔ ابن عمر اور سلمہ بن اکوع اور دیگر صحابہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ شان نزول اس کی یہ ہوئی کہ ابتداء اسلام میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اختیار دیا تھا کہ اگر ہمت ہو تو روزے رکھے ورنہ افطار کرلیں اور فدیہ دیں اور یہ اس واسطے تھا کہ لوگوں کو روزہ رکھنے کی عادت نہ تھی۔ اگر ابتداً روزے ہی کا حکم ہوجاتا تو شاق ہوتا پھر اس کے بعد یہ اختیار منسوخ ہوگیا اور فمن شھد منکم الشھرۃ۔۔ سے روزے ہی کا حکم قطعی ہوگیا۔ میں کہتا ہوں کہ اس تقدیر پر مریض اور مسافر کو تین باتوں کا اختیار ہوگا۔ روزہ۔ افطار۔ نیت قضا۔ فدیہ۔ پھر جب فدیہ منسوخ ہوگیا تو روزہ رکھنے اور قضا میں اختیار ہوگا اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص بہت بوڑھا ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت تو ہو لیکن اس کو روزہ رکھنا بوجہ بڑھاپے کے شاق ہو تو اس کو اس آیت کی وجہ سے اوّل روزہ افطار کرنے اور فدیہ دینے کی اجازت تھی پھر یہ اجازت منسوخ ہوگئی اور حسن فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس مریض کے بارے میں ہے کہ جو روزہ کی طاقت رکھتا ہو اس کو اختیار ہے یا تو روزہ رکھے اور یا افطار کرے اور فدیہ دے پھر یہ اختیار منسوخ ہوگیا ان سب اقوال کے موافق قرآن کریم سے ایسے بوڑھے کا حال معلوم نہ ہوا جو بسبب ضعف کے روزہ کی طاقت نہیں رکھتا اسی واسطے امام مالک فرماتے ہیں اور شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے کہ شیخ فانی کو افطار کرنا جائز ہے کیونکہ وہ عاجز ہے اور اللہ تعالیٰ کسی کو اس کے وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اور اس پر فدیہ واجب نہیں کیونکہ فدیہ کے واجب ہونے کے لیے کوئی دلیل چاہئے کیونکہ فدیہ روزہ کا مثل غیر معقول ہے اور مثل غیر معقول رائے اور عقل سے ثابت نہیں ہوتی اور ایک جماعت کا مسلک یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں اور معنی اس کے یہ ہیں کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی جوانی میں طاقت رکھتے ہیں اور پھر بعد بڑھاپے کے عاجز ہوگئے ان پر بجائے روزے کے فدیہ واجب ہے لیکن نظم کلام اس تاویل سے انکار کر رہی ہے۔ شیخ اجل جلال الدین اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یطیقون پر ایک لامقدر ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے ان کے ذمہ پر فدیہ ہے جیسے آیت : یُبَیِّنُ اللہ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا میں اَنْ تَضِلُّوْا پر لا مقدر مانا گیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ لا کا مقدر ماننا بھی بعید ہے۔ کیونکہ ظاہر عبارت کی بالکل ضد ہے پہلے ایجاب مفہوم ہوتا تھا اور اس تقدیر پر سلب سمجھا جائے گا اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) اور احمد اور شافعی اور سعید بن جبیر کا مذہب یہ ہے کہ شیخ فانی پر بجائے روزے کے فدیہ واجب ہے اور مبنی ان مذاہب کا اس آیت کے سوا اور کچھ نہیں اور اس آیت کی اگر یہ تاویل بعید نہ کی جائے تو شیخ فانی پر اور اس مریض پر جس کی صحت یابی کی امید نہیں کس دلیل سے فدیہ واجب ہوگا تو میں کہتا ہوں کہ عمدہ اور سالم تاویل اوّل ہے اور حاصل اس کا یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں قوی لوگوں کو روزہ اور فدیہ میں اختیار دیا گیا تھا اور جو لوگ طاقت نہ رکھتے تھے وہ تو دلالت النص سے بطریق اولیٰ مختار تھے کیونکہ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قوت والوں کو اپنے فضل سے ان کی آسانی و سہولت کے لیے اختیار دے دیا تو جو کمزور اور ضعیف تھے وہ تو اس رخصت کے پہلے سے بھی مستحق تھے اور اسی بناء پر ہم نے اوّل ذکر کیا ہے کہ مریض اور مسافر کو تین باتوں کا اختیار دیا گیا تھا پھر جب آیت : فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ الخ نازل ہوئی تو جو لوگ روزہ کی قوت رکھتے تھے ان کے حق میں فی الفور اور جو لوگ اب بسبب کسی عذر کے روزہ نہیں رکھ سکتے تھے جیسے وہ مریض اور مسافر کہ بعد سفر یا مرض ختم ہونے کے قضا رکھ سکتے ہیں انکے حق میں مآل کار حکم فدیہ کا منسوخ ہوگیا اور جو لوگ نہ اب روزہ رکھ سکتے ہیں اور نہ آئندہ کو بسبب بڑھاپے یا بیماری کے رکھنے کی توقع ہے ان کے لیے فدیہ کے جائز ہونے کا حکم بدلالت النص اسی طرح رہاجیسا کہ تھا کیونکہ وہ فَمَنْ شَھد منکم الشھر الخ ( جو تم میں سے ماہ رمضان میں حاضر ہو ( میں داخل ہی نہیں ہوئے کیونکہ من شھد سے مراد تندرست مقیم ہے اور فمن کان منکم مریضا میں مریض سے مراد وہ مریض ہے جو شفاء کی توقع رکھتا ہو کیونکہ جو ایسا بیمار ہے کہ اچھے ہونے کی امید نہیں ہے اس کو قضا کی تکلیف دینا۔ تکلیف مالایطاق ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جو حکم عبارت النص سے ثابت ہوچکا ہے اس کا منسوخ ہونا اس حکم کے منسوخ ہونے کو مقتضی نہیں جو دلالت النص سے ثابت ہو۔ وا اللہ اعلم و علمہ اتم و احکم۔ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ( ایک محتاج کا کھانا کھلانا ہے) نافع اور ابن ذکوان نے فدیہ طعام مسکین میں فدیہ کو طعام کی طرف مضاف کرکے اور مسکین کو مساکین بصیغہ جمع پڑھا ہے اور ہشام نے فدیہ کو تنوین سے اور طعام کو مرفوع فدیہ سے بدل کر قرار دے کر اور مسکین کو صیغہ جمع سے پڑھا ہے اور دیگر قراء نے فدیہ کو تنوین اور طعام کو رفع اور مسکین کو صیغہ واحد سے پڑھا ہے۔ فدیۃ بدلہ کو کہتے ہیں اور فدیہ کی اضافت طعام کی طرف بیانیہ ہے اور فدیہ ابوحنیفہ (رح) کے قول کے موافق صدقہ فطر کی طرح گندم کا نصف صاع اور جو یا کھجور کا پورا صاع ہے اور امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ جو غلہ اس شہر میں کھایا جاتا ہے اس کا ایک مدہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو دے اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ جَو کا نصف صاع اور گیہوں کا ایک مد واجب ہے اور بعض فقہاء کا قول ہے کہ جو غذا اس روز کھائے وہ دے۔ اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ہر مسکین کو رات اور سحری کا کھانا دے دے اور طعام فدیہ کی تحقیق انشاء اللہ آیت : و من کان منکم مریضا اوبہ اذًا الخ کی تفسیر میں عنقریب آئے گی۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ ۭ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ ( پھر جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اسکے لیے بہتر ہے اور یہ صورت کہ تم روزہ رکھو تمہارے واسطے بہتر ہے) فمن تطوع خیراً ( جو اپنی خوشی سے نیکی کرے) یعنی فدیہ میں قدر واجب سے زیادتی کرے۔ فھوخیر لہ ( تو وہ اس کے لیے بہتر ہے) یعنی یہ زیادتی تنہا فدیہ سے بہتر ہے۔ وان تصوموا میں روزہ کی قوت اور طاقت رکھنے والے مخاطب ہیں مطلب یہ ہے کہ اے روزہ کی طاقت رکھنے والو روزہ رکھنا فدیہ سے بہتر ہے۔ اس سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ وعلی الذین یطیقونہ میں روزہ کی قوت رکھنے والے مراد ہیں اور جن کو قوت نہیں جیسے بوڑھے اور بیمار وہ مراد نہیں کیونکہ جن کو طاقت نہیں ان کے لیے روزہ رکھنا بہتر نہیں بلکہ روزہ کا نہ رکھنا بہتر ہے اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسافر کو روزہ سے زیادہ تکلیف نہ ہو تو اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے جمہور علماء کا یہی مسلک ہے لیکن امام احمد اور اوزاعی اور سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا افضل نہیں ان کی دلیل ذیل کی چند احادیث ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول ﷺ اللہ سفر میں تھے کہ ایک اژدحام دیکھا جس کے اندر ایک شخص پر لوگ جھکے ہوئے تھے حضور ﷺ نے دریافت فرمایا یہ کیا قصہ ہے لوگوں نے عرض کیا کہ یہ شخص روزہ دار ہے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کی بات نہیں۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور جابر ؓ روایت فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال رسول ﷺ اللہ رمضان میں مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور روزہ رکھا اور لوگوں نے بھی روزہ رکھا جب کراع غمیم پر پہنچے تو ایک پیالہ پانی منگایا اور اس کو اونچا کرکے سب کو دکھایا پھر سب کے سامنے نوش فرمایا لوگوں نے اس قصہ کے بعد عرض کیا : یا رسول اللہ : بعض لوگوں نے روزہ رکھا۔ فرمایا : یہ لوگ نافرمان ہیں اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے اور عبد الرحمن بن عوف ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا ایسا ہے جیسے حضر میں افطار کرنے والا اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ ہماری طرف سے ان احادیث کا یہ جواب ہے کہ احادیث اس شخص کے حق میں ہیں جس کو روزہ سے بہت تکلیف ہو اور اس کے حق میں افطار کرنا افضل ہے خواہ وہ مسافر ہو یا مریض اور اسی طرح جب جہاد میں جائے تو افطار کرنا افضل ہے۔ ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تم دشمن کے قریب آگئے ہو اب تمہارے لیے افطار کرنا موجب قوت ہے ابو سعید فرماتے ہیں کہ یہ افطار کی اجازت رخصت تھی اس لیے ہم میں سے بعض نے تو روزہ رکھا اور بعض نے افطار کیا پھر جب ایک اور منزل میں ہم اترے تو آپ نے فرمایا کہ اے لوگو ! صبح کو دشمن کا سامنا ہے افطار کرنا تمہارے واسطے موجب قوت ہے سب نے افطار کیا اور یہ افطار کرنا عزیمۃ ہوا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے نیز امام مالک نے بعض صحابہ سے مؤطا میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور امام شافعی نے ابو سعید ؓ سے مسند میں اور ابو داؤد اور حاکم اور ابن عبد البر نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اگر روزہ رکھنے سے تکلیف نہ ہو تو اس آیت کی وجہ سے روزہ رکھنا افضل ہے۔ چناچہ ابو الدرداء ؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا اور گرمی کی اس قدر شدت تھی کہ تپش سے بچنے کے لیے ہم سر پر ہاتھ رکھ لیتے تھے اور ہم میں سوائے رسول اللہ اور عبد اللہ بن رواحہ کے کوئی روزہ دار نہ تھا۔ میں کہتا ہوں کہ سب تفصیل مسافر کے حق میں ہے کیونکہ اس کے لیے رخصت کا مدار محض سفر پر ہے خواہ اس کو روزہ رکھنے میں مشقت ہو یا نہ ہو۔ رہے شیخ اور مریض اور ضعیف اور حاملہ اور مرضعہ تو ان کے حق میں رخصت کا مبنٰی خود مشقت اور روزہ سے تکلیف ہونا ہے اگر روزہ سے ان کو تکلیف نہ ہوتی ہو تو رخصت بھی نہیں اور جب روزہ سے تکلیف ہوتی ہو اور وہ تکلیف یہی ہے کہ یا تو مرض کے بڑھنے کا خوف ہو اور یا نیا مرض پیدا ہونے کا ڈر ہو اس وقت ان کا حکم بھی ایسا ہے جیسے سفر کی وجہ سے مشقت ہونے کا ہے ‘ وا اللہ اعلم۔ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ( اگر تم سمجھو) جواب ان محذوف ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تم روزہ کی فضیلت کو جانتے تو اس کو افطار اور فدیہ پر اختیار دینے کے باوجود ترجیح دیتے لیکن یہ یاد رہے کہ اب چونکہ یہ فدیہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے اس لیے اب اگر کوئی بلا عذر رمضان میں روزہ نہ رکھے اور اس کو حلال سمجھتا ہو تو کافر ہے اور اگر حلال نہیں جانتا تو فاسق ہے اور قضا اس پر واجب ہے کیونکہ تدارک بقدر امکان ضروری ہے نیز جب معذور کو قضا کا حکم ہے تو جو بلا عذر رمضان میں روزے نہ رکھے اس کے لیے تو بطریق اولیٰ قضا کا حکم ہوگا اور استغفار بھی اس پر بالاجماع لازم و واجب ہے۔ امام نخعی فرماتے ہیں کہ اگر بلا عذر رمضان میں روزے نہ رکھے تو ہزار برس تک اگر روزے رکھے تب بھی تدارک نہ ہوگا اور علی ؓ اور ابن مسعود فرماتے ہیں کہ تمام عمر اگر روزے رکھے جب بھی تلافی نہ ہوگی۔
Top