Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور خدا سے بخشش مانگو۔ بےشک خدا بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے
ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاض النَّاسُ ( پھر تم بھی چلو جہاں سے چلیں دوسرے لوگ) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حج کے واسطے عرب تو عرفہ میں ٹھہرتے تھے اور قریش ورے مزدلفہ میں قیام کرتے تھے اس پر حق تعالیٰ نے ثم افیضوا۔۔ نازل فرمائی اور ابن منذر نے اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت کی ہے کہ قریش مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور لوگ سوائے شیبہ ابن ربیعہ کے عرفہ میں ٹھہرتے تھے اس لیے حق تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔ علامہ بغوی (رح) نے فرمایا ہے کہ قریش جو حمس ( شدۃ اور حیثیت والے) کہلاتے تھے اور ان کے حلیف عرفات میں دوسرے اہل عرب کے ساتھ ٹھہرنے کو عار سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اہل اللہ ہیں اور اس کے حرم کے رہنے والے ہیں اس لیے ہم حرم کو نہیں چھوڑتے اور یہاں سے نہیں نکلتے اور دوسرے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے پھر جب لوگ عرفات سے چلتے تو حمس مزدلفہ سے کوچ کرتے تھے اس لیے حق تعالیٰ نے اس آیت کریمہ سے ارشاد فرمایا ہے کہ مثل اوروں کے عرفات میں ٹھہریں اور مزدلفہ میں سب کے ساتھ جائیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو بتادیا کہ عرفات میں ٹھہرنا ابراہیم اور اسماعیل ( علیہ السلام) کی سنت ہے ان روایات کے موافق آیت میں الناس سے سوائے حمس کے تمام لوگ مراد ہیں اور ضحاک نے فرمایا ہے کہ الناس سے یہاں ابراہیم (علیہ السلام) مراد ہیں جیسے ام یحسدون الناس [ الایۃ ] میں الناس سے محمد ﷺ مقصود ہیں، اسی طرح آیت کریمہ : اذ قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم پہلے الناس سے نعیم بن مسعود اشجعی مراد ہے۔ زہری نے فرمایا ہے کہ اس مقام پر الناس سے مراد آدم ( علیہ السلام) ہیں دلیل اس کی یہ ہے کہ سعید بن جبیر کی قرأت : ثم افیضوا من حیث افاض الناسی ہے اور ناسی آدم ( علیہ السلام) ہیں کیونکہ ناسی کے معنی بھولنے والا ہے اور آدم ( علیہ السلام) بھی اللہ کے عہد کو بھول گئے تھے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ معنی آیت کے یہ ہیں ثم یعنی عرفات سے آنے کے بعد افیضو .... یعنی مزدلفہ سے منیٰ کو چلو اور تفسیر اوّل اکثر مفسرین کا قول ہے لیکن تفسیر اوّل پر لفظ ثم نہیں بنتا کیونکہ عرفات سے چلنا مشعر حرام سے پہلے ہوتا ہے اس لیے بعض مفسرین نے تو اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ یہاں ثم بمعنی واؤ ہے اور وجہ یہ ہے کہ ثم اس مقام پر عرفات اور مزدلفہ کے ٹھہرنے میں فرق مرتبہ بیان کرنے کے واسطے آیا ہے کیونکہ عرفات کا وقوف تو فرض اور حج کا رکن ہے اس کے فوت ہونے سے حج فوت ہوجاتا ہے بخلاف مزدلفہ میں ٹھہرنے کے کیونکہ وہ بالاتفاق حج کا رکن نہیں لیکن لیث اور علقمہ فرماتے ہیں کہ مزدلفہ کا وقوف بھی رکن ہے اور اس کی نظیر قرآن شریف میں یہ آیت ہے : فک رقبہ او اطعامٌ فی یوم ذی مسغبۃٍ یتیماً ذا مقربۃٍ او مسکیناً ذا متربۃ ثم کان من الذین اٰمنوا الخ (چھڑانا اگر دن کا یا کھانا کھلانا بھوک کے دن یتیم رشتہ دار کو یا محتاج خاک افتادہ کو بعد ازاں ہونا ان لوگوں میں جو ایمان لائے ہیں) مقتضی اس آیت کا یہ ہے کہ ایمان نیکیوں سے مرتبہ میں زیادہ ہے۔ (1) [ عربی زبان میں ثم ( پھر) عطف ترتیبی کے لیے آتا ہے لیکن اس ترتیب میں تعقیب اور تاخیر شرط ہے یعنی ثم سے پہلے جس چیز یا فعل کا وقوع ہوا ہو اس سے کچھ دیر کے بعد اس چیز یا فعل کا وقوع ہونا چاہئے جو ثم کے بعد مذکور ہو ثم کا یہ حقیقی استعمال ہو لیکن آیت میں تعقیب کا معنی درست نہیں ہے بلکہ واقعہ برعکس ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ عرفات سے روانگی سے مزدلفہ کا قیام پہلے ہو کیونکہ ثم سے پہلے مزدلفہ کے قیام کا بیان ہے اور ثم سے بعد عرفات سے روانگی کا حکم ہے مگر واقعہ میں اس کے خلاف ہوتا ہے عرفات کا قیام پہلے ہوتا ہے اور مزدلفہ کا قیام اس کے بعد معلوم ہوا کہ آیت میں ثم کا حقیقی معنی مراد نہیں بلکہ مجازی معنی مراد ہے کیونکہ ثم مجازاً ترتیب مرتبہ کیلئے بھی آتا ہے اگر بعض چیزوں کا مرتبہ کم ہو اور بعض کا زیادہ تو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کرنے کیلئے ثم کا استعمال کرلیا جاتا ہے جیسے آیت : فک رقبہ او اطعام الخ میں مذکور ہے غلام آزاد کرنا بھوکوں کو کھانا کھلانا اور یتیموں کو پرورش کرنا سب اچھے کام ہیں اور ضروری بھی ہیں مگر ایمان کا درجہ سب سے اونچا ہے اس لیے ثم سے پہلے مذکورہ نیکیوں کا تذکرہ کیا اور ثم کے بعد ایمان کا یہ فقیر کہتا ہے کہ یہ مطلب اس تقدیر پر ہوگا جب ثم کان کو کلام مثبت قرار دیا جائے اور فک رقبہ پر اس کا معنوی عطف ہونا کہا جائے لیکن بعض علماء تفسیر نے ثم کان کو معنیً : منفی کلام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ثم کان کا عطف اقتحم العقبہ پر ہے اور دونوں لا کے تحت ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ نہ گھاٹی میں داخل ہوا نہ مؤمنوں کی صف میں شامل ہوا اس وقت ثم کا استعمال اپنے حقیقی معنی میں ہوگا کیونکہ جو امور مسلم الثبوت کار ہائے خیر تھے مثلاً یتیم پروری، غریب نوازی اور غلاموں کی آزادی یہ کام اسلام سے پہلے کافروں کی نظر میں بھی اچھے تھے اور کچھ لوگ یہ نیکیاں کرتے تھے لیکن شر پسند لوگ اس زمانہ میں بھی ان نیکیوں سے محروم تھے پس اس آیت کی مراد یہ ہے کہ یہ شخص دور جاہلیت کے محاسن اور خصائل حمیدہ سے بھی محروم تھا پھر جاہلیت کے بعد جب اسلام آیا تو یہ ایمان سے بھی بےبہرہ رہا۔] وا اللہ اعلم اس کے بعد معلوم کرنا چاہئے کہ اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ مزدلفہ کا ٹھہرنا رکن نہیں ہے اختلاف اس میں ہے کہ آیا واجب ہے کہ اگر فوت ہوجائے تو قربانی واجب ہو یا سنت ہے جمہور تو واجب کہتے ہیں لیکن قدر واجب میں اختلاف ہے ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ یوم نحر کی طلوع فجر کے بعد مزدلفہ کا وقوف واجب ہے اور امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ نحر کی شب کو مزدلفہ میں ٹھہرنا واجب ہے اگرچہ ایک ہی ساعت ہو اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ آدھی رات کے بعد ٹھہرنا واجب ہے وجوب کی دلیل یہی آیت کریمہ : فا اذا افضتم من عرفاتٍ الخ ہے یہ آیت شریفہ اپنی عبارت سے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور اس کے اشارہ سے وقوف عرفات سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ کلام سے مقصود تو مشعر حرام کے پاس ذکر کرنا ہے اور عرفات سے چلنا اس کی شرط ہے اس لیے وقوف مزدلفہ واجب ہوا اگر کوئی کہے کہ ذکر مشعر حرام کے پاس کسی کے نزدیک واجب نہیں اور یہ امر بطور استحباب کے ہے پھر وقوف مزدلفہ کے واجب ہونے پر استدلال اس آیت سے کیسے صحیح ہوگا تو جواب اس کا یہ ہے کہ ذکر کے معنی غفلت کو دور کرنا ہے اور غفلت کا ازالہ جیسا کہ زبان سے ہوتا ہے اسی طرح اعضا کے کام میں لانے سے بھی ہوتا ہے۔ صاحب حصین نے فرمایا ہے کہ جو اللہ کا مطیع ہے وہ ذاکر ہے اس بنا پر مزدلفہ کا وقوف عبادت کی نیت سے لا محالہ ذکر ہے اور یہی مامور بہ ہے اس لیے وقوف واجب ہوا دوسری بات یہ ہے کہ جب مزدلفہ میں ٹھہرنا ہوگا تو تلبیہ اور دعا اور مغرب اور عشا اور فجر کی نماز بھی ضرور ہی وہاں پڑھنی ہوں گی اور یہ سب ذکر ہے تو ممکن ہے کہ لازم 1 ؂ بول کر ملزوم 2 ؂ مراد لیا ہو جیسا کہ آیت کریمہ : فاقرؤا ما تیسر من القرآن ( پڑھو جو آسان ہو قرآن میں سے) اس میں نماز پڑھنا مراد ہے لیکن چونکہ قرأت نماز کے لیے لازم تھی اس لیے اس کو ذکر فرمایا یہ تو وقوف کے واجب ہونے کا اثبات قرآن سے تھا اب سنئے کہ حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مزدلفہ کا ٹھہرنا واجب ہے عروۃ بن مضرس ؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مزدلفہ میں ہمارے ساتھ فجر کی نماز میں یوم نحر کے دن حاضر رہا اور ہمارے ساتھ چلنے تک ٹھہرا اور عرفہ میں رات یا دن کو اس سے پہلے ٹھہرا اس کا حج پورا ہوا اس حدیث کو اصحاب سنن اور ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث تمام اہل حدیث کی شرط کے مواف صحیح ہے تو دیکھئے کہ اس حدیث میں جناب رسول اللہ نے حج کی تکمیل کو ومزدلفہ کے ٹھہرنے پر موقوف فرمایا ہے یہی دلیل وجوب کی ہے اور نسائی نے اس حدیث کو اس طرح روایت کیا ہے کہ جس نے مزدلفہ کے ٹھہرنے کو امام کے ساتھ پالیا اس نے حج پا لیا اور جس نے نہیں پایا اس نے حج نہیں پایا اور ابو یعلی نے اس مضمون کو اس طرح کہا ہے کہ جس نے مزدلفہ کو نہیں پایا اس کا حج نہیں، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں ٹھہرنا بعد صبح کے واجب ہے اور یہی امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے نیز اس آیت سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ مزدلفہ میں بعد صبح کے ٹھہرنا واجب ہے کیونکہ آیت میں مزدلفہ کا ٹھہرنا عرفات 3 ؂ کے ٹھہرنے پر مرتب ہے اور اس پر سب کا اجماع ہے کہ عرفات میں ٹھہرنے کا وقت آخر رات تک ہے اس بنا پر جو شخص عرفات میں آخر دسویں رات تک اگرچہ ایک ساعت ہی ٹھہرا ہو اس نے حج پالیا اب لا محالہ مزدلفہ میں ٹھہرنے کا وقت بعد صبح کے ہوگا اور عبد الرحمن بن یعمر دیلمی فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ عرفات میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور لوگ آرہے ہیں۔ نجد والے بھی آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ حج کیا ہے فرمایا کہ حج بروز عرفہ ہے ( یعنی عرفات میں نویں تاریخ کو ٹھہرنا) اور جس نے مزدلفہ کو صبح کی نماز سے پہلے پا لیا اس نے حج پالیا اور ایام منیٰ ایام تشریق ہیں جو وہی دن ٹھہرا اور چل دیا اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو ٹھہرا رہا اس پر بھی کچھ گناہ نہیں اس حدیث کو طحاوی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث سے امام مالک (رح) یہ مسئلہ مستنبط کرتے ہیں کہ مزدلفہ میں صبح سے پہلے ٹھہرنا واجب ہے لیکن یہ استنباط صحیح نہیں کیونکہ اصحاب سنن اور حاکم اور دارقطنی اور بیہقی نے اس حدیث کو اس مضمون سے روایت کیا ہے کہ حج عرفہ جو شخص صبح کی نماز سے پہلے مزدلفہ کو رات کو آگیا اس کا حج پورا ہوگیا یہ مضمون مزدلفہ میں ٹھہرنے پر بالکل دال نہیں اور امام احمد حدیث مذکور سے یہ مستنبط فرماتے ہیں کہ مزدلفہ میں رات گذارنا واجب ہے کیونکہ جناب رسول اللہ نے مزدلفہ میں رات گذاری اور بعد نماز صبح کے آپ ٹھہرے اور آپ نے فرمایا کہ مجھ سے اپنے حج کے طریق سیکھ لو۔ میں کہتا ہوں کہ مقتضی اس استدلال کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ شب باشی اور بعد صبح کے قیام کرنا دونوں واجب ہیں لیکن چونکہ رسول اللہ نے اپنے کنبہ کے ضعیف لوگوں کو مزدلفہ سے منیٰ کی طرف صبح ہی جانے کی اجازت عطا فرما دی تھی اس سے معلوم ہوا کہ صبح کے بعد کا ٹھہرنا واجب نہیں چناچہ شیخین نے صحیحین میں روایت کیا ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ میں بھی ان ہی لوگوں میں تھا جن کو رسول اللہ نے آگے بھیج دیا تھا اور صحیحین میں حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ نے ہم کو منیٰ کی طرف چاند چھپنے کے بعد چلنے کی اجازت دے دی تھی اور ابن عمر اور ام حبیبہ ؓ سے بھی اسی مضمون کی احادیث منقول ہیں ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ضعفا کو اجازت ہوجانے سے یہ نہیں نکلتا کہ اور قوی لوگوں کے ذمہ بھی مزدلفہ میں ٹھہرنا واجب نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ اس آیت سے جب یہ نکلا کہ عرفہ اور مزدلفہ میں ٹھہرنا واجب ہے اور مزدلفہ میں ٹھہرنا رکن نہیں ہے تو پھر تم کیسے کہتے ہو کہ عرفات میں ٹھہرنا رکن ہے تو جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ وقوف عرفہ کے رکن ہونے پر اجماع ہے اگر عرفہ میں ٹھہرنا فوت ہوجائے تو حج فوت ہوجائے گا اور اگر مزدلفہ کا ٹھہرنا فوت ہو تو حج نہیں جاتا اور اسند اجماع یہ ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ حج عرفہ ہے ( یعنی عرفہ کا ٹھہرنا) اور خبر واحد اجماع کی سند بن سکتی ہے اور کیا عجب ہے کہ اہل اجماع نے وقوف عرفات کی رکنیت کو حضور ﷺ کے ہی قول سے لیا ہو۔ وا اللہ اعلم۔ اس میں اختلاف ہے کہ عرفات میں ٹھہرنے کا وقت کیا ہے امام احمد نے تو یہ فرمایا ہے کہ عرفہ کے دن کی صبح صادق کے بعد سے ٹھہرنے کا وقت ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ عرفہ کے دن بعد زوال سے ہے اور امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ عرفہ کے دن غروب آفتاب سے دسویں تاریخ کی صبح صادق تک ٹھہرنے کا وقت ہے۔ امام مالک کا استدلال عبد الرحمن بن یعمر دیلمی ؓ کی حدیث گذشتہ سے ہے کیونکہ اس میں صاف مذکور ہے کہ جو شخص مزدلفہ کی رات صبح کی نماز سے پہلے آیا اس کا حج پورا ہوا اور امام احمد (رح) کی دلیل عروہ بن نضر ؓ کی حدیث ہے کیونکہ اس میں مذکور ہے کہ جو عرفات میں اس سے پہلے آیا رات کو یا دن کو اس کا حج تمام ہوا اور امام ابوحنیفہ (رح) اور شافعی (رح) کی دلیل یہ ہے کہ مسلم اور دیگر اہل حدیث نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ یوم ترویہ کو منیٰ کی طرف چلنے کے لیے سوار ہوئے اور وہیں آکر ظہر عصر مغرب عشا فجر پانچوں نمازیں پڑھیں پھر تھوڑی دیر ٹھہرے حتیٰ کہ سورج نکل آیا اس کے بعد حضور نے ایک چرمی خیمہ (عرفات میں) نصب کرنے کا حکم دیا اسی وقت ایک چرمی قبہ آپ کے لیے نصب کردیا گیا اس کے بعد آپ منیٰ سے چلے اور عرفات میں پہنچے تو قبہ نصب کیا ہوا پایا آپ وہاں اترے جب دن ڈھل گیا اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر بطن وادی میں تشریف لائے اب اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ٹھہرنے کا وقت بعد زوال کے ہے اگر قبل از زوال ہوتا تو ضرور حضور پہلے بطن وادی میں تشریف لاتے اور قبہ میں تشریف نہ رکھتے بعض نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ حدیث تو صرف اس پر دال ہے کہ بعد زوال کے ٹھہرنا افضل ہے اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اگر زوال سے پہلے ٹھہراتو کافی نہیں اور سالم بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ عرفہ کے دن زوال کے بعد حجاج کے پاس آئے اور میں ساتھ تھا پس فرمایا کہ اے حجاج اگر سنت کا اتباع چاہتا ہے تو اس وقت چل اس نے کہا اچھا ابھی چلتا ہوں لیکن اس حدیث سے بھی زوال کے بعد ٹھہرنے کی افضلیت کبھی جاتی ہے یہ نہیں نکلتا کہ اگر زوال سے پہلے ٹھہرا تو جائز نہیں۔ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ( اور گناہ، بخشواؤ اللہ سے بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے) یعنی جاہلیت میں جو حرکات ناشائستہ حج کے دنوں میں کرتے تھے ان کو اللہ سے بخشواؤ۔
Top