Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی مانی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ ( اور بعضا آدمی ایسا ہے کہ تم کو پسند آتی ہے اس کی بات) یعنی آپ کو اخنس کی بات اچھی معلوم ہوتی ہے ابن جریر نے سدی سے اس آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے اور ابن ابی حاتم اور ابن اسحاق نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک مختصر لشکر جناب رسول اللہ نے کسی جگہ بھیجا تھا اور اس میں عاصم اور مرثد ؓ بھی تھے اتفاقاً اس لشکر نے شکست کھائی تو منافقین میں سے دو شخصوں نے کہا کہ یہ لوگ بھی کیسے بد نصیب تھے نہ تو چین سے اپنے اہل و عیال میں رہے اور نہ اپنے سردار ( جناب رسول ﷺ اللہ) کا پیغام ہی ادا کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت : و من الناس من یعجبک الخنازل فرمائی۔ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ( دنیا کی زندگی میں) یا تو یعجبک کے متعلق ہے اس وقت یہ مطلب ہوگا کہ اس شخص کی بات آپ کو دنیا ہی میں پسند آتی ہے کیونکہ کلام فصیح اور شیریں ہوتا ہے اور آخرت کے اعتبار سے ناپسندیدہ ہے کیونکہ فضیحت اور رسوئی اس کا انجام ہے اور یا قولہٗ کے متعلق اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ یہ جو دنیا کی غرض سے دعویٰ محبت کا کرتا ہے اور اسلام ظاہر کرتا ہے یہ ہی آپ ﷺ کو پسندیدہ ہے ( فصاحت اور شیرینی کی حیثیت سے) ۔ وَيُشْهِدُ اللّٰهَ ( اور وہ گواہ بناتا ہے اللہ کو) یعنی یہ منافق اللہ کی قسم کھاتا ہے اور اللہ کو گواہ بناتا ہے۔ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ( اس بات پر جو اس کے دل میں ہے) یعنی اس پر قسمیں کھاتا ہے کہ جو کچھ میرے دل میں ہے وہ زبان کے مطابق ہے اور کہتا ہے کہ قسم اللہ کی میں آپ پر ایمان لانے والا ہوں اور آپ ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ ( حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے) یعنی حالانکہ یہ منافق مسلمانوں سے اشد درجہ کی عداوت اور خصومت رکھتا ہے۔ خصام خاصمت کا مصدر ہے زجاج نے کہا کہ خصام خصم کی جمع ہے جیسے بحار جمع بحر کی ہے اور و ھو الد الخصام یشہد کے فاعل سے حال ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض وہ شخص ہے جو الد خصم ہو۔ قتادہ فرماتے ہیں یعنی جو معصیت کے اندر سخت قساوت والا باطل پر اڑنے والا ہو کلام تو حکمت کے کرے اور اعمال اچھے نہ ہوں۔
Top