Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ پوچھتے ہیں آپ سے
عَنِ
: سے
الْخَمْرِ
: شراب
وَالْمَيْسِرِ
: اور جوا
قُلْ
: آپ کہ دیں
فِيْهِمَآ
: ان دونوں میں
اِثْمٌ
: گناہ
كَبِيْرٌ
: بڑا
وَّمَنَافِعُ
: اور فائدے
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَاِثْمُهُمَآ
: اور ان دونوں کا گناہ
اَكْبَرُ
: بہت بڑا
مِنْ
: سے
نَّفْعِهِمَا
: ان کا فائدہ
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے
مَاذَا
: کیا کچھ
يُنْفِقُوْنَ
: وہ خرچ کریں
قُلِ
: آپ کہ دیں
الْعَفْوَ
: زائد از ضرورت
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: واضح کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاٰيٰتِ
: احکام
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَتَفَكَّرُوْنَ
: غور وفکر کرو
(اے پیغمبر) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ ( اے محمد یہ لوگ تم سے شراب کی بابت دریافت کرتے ہیں) امام احمد نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حصور انور رسول مقبول ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے اس وقت مدینہ کے باشندے شراب پیتے اور جوا کھیلتے تھے ان دونوں کی بابت انہوں نے خود ہی آنحضرت ﷺ سے پوچھا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : یسئلونک عن الخمر والمیسر وہ لوگ کہنے لگے کہ ( اس آیت سے ہم پر ( اس کی) حرمت ثابت نہیں ہوئی کیونکہ فقط اتنا فرمایا گیا ہے کہ فیہما اثم کبیر (یعنی ان دونوں میں بڑا گناہ ہے) اور یہ خیال کرکے شراب وہ برابر پیتے رہے ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ مہاجرین میں سے ایک شخض نے نماز پڑھائی یعنی اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کھڑا ہوا تو وہ شراب کے نشہ میں تھا اسے قرأت میں متشابہ لگ گیا تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : یا ایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوٰۃ و انتم سکاریٰ (یعنی اے مسلمانو ! نشہ کی حالت میں تم نماز کے قریب بھی نہ جایا کرو) اس کے بعد سورة مائدہ میں اس سے بھی زیادہ سختی کا حکم نازل ہوا کہ : یا ایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر سے فھل انتم منتھونتک تب سب نے کہا کہ اب ہم کبھی شراب نہ پئیں گے یہ حکم ہمیں کافی ہے آخر حدیث تک۔ بغوی (رح) فرماتے ہیں خلاصہ اس بیان کا یہ ہے کہ شراب کے بارے میں اللہ نے چار آیتیں نازل فرمائی ہیں اوّل تو مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی : و من ثمر ات النخیل والاعناب تتخذون منہ سکرًا ورزقا حسنا اس وقت سب مسلمان شراب پیتے تھے اور اس زمانہ میں وہ ان کے لیے حلال بھی تھی پھر جب عمر بن خطاب ؓ اور معاذ بن جبل ؓ اور چند انصاری آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ شراب اور جوئے کی بابت ہمیں کچھ فتویٰ دیجئے کیونکہ یہ دونوں عقل اور مال کو برباد کردینے والے ہیں تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : یسؤلونک عن الخمر والمیسر [ الایۃ ] اس پر بعض لوگوں نے تو اللہ کے اثم کبیرفرمانے کی وجہ سے شراب کو چھوڑ دیا اور بعض و منافع للناسکو دلیل کو سمجھ کر پیتے رہے ایک روز عبد الرحمن بن عوف نے کچھ مہمانداری کی اور اس میں آنحضرت کے بہت سے صحابہ کو بھی بلایا اور اس دعوت میں شراب بھی پلائی شراب پی کر ان کو نشہ ہوا اور مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا اسی حالت میں انہوں نے ایک شخص کو نماز پڑھانے کے لیے آگے کردیا اس نے نشہ میں : قل یا ایھا الکافرون اعبد ما تعبدون پڑھا اور آخر سورة تک اسی طرح بلا لا کے پڑھتا چلا گیا تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ : یا ایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ و انتم سکاریٰ [ الایۃ ] پس ( اس آیت سے) نماز کے وقتوں میں نشہ حرام کردیا گیا بعض لوگوں نے تو شراب کو بالکل چھوڑ دیا اور یہ کہا کہ ایسی چیز میں کوئی خوبی نہیں ہے جو ہمیں نماز نہ پڑھنے دے اور بعض لوگ نماز کے وقتوں کے علاوہ اور وقتوں میں پیتے رہے کوئی عشاء کی نماز کے بعد پی لیتا تو صبح تک اس کا نشہ اتر جاتا اور کوئی صبح کی نماز کے بعد پی لیتا تو اس کا نشہ ظہر کے وقت تک اتر جاتا ایک روز عتبان بن مالک نے بہت سے آدمیوں کی دعوت کی اور چند مسلمانوں کو بھی بلایا ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بھی تھے اور عتبان نے ان کے لیے اونٹ کا سرا پکوایا تھا ان لوگوں نے کھانا کھا کر شراب اس قدر پی کہ وہیں نشہ ہوگیا اور نشہ کی حالت میں بڑائیاں مارنے اور اشعار پڑھنے لگے۔ سعد نے وہیں ایک قصیدہ پڑھا جس میں انصار کی ہجو اور ان کی قوم کی بڑائی تھی۔ انصار میں سے ایک شخص نے اونٹ کا جبڑا لے کر سعد کے سر میں مارا جس سے سعد کا سر پھٹ گیا۔ سعد ؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر اس انصاری کی شکایت کی ( انصاری نے سارا قصہ بیان کیا) تب آنحضرت ﷺ نے یہ دعا کہ کہ خداوندا ہمارے لیے شراب کا حکم صاف طور سے بیان فرمادے اس پر وہ آیت نازل ہوئی جو سورة مائدہ میں ہے۔ وا اللہ اعلم۔ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ خمر (کا لفظ قرآن شریف میں آیا ہے) کیا چیز ہے ؟ امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ خمر انگور کے کچے شیرہ کو کہتے ہیں جس وقت اس میں نشہ ہوجائے اور جھاگوں سے اہل جائے۔ صاحبین کے نزدیک جھاگوں سے ابلنے کی شرط نہیں ہے۔ امام مالک ‘ امام شافعی ‘ امام احمد (رح) (تینوں) کا قول یہ ہے کہ جس شربت کا زیادہ پی لینا نشہ کرتا ہو وہی خمر ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ خمر خاص اسی کا نام ہے جس کو ہم نے ذکر کیا ہے اور یہی اہل لغت کے نزدیک مشہور ہے اور اسی وجہ سے (خاص) اسی شربت میں اس کا استعمال مشہور ہوگیا ہے اس کے علاوہ اور نشہ کی چیزوں کے اور نام مشہور ہیں جیسے مثلث۔ طلاء۔ منصف۔ باذق۔ وغیرہ اور لغت میں قیاس نہیں چلا کرتا۔ جمہور کا یہ قول ہے کہ لغت میں خمر اس چیز کا نام ہے جو عقل کو خبط کردے اور میرے نزدیک تحقیقی بات یہ ہے کہ خمر ایک ایسا لفظ ہے جو عام اور خاص کے درمیان میں مشترک ہے یا تو حقیقی طور پر اور یا عموم مجاز کے طریقہ سے اور اس میں وہ عام ہی معنی مراد ہیں۔ صاحب قاموس کہتے ہیں کہ خمر یا تو انگور کے اس شربت کا نام ہے جو نشہ کرتا ہو یا عام ہے اور عام ہونا زیادہ صحیح ہے ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت خمر حرام ہوئی ہے مدینہ میں یہ ( انگوری شراب) بالکل نہ تھی یہ روایت بخاری نے نقل کی ہے اور انس کی حدیث کہ خمر حرام ہونے کے دن میں ساقی بنا ہوا تھا اور اس وقت کچے پکے چھواروں کی شراب کے سوا اور کوئی شراب نہ تھی یہ روایت متفق علیہ ہے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ میں کھڑا ہوا ابو طلحہ اور فلاں فلاں کو پلا رہا تھا اور بعض روایتوں میں یہ نام لیے ہیں کہ ابو عبیدہ بن جراح ابی بن کعب سہیل کو اتنے میں ایک آدمی نے آکر کہا کہ خمر حرام ہوگئی ہے یہ سنتے ہی ان پینے والوں نے کہا اے انس ؓ یہ برتن اوندھا دو ۔ اس خبر کے بعد نہ اس شخص سے پھر شراب کی بابت کچھ پوچھا اور نہ کسی سے اس کی تحقیق کی انس ؓ بھی کہتے ہیں کہ جس وقت خمر حرام ہوئی ہمارے ہاں انگور کی شراب بہت کم ملتی تھی اور اکثر شراب کچے پکے چھواروں کی ہوتی تھی پس یہ آثار ہیں جو ہمارے بیان پر دلالت کرتے ہیں کہ خمر ( کے لفظ) کا استعمال کبھی خاص معنی میں بھی کیا جاتا ہے لیکن آیت میں عام ہی معنی مراد ہیں اگرچہ مجازاً ہی ہوں اور اگر آیت میں خمر سے مراد وہ عام معنی نہ ہوں تو جواب سوال کے مطابق نہ ہوگا کیونکہ سوال تو اسی شراب کے بارے میں تھا جسے سوال کے وقت لوگ پیتے تھے حضرت عمر اور معاذ نے کہا تھا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہمیں اس خمر کی بابت فتویٰ دیجئے کیونکہ یہ عقل کو خراب کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : انمایرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسرو یصدکم عن ذکر اللہ و عن الصلوٰۃ اس میں شیرۂ انگور کی کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ ان لوگوں میں انگور کے شیرہ کا استعمال بھی نہ تھا۔ وا اللہ اعلم۔ اور اسی بارے میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کی حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ خمر کی حرمت نازل ہوگئی ہے اور خمر ان پانچ چیزوں سے بنتی ہے انگور، کھجور، گیہوں، جو، شہد اور خمر اسی کو کہتے ہیں جو عقل کو خراب کردے یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں ابن عمر ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ گیہوں۔ جو۔ کھجور۔ کشمش۔ شہد ان سب چیزوں کی خمر ہوتی ہے اور اسی بارے میں نعمان بن بشیر ؓ سے بھی مرفوعاً اسی طرح مروی ہے اس کو ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ نے نقل کیا ہے اور امام احمد نے ایک روایت نقل کی ہے اس کے آخر میں یہ ہے ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا) کہ نشہ کرنے والی ہر چیز سے میں منع کرتا ہوں اور یہ بھی مروی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ کی چیز حرام ہے اور ہر نشہ کرنے والی چیز خمر ہے۔ یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ انگور۔ کھجور۔ شہد۔ جوار۔ ان سب چیزوں سے خمر بنتی ہے اور جو ان میں سے نشہ لائے وہ ہی خمر ہے یہ روایت امام احمد نے نقل کی ہے جب یہ ثابت ہوگیا کہ خمر کا لفظ ان سب شربتوں کو شامل ہے جو کہ نشہ لاتے ہیں تو نص قرآن ہی سے یہ ثابت ہوگیا کہ نشہ کی چیز خواہ تھوڑی ہو یا بہت سب حرام اور ناپاک ہے اس کے پینے ( کھانے) والے کو شریعت کے موافق سزا دی جائے گی نہ اس کا بیچنا وغیرہ جائز ہے نہ اس کو تلف کردینے والے پر اس کا تاوان لازم آتا ہے ہاں اس اختلاف ہونے کی وجہ سے یہ فرق وغیرہ جائز ہے نہ اس کو تلف کردینے والے پر اس کا تاوان لازم آتا ہے ہاں اس اختلاف ہونے کی وجہ سے یہ فرق رہے گا کہ انگور کے کچے شیرہ کے علاوہ جو اور ( گیہوں وغیرہ کی) شراب کو حلال سمجھے گا اسے کافر نہ کہا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ خمر کے سوا تین قسم کی شرابیں حرام ہوتی ہیں۔ ایک ان میں سے طلا ہے یہ انگور کے شیرہ کی ہوتی ہے جس وقت اتنی پکائی جائے کہ تہائی حصہ سے کم جل جائے اور اگر نصف جل جائے تو اسے منصف کہتے ہیں یا اس سے کم جلے تو اسے باذق کہتے ہیں جس وقت خوب جوش آجائے اور جھاگ اٹھ کر ابلنے لگے۔ دوسری قسم سکر ہے یہ شراب کھجور کے شربت سے بنائی جاتی ہے جس وقت اس میں خوب جوش آجائے اور جھاگ اٹھ کر ابلنے لگے تیسری قسم نقیع الزبیب یعنی کشمش کا شیرہ ہے یہ کشمش کے کچے شیرہ سے بنائی جاتی ہے جس وقت اس میں خوب جوش آکر ویسے جھاگ اٹھنے لگیں امام ابو یوسف جھاگ اٹھنے کی شرط نہیں لگاتے پس یہ سب شرابیں ناپاک ہیں ایک روایت میں نجاست خفیفہ ہیں اور دوسری میں نجاست غلیظہ ہیں ان میں سے تھوڑی سی شراب بھی ایسی حرام ہے جیسے پیشاب حرام ہوتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد پہلے گذر چکا ہے کہ خمر ان دو درختوں سے بنائی جاتی ہے لیکن جب تک کہ نشہ نہ کرے اس کے پینے والے کو حد نہ لگائی جائے گی کیونکہ اس کی حرمت اجتہادی ظنی ہے اور حدود شبہ سے جاتی رہتی ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ان کا بیچنا بھی جائز ہے اور ان کے تلف کردینے والے سے تاوان بھی لیا جائے گا صاحبین (رح) اس کے مخالف ہیں اور مثلث انگوری اور کھجور اور کشمش کے شیرہ کو جس وقت تھوڑا سا جوش دے کر پی لیا جائے اگرچہ وہ غلیظ ہوجائے لیکن غالب گمان یہ ہو کہ اس سے نشہ نہ ہوگا تو یہ سب امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک حلال ہے۔ امام محمد (رح) اس کے مخالف ہیں یہ حکم اسی وقت ہے کہ جب کوئی ان کو طاقت آنے کی غرض سے پیے اور اگر اس سے لہو لعب ہی مقصود ہو تو یہ بالاتفاق حرام ہیں اور ان تینوں میں سے اتنی پی لینی جو نشہ لائے بالاتفاق حرام ہے اور اس کے پینے والے کو حد لگائی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ جس وقت یہ تینوں شرابیں نشہ کریں تو ان کا فقط اخیر کا پیالہ حرام ہوتا ہے کیونکہ حقیقت میں وہی نشہ لانے والا ہے اور اس کے سوا اور شرابیں یعنی گیہوں ‘ جو ‘ جوار ‘ شہد فقط بھنگ اور رماک کے دودھ وغیرہ سے جو بنائی جاتی ہیں امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک سب حلال ہیں اگرچہ نشہ کرتی ہوں ان کے پینے والے کے حد نہ لگائی جائے گی اور نہ ان کے نشہ میں طلاق دینے سے طلاق پڑے گی اور ایک روایت میں دونوں سے یہ بھی مروی ہے کہ اگر نشہ کرے گی تو حرام ہے اور اس کے پینے والے کے حد بھی لگائی جائے گی۔ ہدایہ میں ہے علما نے کہا ہے کہ صحیح مذہب یہی ہے کہ ان کے پینے والے کے حد لگائی جائے گی اور یہی مذہب امام محمد کا ہے کہ یہ شرابیں حرام ہیں اور ان کے پینے والے کے حد لگائی جائے گی اور نشہ کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق بھی پڑجائے گی جیسے کہ اور شرابوں کا حکم ہے لیکن تینوں کے نزدیک یہ ناپاک نہیں ہیں کیونکہ ان کی تھوڑی سی مقدار کو وہ حرام نہیں فرماتے۔ فتاویٰ نسفی میں ہے کہ بھنگ پینا حرام ہے اور بھنگ باز کے طلاق دینے سے طلاق پڑجاتی ہے اور جو اسے حلال سمجھے اسے قتل کردیا جائے اور اس کے پینے والے کے ایسی ہی حد لگائی جائے گی جیسے شرابی کے لگائی جاتی ہے اور بہت سی حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ہر نشہ کی چیز حرام ہے اور اس پر بھی کہ ہر نشہ کی چیز خواہ تھوڑی ہو یا بہت ہو سب حرام ہے جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی یمن سے آیا اس نے نبی ﷺ سے جوار کی شراب کو دریافت کیا ( کہ حلال ہے یا نہیں) جس کو وہاں کے لوگ پیتے اور اسے موز کہتے تھے حضور ﷺ نے پوچھا کہ اس سے نشہ ہوتا ہے عرض کیا ہاں فرمایا نشہ کی ہر چیز حرام ہے یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہر نشہ کی چیز سے منع فرمایا ہے خواہ تھوڑی ہو یا بہت ہو یہ روایت نسائی ابن حبان بزار نے نقل کی ہے اور اس کے سب راوی صحیح ہیں حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو چیز بہت ہی نشہ لائے وہ تھوڑی سی بھی حرام ہے۔ یہ حدیث ترمذی نے نقل کرکے اسے صحیح کہا ہے ابو داؤد اور ابن ماجہ نے بھی اس کو نقل کیا ہے عائشہ صدیقہ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ جس شراب کا ایک فرق ( یعنی بہت سا) پینا نشہ لائے اس میں سے ایک چلو بھر بھی پینا حرام ہے۔ یہ روایت امام احمد نے نقل کی ہے اور ترمذی نے نقل کرکے اسے حسن کہا ہے ابو داؤد اور ابن حبان نے بھی اپنی اپنی صحیح میں اس کو نقل کیا ہے۔ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نشہ اور بےہوش کرنے والی ہر چیز سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے دیلم حمیری کہتے ہیں میں نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ حضور ہم سرد ملک کے رہنے والے ہیں اور وہاں بڑی مشقت کے کام کرتے ہیں اور ان کاموں کے کرنے کی طاقت آنے اور اس ملک کی سردی سے بچنے کی غرض سے اس گیہوں کی ہم شراب بنا لیتے ہیں حضور نے پوچھا کہ اس میں نشہ ہوتا ہے میں نے عرض کیا ہاں فرمایا اس سے پرہیز کرو میں نے کہا (حضور ﷺ لوگ اسے چھوڑنے کے نہیں فرمایا اگر نہ چھوڑیں تو تم ان سے جہاد کرنا۔ یہ روایت ابو داؤد نے نقل کی ہے ابو مالک اشعری سے روایت ہے انہوں نے آنحضرت ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ میری امت کے لوگ ضرور شراب خوری کریں گیں اور اس کا نام اور رکھ لیں گے یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اسی بارے میں دارقطنی نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے خوات بن جبیر سے اسی طرح مستدرک میں مروی ہے جو علما نبیذ کی اباحت کے قائل ہیں انہوں نے چند حدیثوں سے حجت کی ہے۔ منجملہ ان کے ایک حدیث ابن عباس ؓ کی ہے کہ نبی ﷺ کے لیے شام کو کھجوریں بھگو دی جاتی تھیں اور صح کو ان کا شربت آپ پی لیتے تھے اور پھر اس دن کی رات کو اور اگلے دن صبح کو اور شام کو اور پھر تیسرے دن صبح کو عصر تک اسی کو پیتے رہتے تھے اس کے بعد اگر کچھ شربت رہ جاتا تو یا تو خادم کو پلا دیتے اور یا پھینکوا دیتے تھے یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ شربت حرام ہوتا تو آپ خادم کو نہ پلاتے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اس میں نشہ نہ ہوتا تھا لیکن چونکہ اس کا مزہ جاتا رہتا تھا اور اندیشہ تھا کہ عنقریب اس میں نشہ ہو جاے گا اس لیے آپ خادم کو دیدیتے تھے اور اگر اس میں نشہ ہونے پر آپ کو غالب گمان ہوتا تھا تو اسے آپ پھنکوا دیتے تھے لہٰذا اس سے حجت نہیں ہوسکتی اور اس مسئلہ پر کہ خمر کے سوا (اور شرابوں میں) فقط اخیر کا پیالہ حرام ہے نہ کہ تھوڑی بھی اس روایت سے حجت کی ہے جو ابن مسعود کی طرف منسوب کی جاتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ : کُلُّ مُسْکرٍ حَرَامٌ سے وہ شربت مراد ہے جو تمہیں نشہ کردیتا ہو۔ یہ روایت دارقطنی نے نقل کی ہے ابن ہمام فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے۔ حجاج بن ارطاۃ اور عمار بن مطر اس میں راوی ہیں اور حقیقت میں یہ قول نخعی کا ہے اور ابن مبارک سے سند کے ساتھ ثابت ہے کہ کسی نے ابن مسعود کی اسی حدیث کو ان کے سامنے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حدیث باطل ہے اور ان علماء نے ابن عباس ؓ کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ خمر تو بعینہٖ حرام کردی گئی باقی اور شربتوں میں نشہ حرام ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ یہ روایت مسلم نہیں ہے ابن جوزی نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ سے ابو سعید نے اسی طرح حدیث نقل کی ہے پھر کہا ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے ابو سعید تک نہیں پہنچی۔ ابن ہمام کہتے ہیں ہاں یہ حدیث بہت عمدہ سند سے ابن عباس ؓ تک ان لفظوں سے پہنچتی ہے کہ خمر کی ذات کو حرام کیا گیا ہے خواہ وہ تھوڑی ہو یا بہت اور ہر شراب جو نشہ لائے اور ایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جو شراب نشہ لائے وہی حرام ہے ابن ہمام فرماتے ہیں کہ نشہ کا لفظ یہاں کہنا نصیحت ہے۔ میں کہتا ہوں ابن عباس ؓ کے قول کی مراد یہ ہے کہ نشہ کرنے والی ہر شراب حرام ہے خواہ تھوڑی ہو یا بہت ہو اور انہیں علماء نے ابو مسعود انصاری کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ نبی ﷺ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے پیاس لگی تو کسی نے مشکیزہ میں سے نبیذ لا کر حضور کو دیا۔ آپ ﷺ اس پر بہت ناراض ہوئے اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا یہ حرام ہے ؟ فرمایا : نہیں لیکن زمزم کے پانی کا ایک ڈول میرے پاس لاؤ ( اسی وقت پانی لایا گیا تو) پھر آپ نے اس میں پانی ملا کر طواف ہی کرتے ہوئے اسے پی لیا۔ مطلب بن وداعہ سہمی سے بھی اس طرح مروی ہے اور اس کے آخر میں یہ ہے کہ جس وقت تمہیں زیادہ پیاس لگا کرے تو اسی طرح کرلیا کرو کسی نے ابن عمر سے اس نبیذ کی بات پوچھا جس میں حدت آگئی ہو فرمایا کہ ایک جلسہ میں رسول اللہ بیٹھے ہوئے تھے آپ کو نبیذ کی کچھ بو معلوم ہوئی آپ نے کسی کو بھیج کر اسے اپنے پاس منگوالیا اور ناک لگا کر اسے سونگھا تو اس میں حدت پائی گئی آپ نے اس میں پانی ملوا کر سے پی لیا پھر فرمایا کہ جب تمہاری نبی ذوں میں حدت آجایا کرے تو پانی سے اسے کم کرلیا کرو۔ ابن عباس نے بھی نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے ان سب حدیثوں کو دارقطنی نے نقل کیا۔ ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے نبیذ کی بابت دریافت کیا کہ حلال ہے یا حرام ؟ فرمایا حلال ہے یہ روایت ابن جوزی نے نقل کی ہے سعید بن ذی القوہ فرماتے ہیں کہ ایک دہقانی نے حضرت عمر کے لوٹے میں سے نبیذ پی لی تو اسے نشہ ہوگیا۔ حضرت نے اس کی حد میں اس کے درّے لگوا دیئے وہ بولا کہ میں نے تو آپ ہی کے برتنوں میں سے نبیذ پیا تھا فرمایا ہم تو فقط نشہ کی وجہ سے تیرے درّے لگواتے ہیں۔ یہ روایت ابن جوزی نے نقل کی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ابو مسعود ؓ کی روایت کی بابت دارقطنی نے کہا ہے کہ وہ یحییٰ بن یمان سے مشہور ہے اور امام احمد بن حنبل نے یحییٰ بن یمان کو ضعیف راوی کہا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ یہ غلطیاں بہت کرتا ہے کسی نے ان سے پوچھا کہ اس روایت کو اور کسی نے بھی نقل کیا ہے فرمایا نہیں ہاں ایک ایسے راوی نے جو اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ اس کی حدیث حجت نہیں ہوسکتی۔ ابو حاتم کا قول ہے کہ یہ مضطرب الحدیث ہے اور مطلب بن وداعہ کی حدیث محمد بن سائب کلبی کے طریقہ سے مشہور ہے اور محمد بن سائب کذاب ہے اعتبار کرنے کے لائق نہیں۔ لیث سعدی سلیمان کا بھی یہی قول ہے۔ نسائی اور دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میں متروک ہے ابن حبان فرماتے ہیں کہ جھوٹ اس کے چہرہ سے معلوم ہوتا ہے اور ابن عمر ؓ کی حدیث کی سند میں عبد الملک بن نافع راوی ہے اور وہ مجہول ضعیف ہے اور صحیح حدیث ابن عمر سے فقط اتنی مرفوع ہے کہ ما اَسْکَرْ کثیرہ فقلیلہ حرام ( یعنی جو نشہ لائے وہ تھوڑی ہو یا بہت سب حرام ہے) اور ابن عباس کی حدیث کا روایت کرنے والا فقط قاسم بن بہرام ہے ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس سے کسی طرح حجت کرنی جائز نہیں ہے اور ابو مسعود کی حدیث میں عبد العزیز بن ابان راوی ہے امام احمد فرماتے ہیں میں نے اس کو چھوڑ دیا ہے ( یعنی میں اس کی حدیث نہیں لیتا) اور ابن نمیر فرماتے ہیں کہ یہ کذاب ہے اپنی طرف سے حدیث گھڑ لیتا ہے اور سعید بن نقوہ کی حدیث کی بابت ابو حاتم فرماتے ہیں کہ یہ سعید دجال کا بھی استاد ہے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر سے اسی طرح روایت کی ہے مگر وہ روایت منقطع ہے ان سب کے علاوہ نبیذ میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ اگر اس میں خوب جوش آکر نشہ ہوگیا ہے تو وہ بالاتفاق حرام ہے خواہ تھوڑا ہو یا بہت ہو اور اگر نشہ نہیں ہو اتو وہ بالاتفاق حلال ہے لہٰذا ان حدیثوں کو خلاف کے بارے میں بالکل دخل نہیں ہے۔ وا اللہ اعلم وَالْمَيْسِرِ ( اور جوئے کی بابت) لفظ میسر مصدر ہے جیسے موعد جوئے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اس میں غیر کا مال آسانی سے لیا جاتا ہے۔ عطا طاؤس مجاہد تینوں کا قول یہ ہے کہ جس چیز میں جوا ہو وہ اس میسر کے حکم میں ہے یہاں تک کہ لڑکوں کا اخروٹ اور کوڑیوں سے کھیلنا بھی۔ بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ شطرنج عجم کے لوگوں کا جوا ہے نرد اور شطرنج وغیرہ کے منع ہونے کے متعلق بریدہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نرد شیر سے کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت میں سان لیا۔ عبدان ابو موسیٰ ابن حزم نے حبہ بن مسلم سے مرسل روایت کی ہے کہ جو شخص شطرنج سے کھیلے وہ ملعون ہے اور اسے دیکھنے والا سور کا گوشت کھانے والے کے برابر ہوتا ہے ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص نرد سے کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی یہ حدیث امام احمد اور ابو داؤد نے روایت کی ہے۔ ابو موسیٰ ہی سے روایت ہے کہ شطرنج سے سوائے گنہگار کے اور کوئی نہیں کھیلتا اور ان ہی سے کسی نے شطرنج کی بابت پوچھا تھا فرمایا کہ یہ فعل باطل ہے اور باطل کو اللہ پاک پسند نہیں کرتا۔ یہ روایت بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہے۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ شراب جوا کو بہ تینوں (1) [ اس کے معنی اگلی روایت میں ہیں۔ 12] سے نبی ﷺ سے منع فرمایا ہے۔ یہ روایت ابو داؤد نے نقل کی ہے ابن عباس ؓ سے بھی مرفوعاً اسی طرح مروی ہے بعض کا قول یہ ہے کہ کو بہ طبلہ کو کہتے ہیں یہ روایت بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے بھاگتے دیکھ کر فرمایا کہ شیطان شیطان کے پیچھے جا رہا ہے یہ حدیث امام احمد ابو داؤد ابن ماجہ نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کی ہے اور تحقیقی بات یہ ہے کہ کھیلنا خواہ کسی چیز کے ساتھ ہو بالاتفاق حرام ہے اور وہ جو امام شافعی سے مروی ہے کہ آپ نے شطرنج سے کھیلنے کو مباح فرمایا ہے تو اس بارے میں صحیح یہ ہے کہ اس قول سے آپ ﷺ نے رجوع کرلیا ہے مال برباد کرنا اور فضول خرچی کرنی خواہ کسی طرح ہو جیسے رشوت دینی جوا کھیلنا اور سو وغیرہ دینا یہ سب بالاتفاق حرام ہیں اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّ المُبَذِّرِیْنَ کَانُوْآ اِخْوَان الشَّیَاطِیْنِ ( یعنی فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں) اور جوئے میں دونوں باتیں ہیں کھیلنا اور مال برباد کرنا اس لیے اس کی اور بھی زیاد ممانعت ہوگئی یہ بالاتفاق کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے خواہ وہ جوا اس قسم کا ہو جو عرب کھیلتے ہیں اور یا اس کے سوا شطرنج اور نرد وغیرہ ہو۔ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ ( تم ان سے کہہ دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے) کیونکہ ان دونوں سے بڑے بڑے گناہ صادر ہوتے ہیں مثلاً آپس میں لڑائی جھگڑا کرنا اور گالم گلوچ ہونا علیٰ ہذا القیاس ان سے آپس میں بغض و عداوت وغیرہ پڑجاتی ہے اور ذکر الٰہی اور نماز سے یہ روک دیتے ہیں حمزہ اور کسائی نے اثم کبیر ثائے مثلثہ سے پڑھا ہے جس سے قسم قسم کے گناہ مراد ہیں اور باقی قاریوں نے کبیر باء مؤحدہ سے پڑھا ہے کیونکہ کبیر سے گناہ کبیرہ ہونا مراد ہے اور یہ دونوں فعل کبیرہ گناہوں میں سے ہیں معاذ ؓ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ شراب تم ہرگز نہ پینا کیونکہ تمام بےحیائیوں کی جڑ ہے یہ حدیث امام احمد نے نقل کی ہے ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں رسول اللہ فرماتے تھے کہ نہ تو زانی زنا کرتے وقت مؤ من رہتا ہے اور نہ چور چوری کرتے وقت مؤمن رہتا ہے اور نہ شرابی شراب پیتے وقت مؤمن رہتا ہے۔ آخرحدیث تک یہ حدیث بخاری (رح) نے روایت کی ہے۔ ابن عمرو ؓ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ شراب خوری سب بےحیائیوں کی جڑ ہے اور سب کبیرہ گناہوں سے بڑا گناہ ہے جس نے شراب پی لی اس نے نماز ترک کردی (یعنی اس کی نماز نہیں ہوتی) اور اس نے اپنی ماں خالہ پھوپھی سے زنا کیا یہ حدیث طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جس نے شراب پی لی اس کی نماز چالیس روز تک اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا اگر پھر اس نے توبہ کرلی تو اللہ اس کی خطا کو معاف کردیتا ہے اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور اگر چوتھی مرتبہ بھی پی لی تو پھر اس نے توبہ کرلی تو اللہ اس کی خطا کو معاف کردیتا ہے اور اگر پھر پی تو پھر چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی پھر اگر توبہ کرلی تو پھر خدا اس کو معاف کردیتا ہے اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور اگر چوتھی مرتبہ بھی پی لی تو پھر چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اب اگر توبہ کرے واللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول نہیں کرتا اگر پھر اس نے توبہ کرلی تو اللہ اس کی خطا کو معاف کردیتا ہے اور اگر پھر پی خدا اسکو معاف کردیتا ہے اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور اگر چوتھی مرتبہ بھی پی لی تو پھر چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اب اگر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول نہیں کرتا اور قیامت کے پیپ وغیرہ کی نحر سے اس کو پلایا جائے گا۔ یہ حدیث نسائی ‘ ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کی ہے۔ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شراب سب برائیوں کی جڑ ہے جس نے شراب پی اس کی نماز چالیس روز تک مقبول نہیں ہوتی اگر وہ پی کر مرگیا تو جاہلیت کی موت مرا۔ یہ حدیث حسن سند کے ساتھ طبرانی نے نقل کی ہے ابن عمر ؓ ہی آنحضرت سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ والدین کا نافرمان اور جواری اور احسان جتانے والا اور ہمیشہ شراب پینے والا بہشت میں نہ جائے گا۔ یہ حدیث دارمی نے روایت کی ہے۔ ابن عمر ؓ ہی مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ تین آدمی ہیں جن پر اللہ نے بہشت حرام کردی ہے ہمیشہ شراب پینے والا والدین کا نافرمان۔ دیوث یہ حدیث امام احمد اور نسائی نے روایت کی ہے۔ ابو امامہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور سب قسم کے باجوں اور بت اور صلیب اور رسوم جاہلیت کو نیست و نابود کردینے کا مجھے حکم دیا ہے اور اس خداوند عالم نے اپنی عزت کی قسم کھا کے فرمایا کہ میرا جو بندہ شراب کا ایک گھونٹ بھی پیئے گا تو اسی کے برابر ضرور میں اسے پیپ پلاؤں گا اور جو میرے خوف کی وجہ سے شراب کو چھوڑ دے گا تو قدس کے حوضوں سے میں ضرور اسے ( شراب طہور وغیرہ) پلاؤں گا۔ یہ حدیث امام احمد (رح) نے روایت کی ہے۔ ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہی جو جنت میں نہ جائیں گے یعنی ہمیشہ شراب پینے والا بےرحم جادو کو حق سمجھنے والا یہ حدیث امام احمد نے روایت کی ہے ابن عباس کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی ہمیشہ کا شرابی مرگیا تو وہ بت پرستوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی حضور میں پیش کیا جائے گا یہ حدیث امام احمد نے روایت کی ہے۔ ابن ماجہ اور بیہقی نے بھی ابوہریرہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ابو موسیٰ سے روایت ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے نزدیک شراب پینا اور اللہ کو چھوڑ کر اس ستون کی پرستش کرنا دونوں برابر ہیں یہ روایت نسائی نے نقل کی ہے۔ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ ( اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں) کیونکہ شراب میں پینے کے وقت مزہ آتا ہے فرحت ہوتی ہے کھانا جلدی ہضم ہوتا ہے بزدلوں میں بہادری آجاتی ہے مروت بڑھ جاتی ہے۔ طبیعت قوی ہوجاتی ہے اور بعض بیماریاں بھی جاتی رہتی ہیں اور جوئے میں بلا محنت اور مشقت کے مال ہاتھ آجاتا ہے۔ مسئلہ اس پر سب ( ائمہ) کا اتفاق ہے کہ اختیاری حالت میں شراب سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ہاں مجبوری اور اضطراری حالت میں جائز ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے۔ الا ما اضطررتم الیہ اور فرمایا : فمن اضطر غیر باغٍ و لا عاد فلا اثم علیہ بس جس کے حلق میں لقمہ اٹک گیا اور سوائے شراب کے اور کوئی چیز نہ ملی تو امام ابوحنیفہ (رح) ۔ امام شافعی امام احمد کے نزدیک لقمہ اتارنے کے لیے اسے شراب پی لینی جائز ہے اور امام مالک سے مشہور قول یہ ہے کہ جائز نہیں ہے اس میں ائمہ کا اختلاف ہے کہ شراب کا دوا میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) امام مالک امام احمد فرماتے ہیں کہ جائز نہیں ہے ایک صحیح قول امام شافعی کا بھی یہی ہے اور ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ ( دوا میں) تھوڑی سی شراب استعمال کرلینا جائز ہے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ شراب کی تلچھٹ وغیرہ بھی پینی مکروہ ہے کیونکہ اس میں شراب کے اجزا ہوتے ہیں اور حرام چیز سے نفع اٹھانا بھی حرام ہے اور اسی واسطے اسے زخم پر لگانا اور جانوروں کے کیڑوں میں ڈالنا بھی جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ دوا کے طور پر بچہ یا ذمی کو پلائے اور اگر پلادے تو اس کا وبال پلانے والے کے ذمہ رہتا ہے اور اسی طرح جانوروں کو بھی پلانی جائز نہیں ہے۔ وائل بن حجر کہتے ہیں ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے شراب کے استعمال کو پوچھا تو حضور نے اسے شراب سے منع کردیا وہ بولا کہ میں تو فقط دوا کے لیے بنا تا ہوں فرمایا یہ دوا نہیں ہے بلکہ یقیناً بیماری پیدا کرنے والی ہے۔ یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے۔ طارق بن سوید کہتے ہیں میں نے حضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے ملک میں انگور ہوتے ہیں اور انہیں نچوڑ کر ہم شربت بنا لیتے ہیں فرمایا یہ نہیں چاہئے میں نے پھر پوچھا تو آپ نے پھر اسی طرح فرما دیا میں نے کہا کہ دوا کے طور پر بیماروں کو بھی ہم شراب پلا دیتے ہیں فرمایا اس میں شفا نہیں ہے بلکہ یہ یقیناً بیماری ہے۔ یہ حدیث امام احمد نے روایت کی ہے۔ امّ سلمہ فرماتی ہیں میں نے ایک پیالہ نبیذ تیار کیا تھا پھر تھوڑی سی دیر میں نبی ﷺ تشریف لے آئے اور اس وقت اس میں جوش آرہا تھا پوچھا یہ کیا ہے میں نے کہا میری بچی کو کچھ تکلیف ہے اس کے واسطے میں نے یہ دوا بنائی ہے۔ فرمایا ان چیزوں میں تمہارے لیے اللہ نے شفا نہیں رکھی جو اس نے تم پر حرام کردی ہیں۔ یہ روایت بیہقی اور ابن حبان نے نقل کی ہے ابن حبان کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حرام چیزوں میں تمہارے لیے اللہ نے شفا نہیں رکھی یہی روایت ابن مسعود سے بخاری نے تعلیقاً روایت کی ہے۔ میں کہتا ہوں آنحضرت ﷺ کے اس اشارہ کا کہ حرام چیزوں میں اللہ نے تمہارے لیے شفا نہیں رکھی یہ مطلب نہیں ہے کہ شفا ان میں پیدا ہی نہیں کی کیونکہ یہ تو نص آیت کے خلاف ہے اس کے علاوہ حرام ہونے سے خلقی اور جبلی فائدے نہیں بدل جا یا کرتے۔ لَا تبدیل لخلق اللہ بلکہ مقصود اس سے یہ ہے کہ حرام چیز سے شفا حاصل کرنے کی تمہیں اجازت نہیں دی گئی اور کبھی حرام چیز کا دوا میں استعمال جائز ہونے پر حضرت انس کی حدیث سے حجت کی جاتی ہے وہ حدیث یہ ہے انس کہتے ہیں کہ عکل یاعرینہ کے خاندان کے چند آدمی مدینہ منورہ میں آئے اور مدینہ کی آب وہوا انہیں موافق نہ آئی تو آنحضرت ﷺ نے نہیں حکم دیا کہ اونٹوں کے گلے کے ساتھ جنگل چلے جایا کریں اور ان کا دودھ موت پیتے رہیں وہ پینے لگے جب خوب تندرست ہوگئے تو چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ لے کر اپنے وطن کا راستہ لیا آخر حدیث تک یہ حدیث بخاری و مسلم نے روایت کی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے کیونکہ ان عرینیوں کا قصہ سورة مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے ہوا ہے۔ امام شافعی (رح) اس حدیث سے استدلال لاتے ہیں کہ جس جانور کا گوشت کھایا جائے اس کا پیشاب پاک ہے پس اس حدیث سے اس سے مسئلہ پر حجت کرنی جائز نہیں ہے کہ حرام چیز کے ساتھ وا کرنی جائز ہے اس میں بھی اختلاف ہے کہ شراب کا سرکہ بنا لینا جائز ہے یا نہیں امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں جائز ہے اور سرکہ ہو کر وہ شراب پاک ہوجاتی ہے۔ امام مالک کا قول یہ ہے کہ مکروہ ہے لیکن سرکہ ہو کر پاک ہوجاتی ہے۔ امام شافعی اور امام احمد فرماتے ہیں جائز نہیں ہے اور نہ سرکہ ہو کر پاک ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل ام سلمہ کی حدیث ہے کہ ان کے ہاں دودھ کی ایک بکری تھی پھر ( ایک روز) حضور ﷺ نے اس بکری کو نہ دیکھا تو پوچھا کہ تمہاری بکری کیا ہوئی ہم نے کہا مرگئی فرمایا کہ اس کی کھال کو اپنے کام میں کیوں نہیں لائیں ہم نے کہا یا رسول اللہ وہ مردہ تھی فرمایا دباغت سے وہ پاک ہوجاتی ہے جیسا کہ شراب سرکہ ہو کر پاک ہوجاتی ہے۔ یہ روایت دارقطنی نے نقل کی ہے دارقطنی کہتے ہیں کہ اس کو روایت کرنے والا فرح بن فضالہ اکیلا راوی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ راوی سندوں کو الٹ پلٹ کردیتا ہے اور واہی تباہی متون کے ساتھ صحیح سندیں لگا دیتا ہے لہٰذا اس کی روایت کو حجت بنانا جائز نہیں ہے اور انہوں نے بہت سی حدیثیں ایسی ذکر کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ تمہارے لیے عمدہ سرکہ شراب کا ہے اور کھال دباغت سے اس طرح پاک ہوجاتی ہے جیسے سرکہ ہونے سے شراب حلال ہوجاتی ہے یہ حدیث مشہور نہیں ہے۔ امام شافعی اور امام احمد کی دلیل حضرت انس کی یہ حدیث ہے کہ ابو طلحہ نے آنحضرت ﷺ سے ان یتیموں کی بابت دریافت کیا جن کے ورثہ میں شراب آئی تھی حضور ﷺ نے فرمایا اسے پھینک دو ابو طلحہ ؓ نے کہا حضور ﷺ ہم اس کا سرکہ نہ بنا لیں ؟ فرمایا : نہیں۔ یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے اور یہ حدیث اور طریقوں سے بھی مروی ہے جن کو دارقطنی نے نقل کیا ہے اور بعض میں یہ ہے ابو طلحہ ؓ نے کہا کہ چند یتیم بچے جو میری پرورش میں ہیں میں نے ان کے لیے شراب خرید لی ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ شراب پھینک دو اور اس کیے مٹکوں کو توڑ دو ۔ آپ ﷺ نے تین مرتبہ اسی طرح فرمایا۔ دوسری حدیث ابو سعید کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب شراب حرام ہوگئی تو ہم نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ ہمارے پاس ایک یتیم بچہ کی شراب ہے فرمایا اسے پھینک دو ہم نے پھینک دی۔ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ( اور ان کے فائدہ سے ان کا گناہ زیادہ ہے) صاحب معالم التنزیل کہتے ہیں ضحاک ( اس کے یہ معنی) کہتے تھے کہ حرام ہونے کے بعد ان کا گناہ اس فائدے سے بڑا ہے جو حلال ہونے سے پہلے تھا اور بعض کا قول یہ ہے کہ حرام ہونے سے پہلے ہی ان کے فائدے سے ان کا گناہ زیادہ تھا اور میرے نزدیک ظاہر یہ ہے کہ حرام ہونے کے بعد ان کا گناہ ان کے فائدہ سے زیادہ بڑھ کر ہے کیونکہ گناہ کی مضرتیں آخرت میں ہوں گی اور اس کے فائدے دنیا میں حاصل ہوجاتے ہیں اور دنیا چند روزہ ہے اور آخرت بڑی سخت کٹھن ہے وا اللہ اعلم۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top