Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور خدا (کے نام کو) اس بات کا حیلہ نہ بنانا کہ (اس کی) قسمیں کھا کھا کر سلوک کرنے اورپرہیزگاری کرنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری کرانے سے رک جاؤ۔ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
وَلَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَيْمَانِكُمْ ( اور اللہ کو اپنی قسموں کی آڑ نہ بناؤ) عرضۃ کے معنی روکنے والی چیز کے ہیں مراد یہ ہے کہ تم اللہ کی قسم کو نیکیوں سے روکنے والی چیز نہ کرلو اور ایمان سے مراد وہ امور ہیں جن پر قسم کھائی جاتی ہے۔ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَـتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَيْنَ النَّاسِ : کہ سلوک کرو اور پرہیزگاری کرو اور لوگوں میں صلح کراؤ) ان تبروا مع اپنے معطوفوں کے ایمانکم کا عطف بیان ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ لا ایمانکم میں لام علت کا ہو اور ان فعل (لاتجعلوا یا عرضۃً ) کے متعلق ہو یعنیلا تَجْعَلوُْا اللہ عُرْضۃَلاجل ایمانکم لان تبروا ( یعنی اللہ تعالیٰ کی قسم کو لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے سے تم آڑنہ بناؤ) کہ تم اللہ کی قسم کھالو کہ فلاں شخص کے ساتھ سلوک نہ کریں گے اور کبھی عرضہ کا اطلاق ایسی چیز پر ہوتا ہے جو دوسری شئ کے سامنے گاڑ دی جائے ( جیسے نشانہ) عرب کا محاورہ ہے جعلتہ عرضۃ لکذا یعنی فلاں کام کے واسطے فلاں شے کو میں نے گاڑ دیا تو اب یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنا لو کہ ہر بات میں اس کی قسم کھانے لوگ۔ قاموس میں العرضۃ الاعتراض فی الخیر والشر اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ( ہر وقت) خدا کی قسم نہ کھایا کرو (اخیر کی دو صورتوں میں) اَنْ تَبَرُّوْا یا تونہی کی علت ہوگی یعنی تمہیں قسم سے منع کیا جاتا ہے تاکہ تم متقی ہوجاؤ یا منہی کی علت ہوگی اس صورت میں ایک لا مقدر ماناجائے گا یعنی زیادہ قسمیں نہ کھایا کرو ( کہ زیادہ قسمیں کھانے سے) تم پرہیزگار نہ ہو گے) اور لوگوں میں تمہارا اعتبار نہ رہے گا تو لوگوں میں صلح کرانا جو اہم کام ہے اس کو انجام نہ دے سکو گے) اس آیت سے ثابت ہوگیا کہ زیادہ قسمیں کھانا مکروہ ہے اور یہ بھی کہ زیادہ قسمیں کھانے والا اللہ پر جرأت کرنے والا ہے نہ وہ صالح پرہیزگار ہوتا ہے اور نہ لوگوں میں صلح کرانے کے اندر وہ اعتبار کے قابل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ یا تو قسم ٹوٹ جاتی ہے یا اس سے ندامت ہوتی ہے۔ یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ حاکم نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور بخاری نے اپنی تاریخ میں نقل کی ہے ایک امر یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ جو شخص کسی نیک عمل کے چھوڑنے کی قسم کھالے تو اس پر واجب ہے کہ اپنی (اس) قسم کو نیکی کرنے سے آڑ نہ بنائے بلکہ قسم توڑ کے کفارہ دیدے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص قسم کھالے اور پھر اسے اس کے خلاف میں بہتری معلوم ہو تو چاہئے کہ اپنی اس قسم کا کفارہ دے کر جو بہتر ہے اسے کرلے۔ یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے۔ صحیحین میں عبد الرحمن بن سمرہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ ابو موسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم انشاء اللہ تعالیٰ میں جس بات پر کبھی قسم کھاؤں گا اور پھر اس کے خلاف کو اس سے بہتر دیکھوں گا تو میں اپنی قسم کا کفارہ دے کر ضرور اسی کو کروں گا جو اس سے بہتر ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت صدیق ( اکبر ؓ کے حق میں نازل ہوئی تھی یعنی جس وقت آپ نے قسم کھائی کہ مسطح کے ساتھ کبھی سلوک نہ کروں گا کیونکہ اس نے حضرت عائشہ ( صدیقہ ؓ پر تہمت لگائی تھی یہ روایت ابن جریر نے ابن جریح سے نقل کی ہے۔ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (اور اللہ سنتا اور جانتا ہے) یعنی تمہاری قسموں کو سنتا اور تمہاری نیتوں کو جانتا ہے۔
Top