Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 31
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
وَقُلْ
: اور فرما دیں
لِّلْمُؤْمِنٰتِ
: مومن عورتوں کو
يَغْضُضْنَ
: وہ نیچی رکھیں
مِنْ
: سے
اَبْصَارِهِنَّ
: اپنی نگاہیں
وَيَحْفَظْنَ
: اور وہ حفاظت کریں
فُرُوْجَهُنَّ
: اپنی شرمگاہیں
وَلَا يُبْدِيْنَ
: اور وہ ظاہر نہ کریں
زِيْنَتَهُنَّ
: زپنی زینت
اِلَّا
: مگر
مَا
: جو
ظَهَرَ مِنْهَا
: اس میں سے ظاہر ہوا
وَلْيَضْرِبْنَ
: اور ڈالے رہیں
بِخُمُرِهِنَّ
: اپنی اوڑھنیاں
عَلٰي
: پر
جُيُوْبِهِنَّ
: اپنے سینے (گریبان)
وَلَا يُبْدِيْنَ
: اور وہ ظاہر نہ کریں
زِيْنَتَهُنَّ
: اپنی زینت
اِلَّا
: سوائے
لِبُعُوْلَتِهِنَّ
: اپنے خاوندوں پر
اَوْ
: یا
اٰبَآئِهِنَّ
: اپنے باپ (جمع)
اَوْ
: یا
اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ
: اپنے شوہروں کے باپ (خسر)
اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ
: یا اپنے بیٹے
اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ
: یا اپنے شوہروں کے بیٹے
اَوْ اِخْوَانِهِنَّ
: یا اپنے بھائی
اَوْ
: یا
بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ
: اپنے بھائی کے بیٹے (بھتیجے)
اَوْ
: یا
بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ
: یا اپنی بہنوں کے بیٹے (بھانجے)
اَوْ نِسَآئِهِنَّ
: یا اپنی (مسلمان) عورتیں
اَوْ مَا مَلَكَتْ
: یا جن کے مالک ہوئے
اَيْمَانُهُنَّ
: انکے دائیں ہاتھ (کنیزیں)
اَوِ التّٰبِعِيْنَ
: یا خدمتگار مرد
غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ
: نہ غرض رکھنے والے
مِنَ
: سے
الرِّجَالِ
: مرد
اَوِ الطِّفْلِ
: یا لڑکے
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
لَمْ يَظْهَرُوْا
: وہ واقف نہیں ہوئے
عَلٰي
: پر
عَوْرٰتِ النِّسَآءِ
: عورتوں کے پردے
وَلَا يَضْرِبْنَ
: اور وہ نہ ماریں
بِاَرْجُلِهِنَّ
: اپنے پاؤں
لِيُعْلَمَ
: کہ جان (پہچان) لیا جائے
مَا يُخْفِيْنَ
: جو چھپائے ہوئے ہیں
مِنْ
: سے
زِيْنَتِهِنَّ
: اپنی زینت
وَتُوْبُوْٓا
: اور تم توبہ کرو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف ( آگے)
جَمِيْعًا
: سب
اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ
: اے ایمان والو
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: فلاح (دوجہان کی کامیابی) پاؤ
اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ
وقل للمؤمنت یغضضن من ابصارہن اور مؤمن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ‘ یعنی جس کو دیکھنا جائز نہیں اس سے آنکھیں بند رکھیں۔ یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ عورت کے لئے اجنبی مردوں کو دیکھنا مطلقاً ناجائز ہے امام شافعی (رح) : کا یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اگر میلان صنفی کا اندیشہ نہ ہو تو عورت اجنبی مرد کا وہ حصہ دیکھ سکتی ہے جو ایک مرد دوسرے مرد کا دیکھ سکتا ہے۔ امام شافعی (رح) نے اپنے قول کے ثبوت میں یہ حدیث پیش کی ہے کہ ایک بار حضرت ام سلمہ ؓ اور حضرت میمونہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھیں۔ حضرت ابن ام مکتوم بھی آگئے (یہ واقعہ حکم حجاب نازل ہونے کے بعد کا ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم دونوں پردے میں ہوجاؤ (حضرت ام سلمہ کا بیان ہے) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : کیا وہ نابینا نہیں ہیں۔ فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کیا تم اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔ رواہ احمد و ابو داؤد والترمذی۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت مندرجۂ ذیل سے استدلال کیا ہے کہ حجۃ الوداع کے سال قبیلۂ خثعم کی ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! بندوں پر اللہ نے جو حج فرض کیا ہے وہ میرے بوڑھے باپ پر (بھی عائد ہوتا ہے اور) ایسے وقت میں (اس پر یہ فرض) عائد ہوا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہے ٹھیک طرح سے سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتا اگر میں اس کے بدل میں حج کرلوں تو کیا اس کی طرف سے ادا ہوجائے گا فرمایا ہاں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا فضل (جو اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے) اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت بھی فضل کی طرف دیکھ رہی تھی ‘ رسول اللہ ﷺ نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیر دیا۔ الحدیث ‘ رواہ البخاری۔ ترمذی نے حضرت علی ؓ کی روایت سے یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ حضرت عباس ؓ نے کہا آپ ﷺ نے اپنے چچا کے بیٹے کا منہ موڑ دیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں نے ایک جوان مرد کو (جوان عورت کی طرف) اور جوان عورت کو (جوان مرد کی طرف نظر کرتے) دیکھا مجھے دونوں کے متعلق شیطان (کی مداخلت) کا اندیشہ ہوا۔ اس روایت کو ترمذی نے صحیح کہا ہے۔ ابن قطان نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو (عورت کا مرد کی طرف) نظر کرنا جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کو منہ چھپانے کا حکم نہیں دیا اور اگر حضرت عباس ؓ : نظر کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تو سوال نہ کرتے اور جو کچھ حضرت عباس ؓ سمجھتے تھے اگر وہ درست نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس پر حضرت عباس ؓ : کو قائم نہ رکھتے۔ دوسری حدیث حضرت فاطمہ بنت قیس کی روایت سے آئی ہے کہ جب ان کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو حضرت ام ابن مکتوم (نابینا) کے گھر میں ایام عدت بسر کرنے کا حکم دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اجنبی نابینا مرد کو دیکھ سکتی ہے یعنی میلان صنفی کا اندیشہ نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے۔ مسئلہ ناف سے زانو تک عورت کو عورت نہیں دیکھ سکتی اور نہ مرد مرد کو۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مرد مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ عورت ‘ عورت کے ستر کو ‘ مرد ‘ مرد کے ساتھ برہنہ ایک کپڑے میں نہ لیٹے اور نہ عورت ‘ عورت کے ساتھ برہنہ ایک کپڑے میں لیٹے۔ رواہ مسلم۔ ویحفظن فروجہن ولا یبدین زینتہن الا ما ظہر منہا اور اپنی شرمگاہوں کی نگہداشت کریں اور اپنی زینت (کے مواقع) کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس (موقع زینت) میں سے (غالباً ) کھلا رہتا ہے۔ زینت سے مراد ہیں زیور کپڑے ‘ سنگھار یعنی سج دھج اور سنگھار کو بھی ظاہر نہ کریں۔ زینت کے اعضاء کا ظاہر نہ کرنا تو بدرجۂ اولیٰ ضروری ہے۔ مَا ظَہَرَسے مراد ہیں وہ چیزیں جو زیور وغیرہ کو استعمال کرنے کے وقت ظاہر رہتی ہی ہیں جیسے کپڑے انگوٹھی وغیرہ کہ ان کے چھپائے رکھنے میں بڑی دشواری ہے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک زینت سے مراد ہیں اعضاء زینت یا زینت سے مراد ہیں فطری اور بناوٹی محاسن۔ امام ابوحنیفہ (رح) امام مالک (رح) امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک چہرہ اور پہنچے تک دونوں ہاتھ حکم ستر سے مستثنیٰ ہیں۔ ترمذی نے بروایت سعید بن جبیر حضرت ابن عباس ؓ : کا یہی قول نقل کیا ہے کہ ماظَہَرَسے مراد ہے چہرہ اور دونوں کف (یعنی پہنچے سے نیچے نیچے ہتھیلیاں وغیرہ) عطاء کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ دوسری روایت میں چہرہ اور کفین کے ساتھ قدموں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ امام شافعی (رح) : کا مشہور قول یہ ہے کہ صرف چہرہ مستثنیٰ ہے ‘ بہرحال چاروں اماموں کے نزدیک بالاتفاق چہرہ ستر سے مستثنیٰ ہے ‘ امام ابوحنیفہ (رح) ‘ امام مالک (رح) ‘ امام احمد (رح) کے پاس ایک روایت کے بموجب کفین بھی مستثنیٰ ہیں۔ مختلفات ‘ قاضی خان میں آیا ہے کہ کف کا بیرونی اور اندرونی حصہ پہنچے تک مستثنیٰ ہے اور ظاہر الروایت میں آیا ہے کہ ہتھیلیاں ستر نہیں ہیں مگر ہتھیلیوں کا بیرونی حصہ قابل ستر ہے۔ کذا قال ابن ہمام۔ دونوں قدم عورت (قابل ستر) ہیں لیکن ایک روایت میں امام ابوحنیفہ (رح) : کا قول اس کے خلاف آیا ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا اگر عورت صرف کرتہ ‘ اوڑھنی پہن کر نماز پڑھ لے ازار پہنے نہ ہو تو کیا نماز ہوجائے گی ‘ فرمایا کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ کرتہ اتنا (لمبا) ہو کہ قدموں کو اوپر سے ڈھانک لے۔ رواہ ابو داؤد والحاکم۔ شیخ عبدالحق نے اس روایت کو معلل قرار دیا ہے کیونکہ مالک وغیرہ نے اس کو موقوفاً نقل کیا ہے اور اس کو موقوف قرار دینا ہی صحیح ہے۔ ابن جوزی نے کہا اس حدیث کو مرفوع کہنے میں کلام ہے ‘ کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن عبداللہ بھی ہے جو ضعیف ہے یحییٰ نے اس کو ضعیف کہا ہے ‘ ابو حاتم رازی نے کہا اس کی روایت کردہ حدیث ناقابل استدلال ہے۔ بالائے قدم کا عورت ہونا اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے (وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ) اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ جو زینت وہ چھپاتی ہیں وہ معلوم ہوجائے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پازیب ‘ جھانجن وغیرہ چھپی ہوئی زینت ہیں (اور باطنی زینت کو چھپانا لازم ہے) اس لئے پازیب وغیرہ کی جگہ یعنی بالائے قدم بھی قابل ستر ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے زیادہ ظاہر یہ ہے کہ آیت میں جس ستر کا حکم ہے اس کا تعلق صرف نماز سے ہے پردہ سے نہیں ہے کیونکہ آزاد عورت کا سارا بدن واجب الستر ہے سوائے شوہر اور محرم کے عورت کے بدن کا کوئی حصہ دیکھنا کسی مرد کے لئے جائز نہیں۔ ہاں مجبوری ہو تو الگ بات ہے جیسے بیماری کا علاج یا ادائے شہادت وغیرہ۔ حنفی فقہ کی کتابوں میں چہرے کو ستر سے مستثنیٰ کیا گیا ہے اور یہ استثناء صرف نماز کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہدایہ میں ہے کسی مرد کے لئے اجنبی عورت کا کوئی حصہ بدن سوائے چہرہ اور کفین کے دیکھنا جائز نہیں۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے (وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ الاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا) اس آیت میں ما ظہر یعنی چہرے اور کفین کو مستثنیٰ کردیا ہے) اس کے علاوہ چہرہ اور کفین کے چھپائے رکھنے میں سخت دشواری بھی ہے۔ ان کا ضرورت کے وقت کھلا رہنا ضروری ہے۔ مردوں سے لین دین میں ان کا کھلنا لازم ہے۔ اگر نفسانی میلان کے ابھار کا اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں سوائے خاص مجبوری کے چہرے کو دیکھنا بھی جائز نہیں۔ سخت مجبوری ہو تو خیر جیسے گواہ بننے ‘ گواہی دینے اور قاضی کے سامنے جانے کی اجازت کی مجبوری ہو لیکن اگر نفسانی میلان کے ابھار کا یقین نہ ہو بلکہ شبہ ہو کہ عورت کا چہرہ دیکھ کر شاید شہوانی ابھار ہوجائے یا غالب گمان نفسانیت کے ابھار کا ہو تو چہرے کو دیکھنا مباح نہیں۔ میں کہتا ہوں امام ابوحنیفہ (رح) : کا مسلک یہی ہے اور اسی کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ جو ابو داؤد نے مرسلاً بیان کی ہے کہ لڑکی جب بالغہ ہوجائے تو سوائے اس کے چہرے اور پہنچے تک ہاتھ کے اور کچھ دیکھنا درست نہیں۔ میں کہتا ہوں جن مردوں کو عورتوں کی حاجت نہیں ہوتی (بہت بوڑھے ہونے کی وجہ سے عورتوں کی طرف ان کا میلان خاطر باقی نہیں رہتا) ان کے سامنے عورتوں کا اپنی پوشیدہ زینت کو نمودار کرنا باجماع علماء جائز ہے اور قرآنی صراحت سے بھی ثابت ہے کیونکہ اس صورت میں فتنہ کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ پس جب پوشیدہ زینت کا اظہار جائز ہے تو ناکارہ مردوں کے سامنے ظاہری زینت کو لے آنے میں بدرجۂ اولیٰ کوئی ہرج نہیں ‘ ہاں اگر اجنبی عورت کو دیکھ کر نفسانیت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہو خواہ یہ اندیشہ صرف شبہ کی حد کے اندر ہو تب بھی اس کے چہرے پر نظر کرنا ناجائز ہے۔ صاحب ہدایہ کا یہی مطلب ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے اگر اجنبی عورت کے یا امرد لڑکے کے چہرے کو دیکھ کر نفسانیت میں بیداری اور ابھار کا شبہ ہو تب بھی نہ اجنبی عورت کو دیکھنا جائز ہے اور نہ امرد لڑکے کے چہرے کو۔ جن صورتوں میں اجنبی عورت کے چہرے کو دیکھنے کی ممانعت ہے انہیں صورتوں میں عورت کے لئے اپنا چہرہ اجنبی مرد کو دکھانا بھی ناجائز ہے اگر مرد کے اندر اجنبی عورت کا چہرہ دیکھ کر نفسانی ابھار کا شک ہو رہاہو تو عورت اس کو اپنا چہرہ دکھا نہیں سکتی اس سے فتنہ اور بگاڑ کی تخم کاری ہوگی اور چونکہ ہر اجنبی عورت کا چہرہ ہر جوان نامحرم مرد کے لئے نفسانیت میں ابھار پیدا کرنے کا احتمال رکھتا ہے جو مرد اپنے اندر عورتوں کی طرف میلان کی صلاحیت رکھتا ہے (اور پیر فرتوت کی حدود میں داخل نہیں ہوا ہے) اجنبی عورت کا چہرہ دیکھ کر اس کے نفسانی میلان میں بیداری نہ ہونا ناقابل تصور ہے۔ اس لئے ہم کو کہنا پڑے گا کہ آزاد (جوان) عورت کے لئے اجنبی مرد سے چہرے کا پردہ رکھنا بھی لازم ہے۔ بشرطیکہ مرد عورت کا شوہر اور محرم نہ ہو اور عورت کی طرف میلان کی اس میں صلاحیت ہو۔ حسن کا اصل سرچشمہ تو چہرہ ہی ہے چہرے کو دیکھنے سے ہی فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے عورت (سرتاپا) عورت ہے (یعنی قابل ستر ہے) جب باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں رہتا ہے۔ رواہ الترمذی عن ابن مسعود۔ یہ حدیث بتارہی ہے کہ عورت (از سر تا پا) واجب الستر ہے۔ ضرورتیں اس حکم سے باجماع امت مستثنیٰ ہیں۔ عورت کو بازار سے ضروری سودا سلف لانے والا نہ ملے تو یہ بھی ایک طرح کی ضرورت ہے ‘ برقعہ پہن کر وہ نکل سکتی ہے۔ راستہ دیکھنے کے لئے وہ آنکھ کھلی رکھے ‘ سر سے پاؤں تک چھپانے والا کپڑا نہ ملے تو جہاں تک ممکن ہو اور جو کپڑے میسر ہوں وہی کپڑے پہن کر اور بدن کو چھپا کر باہر آسکتی ہے۔ کبھی علاج معالجہ کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی گواہوں کے پاس اور کبھی عدالت میں حاکم کے سامنے جانے کی مجبوری ہوتی ہے ان سب صورتوں میں بقدر ضرورت پردے کا انکشاف درست ہے۔ ہم نے زینت کا مرادی معنی دو طرح سے بیان کیا ہے (1) کپڑے ‘ زیور اور بناؤ سنگھار کی چیزیں۔ بیضاوی کے نزدیک زینت سے یہی مراد ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے بھی زینت سے مراد کپڑے لئے ہیں اور (استدلال میں آیت) خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلّ مَسْجِدٍتلاوت فرمائی تھی (اس آیت میں زینت سے مراد کپڑے ہیں اور مسجد سے مراد نماز۔ مترجم) اس صورت میں زینت یعنی لباس اور زیور کو ظاہر کرنے کی صراحۃً ممانعت ہوگی اور مواضع زینت یعنی اعضاء کو ظاہر کرنے کی حرمت دلالت النص سے بدرجۂ اولیٰ ہوجائے گی اس وقت الاَّ مَا ظَہَرَکا مطلب بالکل صاف ہوگا کہ جو کپڑے بیرونی ہیں اور اوپر کا لباس ہیں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ اور اگر زینت سے مواضع زینت یعنی اعضاء مراد ہوں تو استثناء کا مطلب یہ ہوگا کہ جب ضروری کام کاج کے لئے یا گواہوں کو فراہم کرنے کیلئے یا ادائے شہادت کے لئے مواضع زینت یعنی اعضاء کو کھولنا پڑجائے اور کھولنے کا ارادہ نہ ہو تو ایسی ضرورت کے وقت ان اعضاء کی بےپردگی جائز ہے۔ بہرحال چہرے اور کفین کھولنے کا استثناء صرف نماز ہی میں نہیں ہے (جیسا کہ بیضاوی کا خیال ہے ‘ بلکہ عام حالات سے اس کا تعلق ہے۔ مترجم) ۔ چہرہ کھلا رکھنے کا عدم جواز اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے اللہ نے فرمایا ہے قُلْ لِاَزْوَاجِکَ رَبَّنَا تِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْیِنْیَن عَلَیْہِنَّ مِنْ رَجلَا بِیْہِیِنَّالآیۃ۔ اے پیغمبر ! اپنی بیبیوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں (اس آیت کی تفسیر میں) حضرت ابن عباس ؓ اور ابو عبیدہ نے کہا ‘ مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے سروں اور چہروں کو چادر سے ڈھانک لیا کریں ‘ تاکہ معلوم ہوجائے کہ وہ آزاد عورتیں ہیں۔ صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ رہا قبیلۂ خثعم کی عورت کا واقعہ جس نے اپنے بوڑھے باپ کے عوض خود حج کرنے کا مسئلہ پوچھا تھا اور حضرت فضل بن عباس ؓ اس کی طرف دیکھنے لگے تھے (تو اس سے عام حالات میں چہرہ کھلا رکھنے کے جواز پر استدلال نہیں کیا جاسکتا) یہ تو مسئلہ دریافت کرنے کی ضرورت کی وجہ سے تھا اور مجبوری کے وقت بہرحال چہرے کا پردہ نہیں رہتا۔ اسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فضل کے چہرے کو عورت کی طرف سے پھیر دینا خود بتارہا ہے کہ نامحرم عورت کے چہرہ کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔ مسئلہ اس آیت کا حکم باجماع علماء آزاد عورتوں کے لئے مخصوص ہے ‘ باندیاں خواہ کامل ہوں یا ناقص یعنی مکاتب ہوں ‘ مدبر ہوں ‘ ام ولد ہوں یا خالص باندی ‘ اس کے لئے سر ‘ چہرہ ‘ کلائیاں اور پنڈلیاں کھولنا جائز ہے۔ امام مالک (رح) ‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک۔ باندی کیلئے واجب الستر حصہ ناف سے زانو تک مردوں کی طرح ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک باندی کا پیٹ اور پشت بھی عورت (واجب الستر) ہے۔ اصحاب شافعی کہتے ہیں کہ باندی کا حال بھی آزاد عورتوں کی طرح ہے ‘ صرف سر ‘ کلائیاں اور پنڈلیاں عورت یعنی واجب الستر نہیں ہیں۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت صفیہ کے قصہ میں بیان کیا ہے کہ لوگوں نے حضرت صفیہ کے متعلق یہ رائے قائم کی تھی کہ اگر حضور ﷺ ان کا پردہ کرائیں تو (سمجھ لو وہ بیوی ہیں اور اگر پردہ نہ کرائیں تو سمجھ لو ام ولد ہیں۔ یہ حدیث بتارہی ہے کہ باندی کے پردے کے احکام آزاد عورت کر پردے کے احکام سے جدا ہیں۔ حضرت انس ؓ : کا بیان ہے حضرت عمر ؓ کے سامنے ایک باندی مقنعہ پوش حالت میں نکلی آپ دُرّہ لے کر اس پر جا پہنچے اور فرمایا کمینی آزاد عورتوں کی شکل اختیار کر رہی ہے یہ مقنعہ اتار۔ اس کے علاوہ آیت یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔۔ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْنَ ۔ کا آخری حصہ مفہوم کے لحاظ سے بتارہا ہے کہ باندی کا حکم پردہ اور ہے اور آزاد عورت کا اور۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ باندی کے لئے سر ‘ کلائیاں اور پنڈلیاں کھلی رکھنے کا جواز استثناء (اِلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا) کی وجہ سے ہے۔ پردے کی آیت کا حکم تو باندیوں کو بھی شامل تھا لیکن آقا کی خدمت کے لئے باندی کا باہر نکلنا بہرحال ضروری ہے اور بےچاری کے کام کے کپڑے چھوٹے ہونا بھی لازم ہیں اور چھوٹے کپڑوں سے کلائیاں ‘ پنڈلیاں اور چہرے کا چھپا نہ رہنا بھی قرین عقل ہے اس لئے ضرورت کے تحت باندی کے لئے ان اعضاء کا پردہ ضروری نہیں قرار دیا گیا۔ ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لیں تاکہ ان کے بال گردن اور کان چھپے رہیں۔ وَلْیَضْرِبْنَیعنی اپنی اوڑھنیوں کا کچھ حصہ گریبانوں 1 پر رکھ لیں۔ ضَرَبَ الْیَدَ عَلَی الْحَآءِطِ (دیوار پر ہاتھ رکھا) محاورہ ہے۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ‘ سابق مہاجر عورتوں پر اللہ کی رحمت ہو جب اللہ نے آیت وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّنازل فرمائی تو انہوں نے اپنی چادریں پھاڑ کر ان کے خمار بنالئے۔ ولا یبدین زینتہن اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔ یعنی وہ زینت جس کو ظاہر کرنا ممنوع ہے اس کو ظاہر نہ کریں۔ الا لبعولتہن مگر اپنے شوہروں کے لئے۔ زینت کا مرکزی نقطہ تو شوہر ہی ہیں اپنی بیویوں کے سارے بدن کو دیکھناجائز ہے ‘ یہاں تک کہ شرمگاہوں کو بھی۔ مگر شرمگاہوں کو دیکھنا مکروہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ تم میں سے جو شخص اپنی بیوی سے قربت کرے تو پردہ کرلے۔ دونوں گدھوں کی طرح ننگے نہ ہوں۔ رواہ الشافعی والطبرانی والبیہقی عن ابن مسعود عن عتبہ بن عنبر والنسائی عن عبداللہ بن سرجس والطبرانی ایضاً عن ابی امامۃ۔ ابن ماجہ نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کی شرمگاہ کبھی نہیں دیکھی۔ او ابآۂن یا اپنے باپوں کیلئے۔ اسی طرح دادا ‘ نانا ‘ پردادا ‘ پرنانا غرض سارے اصول کا بالاجماع یہی حکم ہے۔ او ابآء بعولتہن یا اپنے شوہروں کے باپوں کے لئے۔ شوہروں کے سارے اصول کا بھی یہی حکم ہے۔ او ابنآۂن یا اپنے بیٹوں کے لئے۔ پوتوں نواسوں اور تمام فروع کا بدلالت النص اور بالاجماع یہی حکم ہے۔ او ابنآء بعولتہن یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے لئے۔ شوہروں کی ساری نسل کا یہی حکم ہے۔ او اخوانہن یا اپنے بھائیوں کے لئے۔ بھائی حقیقی ہوں یا علاتی یا اخیافی۔ او بنی اخوانہن یا اپنے بھتیجوں کے لئے۔ بھتیجوں کے بیٹوں اور بھتیجیوں کے بیٹوں کا۔ غرض بھائیوں کی ساری فروع کا یہی حکم ہے۔ او بنی اخوتہن یا اپنے بھانجوں کے لئے۔ بہنوں کے پوتے نواسے بھی اسی حکم میں شامل ہیں۔ مذکورۂ بالا سب لو گ عام طور پر اپنی بزرگ یا خورد عورتوں کے گھروں میں ہر وقت آمدورفت رکھتے ہیں اور عموماً کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اصول و فروع سے صنفی تعلقات کو طبعاً لوگ برا سمجھتے ہیں پھر حیا اور شرم بھی دامن گیر ہوتی ہے۔ اس لئے مذکورۂ بالا مردوں کے سامنے مذکورہ عورتوں کا آنا اور اپنی زینت کو ظاہر کرنا اللہ نے جائز قرار دیا اور مردوں کے لئے مباح کردیا کہ خدمت کے وقت جو حصۂ بدن کھلا رہتا ہے یا کھل جاتا ہے اس کو دیکھ سکتے ہیں یعنی سر ‘ پنڈلیاں ‘ بازو اور سینہ۔ پیٹ اور پشت کو دیکھنا روا نہیں ‘ نہ ناف سے زانو تک کوئی حصہ دیکھنا جائز ہے عام طور پر یہ حصے کام کے وقت بھی چھپے رہتے ہیں اور ان کو چھپا رکھنے میں کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ یہ حکم ان مردوں اور عورتوں کے لئے ہے جو باہم محرم ہیں جن کے درمیان سلسلۂ نکاح ہمیشہ کے لئے حرام کردیا گیا ہے ‘ خواہ حرمت نسبی ہو یا دودھ کی شرکت کی وجہ سے۔ آیت میں باپ کے بھائیوں اور ماں کے بھائیوں کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں کیا گیا کیونکہ دلالت النص سے ان کا حکم وہی معلوم ہوجاتا ہے جو بھتیجوں اور بھانجوں کا ہے اسی پر اجماع اہل علم ہے کیونکہ جب پھوپھی اپنی زینت کا اظہار اپنے بھتیجے کے سامنے کرسکتی ہے تو بھتیجی کے لئے بھی اپنے چچا کے سامنے زینت کا اظہار جائز ہوگا دونوں رشتے برابر کے ہیں۔ اسی طرح خالہ بھانجے کے سامنے جب اپنی زینت کا اظہار کرسکتی ہے تو بھانجی ماموں کے سامنے بھی زینت کو ظاہر کرسکتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اعمام و اخوال کو صراحت کے ساتھ ذکر نہ کرنے سے اس طرف اشارہ ہو کہ چچا اور ماموں کے سامنے اظہار زینت نہ کرنا تقاضاء احتیاط ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ان کی زینت کو دیکھ کر اپنے بیٹوں کے سامنے ان عورتوں کی زینت کو بیان کردیں۔ (حضرت مفسر کی توجیہ انتہائی رکیک ہے اصل بات یہ ہے کہ چچا اور ماموں سے رشتہ اتنا قریب اور قوی ہوتا ہے کہ باپ دادا اور نانا کے بعد اصول میں اور کسی سے اتنا قریب رشتہ نہیں ہوتا۔ جب چچا اور ماموں کے اصول کا ذکر کردیا تو خود ان کا ذکر بدرجۂ اولیٰ ہوگیا۔ مترجم) ۔ مسئلہ محرم عورت کے جس حصہ کو دیکھنا جائز ہے اس حصہ کو ہاتھ لگ جانا اور چھو جانا بھی جائز ہے۔ سفر میں کبھی ایسا ہوجاتا ہے اور ضرورت پڑجاتی ہے اور حرمت نکاح دوامی ہے اس لئے فتنہ کا اندیشہ نہیں۔ ہاں اگر اس سے اپنی یا محرم عورت کی نفسانی خواہش کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں نہ محرم کی طرف دیکھنا جائز ہے نہ اس کو چھونا اور ہاتھ لگانا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ دونوں آنکھیں زنا کرتی ہیں اور دونوں آنکھوں کا زنا (بری نیت سے) دیکھنا ہے اور دونوں ہاتھ زنا کرتے ہیں (بری نیت سے) پکڑنا ہے۔ دوسری روایت میں ہے دونوں آنکھیں زنا کرتی ہیں اور دونوں ہاتھ زنا کرتے ہیں اور دونوں پاؤں زنا کرتے ہیں اور شرمگاہ زنا کرتی ہے۔ رواہ احمد والطبرانی عن ابن مسعود۔ مرفوعاً ۔ محرم عورتوں سے زنا کرنے کا جرم بہت ہی سخت ہے اس لئے اگر ان کو دیکھنے یا چھونے سے نفسانیت کے بیدار ہوجانے کا کسی ایک طرف بھی خطرہ ہو تو دیکھنے سے پرہیز رکھے اور چھونے سے بھی۔ او نسآۂن یا اپنی عورتوں کے لئے۔ یعنی ایک عورت دوسری عورت کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرسکتی ہے خواہ وہ عورت مؤمنہ ہو یا غیر مؤمنہ آزاد ہو یا باندی کیونکہ ہر عورت دوسری عورت کی ہم جنس ہے اور نفسانی خواہشات کی بیداری کا عام طور پر خطرہ نہیں ہوتا۔ ہاں ناف سے زانو تک انکشاف ایک عورت دوسری عورت کے سامنے بھی (باستثناء ضرورت خاص) نہیں کرسکتی۔ امام ابوحنیفہ (رح) : کا ایک قول منقول ہے کہ عورت کا عورت کی طرف دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے مرد کا اپنی محرم عورتوں کی طرف دیکھنا۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ نِسَآءَہِنَّسے مراد ہیں مسلمان عورتیں (اپنی عورتیں یعنی اپنی ہم مذہب بہنیں) اس تفسیر پر مسلمان عورت کے لئے کسی غیر مسلم عورت کے سامنے اپنی زینت کا اظہار جائز نہ ہوگا۔ کیونکہ غیر مسلمہ عورت اپنی نہیں ہے غیر ہے۔ غیر مسلمہ عورتوں کو مردوں کے سامنے مسلم عورتوں کے احوال بیان کرنے سے کوئی باک نہیں ہوتا۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورت عورت کے سامنے برہنہ نہ ہو کہ وہ جا کر اس طرح بیان کر دے کہ مرد کے سامنے وہ منظر آجائے۔ بغوی نے لکھا ہے عمر بن عبدالعزیز نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو لکھ کر بھیجا تھا کہ کتابی عورتوں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ حمام میں جانے سے منع کردیں۔ او ما مالکیت ایمانہن یا ان باندیوں کے سامنے جو ان کی مملوک ہیں۔ ابن جریج کا قول ہے کہ نِسَآءِ ہِنَّسے مراد ہیں مسلمان آزاد عورتیں اور مَا مَلَکَتْ اِیْمَانُہُنَّ سے مراد ہیں باندیاں خواہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں غلام مراد نہیں ہیں۔ اس تشریح کے بموجب کسی مسلمان عورت کا کسی مشرک عورت کے سامنے اپنی زینت کا انکشاف جائز نہ ہوگا۔ ہاں اگر باندی ہو خواہ مشرکہ ہی ہو اس سے زینت کا اخفا ضروری نہیں اور جب مَا مَلَکَتْسے اپنی باندیاں مراد ہیں تو اپنے غلام کے سامنے اظہار زینت درست نہ ہوگا۔ نہ غلام کے لئے اپنی مالکہ کے جسم کا کوئی ایسا حصہ دیکھنا جائز ہوگا جس کو اجنبی مرد کے لئے دیکھنا حرام ہے۔ امام ابوحنیفہ اور بعض شوافع کا یہی قول ہے۔ شیخ ابو حامد شافعی نے کہا ہمارے رفقاء (شافعیہ) کا صحیح قول یہی ہے کہ غلام اپنی مالکہ کا محرم نہیں ہے۔ نووی نے لکھا ہے یہی صحیح ہے بلکہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ فیصلہ قطعی ہے ‘ غلام اپنی مالکہ کا محرم ہو اس کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ آیت کی صحیح تفسیر یہی ہے کہ مَا مَلَکَتْسے مراد صرف باندیاں ہیں صاحب ہدایہ نے کہا ہمارے قول کی دلیل یہ ہے کہ غلام بہرحال مرد ہے اور شوہر نہیں ہے اور نہ محرم ہے (اجنبی ہے) اور اشتہائے نفسانی کا خطرہ موجود ہے۔ آزاد ہونے کے بعد اپنی مالکہ سے وہ نکاح کرسکتا ہے اور ایسا پیش خدمت نہیں ہے کہ اس سے زینت کا اخفاء نہ کیا جاسکتا ہو۔ غلام تو باہر کا کام کاج کرتے ہیں اندرون خانہ خدمت تو باندیاں کرتی ہیں۔ پس آیت مذکورہ میں صرف باندیاں ہی مراد ہیں۔ سعید بن مسیب اور حسن وغیرہ نے کہا تھا تم کو سورة نور کی آیت کا غلط مطلب نہ لینا چاہئے ‘ وہ تو صرف عورتوں کے متعلق ہے۔ مردوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ تفسیر اسی وقت صحیح ہوگی جب نِسَآءِ ہِنَّسے مراد آزاد مسلمان عورتیں ہوں۔ عام مسلمان عورتیں مراد نہ ہوں۔ ورنہ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ سے بےفائدہ تکرار لازم آئے گی۔ حاصل یہ کہ مسلمان عورت کے لئے کافر آزاد عورت کے سامنے اپنی زینت کا اظہار امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جائز نہیں۔ امام مالک نے فرمایا : مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ کا لفظ اپنی باندیوں کو بھی شامل ہے اور اپنے غلاموں کو بھی۔ اپنا غلام بھی مثل دوسرے محارم کے ہوتا ہے جو زینت دوسرے محرم کے سامنے ظاہر کی جاسکتی ہے وہ اپنے غلام کے سامنے بھی ظاہر کی جاسکتی ہے اور عورت کا جو حصۂ زینت محرم دیکھ سکتا ہے وہ اس عورت کا غلام بھی دیکھ سکتا ہے۔ امام شافعی (رح) نے بھی اسی کی صراحت کی ہے اور جمہور شافعیہ کے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح بھی ہے (ابو حامد شافعی اور نووی شافعی کی رائے اس کے خلاف اوپر گزر چکی) گھر کے غلام بغیر اجازت طلب کرنے کے اندر آتے جاتے رہتے ہی ہیں اور بغیر اجازت اندر آنے کی عام ضرورت بھی رہتی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت عائشہ ؓ : اور حضرت ام سلمہ ؓ سے بھی ایسی ہی روایات منقول ہیں۔ حضرت انس ؓ کی روایت کردہ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک غلام سیدہ فاطمہ کو عطا فرمایا اور غلام کو ساتھ لے کر حضرت فاطمہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے اس وقت حضرت سیدہ کے پاس صرف اتنا کپڑا تھا کہ اگر سر چھپاتی تھیں تو پاؤں کھلے رہتے تھے اور ٹانگیں چھپاتی تھیں تو سر تک کپڑا نہیں پہنچتا تھا ‘ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات ملاحظہ فرمائی تو ارشاد فرمایا کوئی حرج نہیں (کوئی غیر نہیں ہے) صرف تمہارا باپ اور تمہارا غلام ہے۔ رواہ ابو داؤد۔ اس حدیث کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے وہ غلام چھوٹی عمر کا ہو۔ حدیث میں جو لفظ غلام آیا ہے وہ اس کی تائید کرتا ہے۔ (غلام کا معنی ہے لڑکا) ۔ حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے مکاتب غلام کی رقم (کتابت) پوری ادا ہوجائے تو اس کو مکاتب سے پردہ کرلینا چاہئے۔ رواہ الترمذی و ابو داؤد و ابن ماجۃ۔ اس حدیث سے (غلام سے کامل پردہ نہ کرنے پر) استدلال مفہوم مخالف کے اعتبار سے کیا جاسکتا ہے (حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر بدل کتابت پورا ادا نہ ہو اور غلام آزادی حاصل نہ کرسکا ہو تو اس سے پردہ نہ کرنا چاہئے) ۔ او التبعین غیر اولی الاربۃ من الرجال یا ان مردوں پر جو طفیلی کے طور پر رہتے ہوں اور ان کو ذرا توجہ نہ ہو۔ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ یعنی جن کو عورتوں کی طرف رغبت نہ رہی ہو۔ مراد ہیں پیر فرتوت۔ بہت بوڑھے ‘ از کار رفتہ۔ ان کو تابعین اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ خود کوئی کمائی نہیں کرسکتے ‘ گھر والوں کے تابع ہوتے ہیں تاکہ بچا کھچا کھانا ان کو مل جائے۔ حسن نے کہا غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ وہ لوگ ہیں جن کو انتشار نہ ہوسکتا ہو ‘ عورتوں سے قربت نہ کرسکیں اور نہ عورتوں کی رغبت ان میں باقی رہی ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا نامرد مراد ہیں۔ سعید بن جبیر نے کہا ناقص العقل خبطی مراد ہیں عکرمہ نے کہا ذکر بریدہ مراد ہیں بعض نے کہا مخنث مراد ہیں۔ مقاتل نے کہا پیر فرتوت اذکار رفتہ اور نامرد اور خصی اور ذکربریدہ سب مراد ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ خصی اور ذکربریدہ نامحرم عورت کے معاملہ میں نر کا حکم رکھتے ہیں۔ ہدایہ میں ہے خصی نر قابل جماع ہوتا ہے اور ذکر بریدہ کی بھی یہی حالت ہوتی ہے ‘ مَس کرسکتا ہے ‘ رگڑسکتا ہے اس کو انزال ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ زنانہ جو بدفعلیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے زنانہ بن گیا ہو وہ بھی بدچلن نر ہوتا ہے یہ سب لوگ آیت (قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمِْ ) کے حکم میں داخل ہیں ‘ آیت کا حکم ذکر بریدہ خصی اور مخنث کو بھی شامل ہے اور یہ شمول قطعی ہے اور آیت (التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ ) میں ان ذکر بریدہ خصی وغیرہ کا شامل ہونا قطعی نہیں ہے اس لئے اوّل آیت میں جو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ان پر لاگو ہوگا۔ صاحب کفایہ نے لکھا ہے کہ ہدایہ میں جو مخنث کے ساتھ بالروی من الافعال کی شرط لگائی گئی ہے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ مخنث مراد ہیں جو مفعولیت میں مبتلا ہوں وہ مخنث مراد نہیں ہیں جن کے اعضاء میں نرمی اور زبان میں لوچ اور لچک ہو خلقی مخثوں کی مشابہت ان میں پائی جاتی ہو ‘ عورتوں کی طرف نفسانی میلان نہ رکھتے ہوں اور فاسقانہ مفعولیت میں مبتلا نہ ہوں۔ ہمارے بعض مشائخ نے ایسے لوگوں کو عورتوں کے پاس آنے جانے کی اجازت دی ہے۔ یہ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَال میں داخل ہیں۔ میں کہتا ہوں اصلی فطری خنثیٰ جس کے پاس آلۂ مردانگی بھی ہوتا ہے اور شرمگاہ نسوانی بھی۔ اگر اس میں نسوانی علامات نمایاں ہوں۔ مثلاً عورتوں کی طرح پستان ہوں یا عورتوں کی مثل پستانوں میں دودھ اتر آئے ‘ یا حیض آتا ہو یا حمل ہو ‘ یا شرمگاہ نسوائی سے اس سے جماع کیا جاسکتا ہو تو ایسا خنثیٰ عورت کے حکم میں ہے۔ ورنہ مرد کا حکم اس پر لاگو ہوگا ‘ عورتوں کے لئے اس کے سامنے اظہار زینت جائز نہ ہوگا۔ اور اگر خنثیٰ مشکل ہے تو محتاط طریقہ اختیار کیا جائے گا نہ وہ مردوں کے سامنے اپنا کشف کرسکے گا نہ عورتیں اس کے سامنے اپنی زینت کو نمایاں کرسکیں گی۔ واللہ اعلم۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس موجود تھے اور گھر میں ایک مخنث بھی موجود تھا۔ مخنث نے حضرت ام سلمہ کے بھائی حضرت عبداللہ ؓ بن امیہ سے کہا عبداللہ ! اگر کل کو اللہ تم کو طائف کی فتح عنایت فرما دے تو میں تم کو غیلان کی بیٹی کا پتہ بتاؤں گا ‘ وہ چار کے ساتھ سامنے آتی ہے اور آٹھ کے ساتھ پیٹھ موڑ کر جاتی ہے (یعنی اس کے حسن کا یہ عالم ہے کہ جب وہ سامنے سے آتی ہے تو پیٹ پر چارشکنیں پڑتی دکھائی دیتی ہیں اور پشت پھیر کر واپس جاتی ہے تو آٹھ شکنیں نمودار ہوتی ہیں ‘ چار دائیں پہلو کی طرف اور چار بائیں پہلو کی طرف) ۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہ لوگ تمہارے پاس اندر نہ آئیں۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عورتوں کے پاس مخنثوں کا آنا جائز نہیں لیکن یہ استدلال کمزور ہے۔ کیونکہ جب تک اس مخنث نے بنت غیلان کے (حسن کے) احوال بیان نہیں کئے تھے حضور ﷺ نے اس کو گھر کے اندر برقرار رکھا تھا اور گھر میں داخل ہونے کی ممانعت نہیں فرمائی تھی پھر جب اس نے بنت غیلان کی کیفیت بیان کی تو آپ نے ممانعت فرما دی گویا بناء حکم بنت غیلان کی حالت کا بیان (اور مرد کو اس کی طرف راغب بنانا) تھا تو یہ علت وہی ہے جس کی موجودگی میں عورت کا عورت کے پاس داخلہ بھی ممنوع ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث میں اوپر آچکا ہے۔ اوالطفل الذین لم یظہروا علی عورت النسآء ایسے لڑکوں کے لئے جو عورتوں کے پردہ کی باتوں سے ناواقف ہیں۔ الطفل اسم جنس ہے جمع پر اس کا اطلاق کیا گیا ‘ کیونکہ اس کی صفت بصیغۂ جمع ذکر کی گئی ہے۔ لَمْ یَظْہَرُوْا۔۔ یعنی بالغ نہ ہوئے ہوں۔ یا جماع کی قدرت نہ رکھتے ہوں ظَہَرَ عَلٰی زَیْدٍکا معنی یہ بھی آتا ہے کہ وہ زید پر قابو پا گیا قادر ہوگیا۔ یا یہ مراد ہے کہ عورتوں کے پردے کے مقامات کو انہوں نے کھولا نہ ہو یا پردہ کی باتوں کی ان کو ابھی واقفیت نہ ہوئی ہو۔ بہرحال مراد یہ ہے کہ حد شہوت کو نہ پہنچے ہوں اور ان میں ابھی صلاحیت نہ پیدا ہوئی ہو۔ مجاہد نے کہا اتنے چھوٹے بچے مراد ہیں جن کو عورتوں کی چھپی اور کھلی باتوں میں کوئی تمیز ہی نہ ہو وہ جانتے ہی نہ ہوں پردہ کی چیز کیا ہوتی ہے۔ اوّل معنیٰ مراد لینا زیادہ صحیح ہے کیونکہ جو بچے شعور وتمیز کو پہنچ گئے ہوں حد شہوت کو نہ پہنچے ہوں ان کے سامنے عورتیں باقی حصۂ بدن کھول سکتی ہیں صرف ناف سے زانو تک نہیں کھول سکتیں۔ آیت لِیَسْتَاْذِنُکُمُ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلٰثَ مَرَّاتٍاس پر دلالت کر رہی ہے اور اگر بچہ اتنا چھوٹا ہے کہ کچھ شناخت اور تمیز نہیں رکھتا تو وہ چوپایوں درختوں اور پتھروں کی طرح ہے اس کے سامنے ہر طرح کی پردہ کشائی جائز ہے یہاں تک کہ عورت مغلظہ کی برہنگی بھی درست ہے اور اگر لڑکا مراہق ہے (حد بلوغ کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے) تو وہ مردوں کے حکم میں ہے۔ ابن جریر نے حضرمی کی روایت سے بیان کیا کہ ایک عورت نے چاندی کی دو پازیبیں بنوائیں اور ان میں گھنگھرو لگائے ‘ پھر لوگوں کے سامنے سے گزری اور پاؤں زمین پر پٹکے اور اس طرح گھنگرو پازیب سے ٹکرا کر بولے ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ ولا یضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن اور اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں کہ ان کا چھپا ہوا زیور (لوگوں کو) معلوم ہوجائے۔ بغوی نے لکھا ہے عورت جب چلتی تھی تو پاؤں زمین پر مارتی تھی تاکہ اس کی پازیب کی آواز لوگ سن لیں۔ اس کی ممانعت کردی گئی ‘ کیونکہ یہ حرکت مردوں کے دلوں میں اس عورت کی طرف میلان پیدا کرتی تھی۔ بیضاوی نے لکھا ہے زیور کو ظاہر کرنے کی ممانعت سے زیادہ زور اس بات میں ہے کہ زیور کی آواز پیدا ہونے سے ہی روک دی جائے۔ اسی لئے بیضاوی نے النوازل میں صراحت کی ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔ اس پر یہ مسئلہ مبنی ہے کہ عورت کا عورت سے قرآن سیکھنا افضل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا کہ سبحان اللہ کہنا مردوں کے لئے ہے اور تالی بجانا عورتوں کے لئے۔ متفق علیہ۔ ابن ہمام نے لکھا ہے اسی وجہ سے اگر کہا جائے کہ عورت نماز میں اگر جہری قرأت کرے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ تو اس کی بنیاد معقول ہے امام کو نماز میں اگر سہو ہوجائے تو اس کو متنبہ کرنے کے لئے بجائے اس کے کہ عورت آواز سے سبحان اللہ کہے رسول اللہ ﷺ نے اس کو تالی بجا دینے کا حکم دیا۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا قدم بھی عورت ہے۔ وتوبوا الی اللہ جمیعا ایہ المؤمنون اور اے مسلمانو ! تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے اوامرو نواہی کی تعمیل میں کوتاہی ہر شخص سے ہوتی ہے اس لئے سب کو توبہ کرنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام بنی آدم خطاوار ہیں اور خطاواروں میں سب سے اچھے توبہ کرنے والے ہیں۔ رواہ الترمذی وابن ماجۃ والدارمی۔ بعض اہل تفسیر نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ سورة نور میں اللہ نے جن اخلاق و آداب کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کی تم کو ہدایت کی ہے اس کی تعمیل کی طرف رجوع کرو۔ بعض نے کہا جاہلیت کے زمانہ میں تم جو کچھ کرتے تھے اس سے توبہ کرو ‘ اسلام کی وجہ سے اگرچہ پچھلے دور کفر کے اعمال قابل مواخذہ نہیں رہے لیکن جب بھی ان بد اعمالیوں کی یاد آجائے ان پر ندامت تو بہرحال واجب ہی ہے اور ان کو دوبارہ اختیار نہ کرنے کا پکا ارادہ لازم ہی ہے۔ لعلکم تفلحون۔ تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ فلاح دارین توبہ ہی سے وابستہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اس شخص کے لئے خوشی ہے جو اپنے اعمالنامے میں بکثرت استغفار پائے گا۔ حضرت ابن عمر ؓ : کا بیان ہے میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے لوگو ! اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔ میں ہر روز سو بار اپنے رب کے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم میں دن میں ستّر بار سے زیادہ اپنے رب سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں۔ رواہ البخاری۔ اعرابی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ میرے دل پر کثافت آجاتی ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابن عمر ؓ : کا بیان ہے ہم گنتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مجلس میں سو بار فرماتے تھے رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ ۔ رواہ الترمذی وابن ماجۃ وابو داؤد۔
Top