Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 44
یُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
يُقَلِّبُ اللّٰهُ : بدلتا ہے اللہ الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَعِبْرَةً : عبرت ہے لِّاُولِي الْاَبْصَارِ : آنکھوں والے (عقلمند)
اور خدا ہی رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے۔ اہل بصارت کے لئے اس میں بڑی عبرت ہے
یقلب اللہ الیل والنہار اللہ رات اور دن کو الٹ پلٹ کرتا ہے ‘ یعنی دن کے بعد رات آتی ہے اور رات کے بعد دن اور دن رات کا گھٹاؤ بڑھاؤ بھی ہوتا رہتا ہے ‘ یا یہ مطلب ہے کہ گرمی ‘ سردی ‘ روشنی اور تاریکی کے لحاظ سے رات دن میں تغیر ہوتا رہتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ اللہ نے فرمایا مجھے ابن آدم دکھ پہنچاتا ہے زمانے کو گالیاں دیتا ہے ‘ حالانکہ میں ہی زمانہ (کو الٹنے پلٹنے والا) ہوں میرے ہی ہاتھ میں حکم ہے ‘ میں ہی رات دن کا ادل بدل کرتا ہوں ‘ (رواہ البخاری ومسلم فی صحیحہا) ۔ ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الابصار۔ بلاشبہ ان (مذکورہ واقعات) میں بصیرت والوں کیلئے عبرت ہے۔ عبرت سے مراد یہ ہے کہ یہ واقعات ایک خالق قدیم کی ہستی پر دلالت کرتے ہیں جس کی قدرت ہمہ گیر ‘ علم محیط کل اور مشیت نافذ ہے وہ کسی کا محتاج نہیں (بلکہ دنیا کا ہر واقعہ اسی کا مرہون منت قدرت و مشیت ہے) ۔ الْاَبْصَارِسے مراد ہے بصیرت اور صحیح فہم۔
Top