Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 46
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیق ہم نے نازل کیں اٰيٰتٍ : آیتیں مُّبَيِّنٰتٍ : واضح وَاللّٰهُ : اور اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
ہم ہی نے روشن آیتیں نازل کیں ہیں اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھے رستے کی طرف ہدایات کرتا ہے
لقد انزلنا ایت مبینت بیشک ہم (حق کو) واضح کردینے والی آیات (قرآن میں) اتار چکے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس عالم وجود میں جو وجود حقیقی کے سایہ اور پر تو کی طرح ہے ایسی دلائل کھول کر ہم نے ظاہر کردی ہیں جو خالق علیم و حکیم کی ہستی کی شہادت دے رہی ہیں اور حق کو واضح کر رہی ہیں۔ واللہ یہدی من یشآء الی صراط مستقیم۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستہ پر چلاتا ہے یعنی اسلام کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور یہی راستہ اس کو دوزخ سے بچا کر جنت اور مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ایمان ایک خداداد وہبی چیز ہے بغیر اللہ کی توفیق اور ہدایت کے محض غور و فکر کرنے اور عقلی گھوڑے دوڑانے سے حاصل نہیں ہوتی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے درمیان کسی زمین کے متعلق جھگڑا تھا ‘ یہودی چاہتا تھا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ سے کرائے (کیونکہ اس کو یقین تھا کہ محمد ظلم اور حق تلفی نہیں کریں گے) منافق نے کہا اس کا تصفیہ کعب بن اشرف یہودی سے کراؤ محمد ہماری حق تلفی کریں گے ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top