Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 5
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا
: مگر
الَّذِيْنَ تَابُوْا
: جن لوگوں نے توبہ کرلی
مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ
: اس کے بعد
وَاَصْلَحُوْا
: اور انہوں نے اصلاح کرلی
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
ہاں جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور (اپنی حالت) سنوار لیں تو خدا (بھی) بخشنے والا مہربان ہے
الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا فان اللہ غفور رحیم۔ مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنے اعمال و احوال کو) درست کرلیں تو اللہ غفور (و) رحیم ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا الاَّ الَّذِیْنَکا استثناء گزشتہ آخری جملہ کی طرف راجع ہے۔ (یعنی جو لوگ توبہ کرلیں گے اور اپنے احوال کو درست کرلیں گے وہ فاسق نہیں رہیں گے مطلب یہ ہے کہ توبہ سے قذف کی سزا معاف نہیں ہوگی صرف فاسق ہونے کا حکم جاتا رہے گا) اصول فقہ میں امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے کہ جب استثناء چند جملوں کے بعد آئے تو اس کا رجوع آخری جملہ کی طرف ہوتا ہے ہاں اگر کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو آخری جملہ کی طرف راجع کرنے سے مانع ہو تو مجبوراً کل کی طرف استثناء کو راجع کیا جائے گا۔ امام صاحب کی تفسیر مذکور کے چند دلائل ہیں (1) استثناء کے ساتھ آخری جملہ ہی متصل ہے۔ (2) آخری جملہ اپنے حکم کے لحاظ سے سابق جملوں سے کٹا ہوا ہے اس کی رفتاری ترتیب ہی جدا ہے گو ضمیر اور اسم اشارہ کے لحاظ سے اس کا اتصال گزشتہ تمام جملوں کے ساتھ ہے۔ (3) استثناء کی شرط یہ ہے کہ مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ متصل ہو اور اس جگہ آخری جملہ سابقہ گزشتہ جملوں کے اور مستثنیٰ کے درمیان حائل ہے۔ (4) استثناء کا رجوع سابق کلام کی طرف اس مجبوری کے ساتھ ہوتا ہے کہ تنہا استثناء کا کوئی مستقل معنی نہیں ہوتا اور یہ ضرورت صرف ایک جملہ سے مربوط کرنے سے پوری ہوجاتی ہے اور جملۂ اخیرہ کی طرف رجوع تو بہرحال سب علماء کے نزدیک مسلم ہے اس لئے دوسرے جملوں سے وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ کلام استثناء پر موقوف ہوتا ہے کیونکہ اس کے حکم کو بدلنا تو ضروری ہوتا ہے ‘ استثناء سے وہ حکم بدل جاتا ہے اب یہ تغییر حکم کی ضرورت آخری جملہ کی طرف راجع کرنے سے پوری ہوجاتی ہے۔ ایک شبہ واؤ عطف کے لئے اور سابق کلام کو لاحق کلام کے ساتھ شریک کرنے کے لئے آتا ہے اور سابق میں معطوف معطوف علیہ کی شکل میں چند جملے مذکور ہیں۔ لہٰذا تمام جملوں کا استثناء میں اشتراک ہونا چاہئے۔ ازالہعطف کا یہ مطلب نہیں کہ پورے جملہ کا حکم میں اشتراک ہو حرف عطف تو شرکت اعرابی کو ظاہر کرتا ہے (ہر جملے کا حکم جدا جدا ہوتا ہے) استثناء سے کلام سابق کا حکم بدل جاتا ہے۔ پس ہر جملے کی شرکت استثناء میں نہیں ہوگی۔ (5) توبہ سے فسق ختم ہوجاتا ہے ‘ حدود ساقط نہیں ہوتیں۔ امام شافعی وغیرہ کے نزدیک اگر کوئی قرینہ مانع نہ ہو تو سابق میں جتنے جملے معطوف معطوف علیہ کی شکل میں ذکر کئے گئے ہوں سب کی طرف استثناء کا رجوع ہوتا ہے۔ اسی لئے امام شافعی کا قول ہے کہ توبہ سے حد قذف ساقط ہوجاتی ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک توبہ سے حد ساقط نہیں ہوتی۔ امام شافعی (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک اس جگہ استثناء کا رجوع آخر کے دو جملوں کی طرف ہے اوّل جملہ کی طرف نہیں ہے۔ جملہ لاَ تَقْبَلُوْاچونکہ سابق سے بالکل منقطع ہے اور عدم قبول شہادت حد قذف میں داخل نہیں ہے۔ اس لئے استثناء کا رجوع پہلے جملے کی طرف نہیں ہوگا اس سے روکنے والا قرینہ موجود ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ استثناء کا رجوع گزشتہ تینوں جملوں کی طرف ہے اور اس سے لازم نہیں آتا کہ توبہ کے بعد حد ساقط ہوجائے۔ کیونکہ توبہ کامل اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک حد شرعی کے اجرا کو قبول نہ کرلے یا جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی طلب کرلے اور وہ معاف کر دے۔ میں کہتا ہوں توبہ کا معنی صرف یہ ہے کہ اپنے کئے پر ندامت ہو اور اللہ سے معافی طلب کرلے۔ پس اگر توبہ سے حد کا ساقط ہوجانا فرض کرلیا جائے تو پھر حد شرعی کو قبول کرنا واجب نہیں قرار پاتا ‘ اسی بنیاد پر امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ تہمت لگانے والے کی شہادت صرف تہمت زنا لگانے سے ہی واجب الرد ہوجاتی ہے ‘ خواہ تہمت زدہ شخص حد قذف کا مطالبہ کرے یا نہ کرے کیونکہ قاذف فاسق ہوجاتا ہے۔ اب توبہ کرنے اور پشیمان ہونے اور اپنی حالت کو درست کرلینے کے بعد اس کی شہادت قابل قبول ہوجاتی ہے۔ خواہ اجراء حد کے بعد پشیمان ہوجائے اور توبہ کرلے یا اجراء سزا سے پہلے بہرحال فسق کا دھبہ توبہ کے بعد زائل ہوجاتا ہے اور آئندہ مردود الشہادۃ نہیں رہتا۔ بغوی نے لکھا ہے یہ تشریح حضت عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے سعید بن مسیب سلیمان بن یسار ‘ شعبی ‘ عکرمہ ‘ زہری اور عمر بن عبدالعزیز (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا حد لگائے جانے کے بعد تو قاذف کی حالت اجراء حد سے پہلے کے مقابلہ میں بہتر ہوجاتی ہے کیونکہ حدود گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں۔ (ان سے گناہوں کا اتار ہوجاتا ہے) تو پھر کیا وجہ کہ اچھی حالت ہونے کے بعد تو اس کی شہادت رد کردی جائے اور بری حالت میں جبکہ اس پر ابھی حد جاری نہ کی گئی ہو اس کی شہادت قابل قبول ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک جو قاذف کی شہادت محض قذف سے ہی (اجرائے حد سے پہلے ہی) واجب الرد ہوجاتی ہے خواہ تہمت زدہ شخص معصوم مطالبہ کرے یا نہ کرے کیونکہ تہمت زنا لگاتے ہی وہ فاسق ہوجاتا ہے اب اگر تہمت زدہ شخص اجرائے حد کا مطالبہ نہیں کرتا تو حد جاری نہیں کی جائے گی لیکن جب تک توبہ نہ کرے گا شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔ حضرت عمر ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ آیت الاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا توبہ کرنا ہی اپنے قول (تہمت زنا) کو جھٹلانا ہے (یعنی جب انہوں نے توبہ کی اور اپنے کئے ہوئے پر پشیمان ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے آپ کو جھوٹا مان لیا اور تسلیم کرلیا کہ ہم نے جھوٹ کہا) اب اگر انہوں نے خود اپنی تکذیب کردی (یعنی توبہ کرلی تو مردود الشہادۃ آئندہ نہ رہے یہ حدیث اگر پایۂ صحت کو پہنچ جائے تو امام شافعی (رح) کے مسلک کا ثبوت اس سے ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں احادیث احاد اگر صراحت قرآن کے خلاف ہوں تو ان کو نہیں مانا جاسکتا۔ قرآن میں تو لاَ تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاصراحت کے ساتھ آگیا ہے اب اگر توبہ کرلے گا تو قبول شہادت کے قابل ہوجائے گا۔ فسق کا دھبہ چھوٹ جائے گا اور اگر تہمت زدہ کے مطالبہ کی وجہ سے حد جاری ہوگئی اور اسّی کوڑے لگ گئے تو اس کی شہادت اب کبھی قبول نہیں کی جائے گی خواہ اس نے توبہ کرلی ہو یا نہ کی ہو ‘ کیونکہ رد شہادت کا حکم حق عبد کی وجہ سے ہے اور بندے کا حق توبہ سے ساقط نہیں ہوتا۔ فائدہعلماء کا اتفاق ہے کہ حد قذف سے اللہ کے حق کا بھی تعلق ہے اور بندے کے حق کا بھی تہمت زدہ شخص کی رسوائی اور آبرو ریزی کے عار کو دور کرنے کے لئے حد قذف کا قانون جاری کیا گیا ہے۔ اس سے تہمت زدہ شخص کو خصوصی فائدہ پہنچتا ہے اسی لئے علماء اس کو حق عبد قرار دیتے ہیں ‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حد قذف جرائم سے روکنے والی ہے اسلئے اس کو حد کہا جاتا ہے اس قانون کو جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی دنیا تباہی فساد اور فتنہ سے محفوظ رہے اس لئے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے ‘ چونکہ یہ بندے کا حق ہے اس لئے اس کو جاری کرنے کے لئے مدعی کی طرف سے مطالبہ شرط ہے اور قدیم ہونے کی وجہ سے شہادت باطل نہیں ہوجاتی اور مستامن کافر پر بھی اس کا اجراء ہوتا ہے اور قاضی کو اگر اس کا علم مدت حکومت کے زمانے میں ہو تو وہ یہ سزا جاری کر دے گا ‘ لیکن اگر زمانۂ حکومت سے پہلے علم تھا تو جب تک حکومت کے زمانہ میں شہادت اس کے سامنے نہ آئے وہ سابق شہادت پر حد جاری نہیں کرے گا اور اگر ایک شخص حد زنا اور حد قذف دونوں کا مستحق ہو یا حد سرقہ اور حد قذف دونوں کا مجرم قرار پائے تو حد قذف پہلے جاری کی جائے گی (کیونکہ حد زنا اور حد سرقہ دونوں خالص حق اللہ ہیں اور بندے کا حق اللہ کے حق پر مقدم ہوتا ہے) اور اقرار کے بعد اس سے لوٹ جانا درست نہیں (زنا کے اقرار سے لوٹ جانا تو صحیح ہے لیکن شہادت زنا دینے کے بعد لوٹ جانا جائز نہیں) اور چونکہ حد قذف سے اللہ کا حق متعلق ہے اس لئے تہمت زدہ شخص (یعنی مدعی) خود قاذف کو سزا نہیں دے سکتا۔ سزا جاری کرنے کا اختیار صرف حاکم کو ہے اور شبہات پیدا ہونے کی صورت میں حد قذف ساقط ہوجاتی ہے (کیونکہ حق اللہ ہے) اور حد ساقط ہوجانے کے بعد (دیت کی طرح) مالی معاوضہ میں تبدیل نہیں ہوجاتی اور نہ قاذف سے قسم لی جاسکتی ہے (اگر بندہ کا خالص حق ہوتا تو شہادت نہ ہونے کی صورت میں قاذف سے حلف لیا جاتا) اور غلام قاذف ہو تو سزا آدھی ہوجاتی ہے۔ حقوق اللہ کی حیثیت سے جو سزائیں واجب ہیں ان سب میں غلام کے لئے تنصیف ہوجاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ حد قذف بھی اللہ کا حق ہے۔ البتہ حق عبد کے سلسلہ کی جو سزائیں ہیں ان کی مقدار کی کمی بیشی تلف حق کی کمی بیشی کے موافق ہوتی ہے۔ حق تلف کرنے والا کوئی ہو غلام ہو یا آزاد اس سے سزا کی کمی بیشی کا تعلق نہیں ہوتا۔ مذکورۂ بالا تمام فروعی مسائل پر ائمہ کا اتفاق ہے اور حد قذف میں اللہ اور بندے کے حق کا مشترک ہونا اجماعی فیصلہ ہے لیکن اس میں غالب کس کا حق ہے اللہ کا یا بندہ کا ‘ اس میں ضرور اختلاف ہے ‘ امام شافعی (رح) کے نزدیک بندے کا حق غالب ہے ‘ بندہ محتاج ہے اور اللہ بےنیاز۔ امام ابوحنیفہ کا قول اس کے برعکس ہے کیونکہ بندے کے حق کا ذمہ دار تو اللہ ہے ‘ اللہ کے حق میں بندے کا حق بھی ملحوظ رہتا ہے اور اللہ کا حق بندہ وصول نہیں کرسکتا ‘ ہاں اللہ کا نائب ہونے کی حیثیت سے وصول کرتا ہے اس اختلاف پر بہت سے مختلف مسائل متفرع ہوتے ہیں۔ جن کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے : 1) حد قذف کے مطالبہ کا حق تہمت زدہ کے وارثوں کو بھی منتقل ہوسکتا ہے امام شافعی (رح) : کا یہی قول ہے ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حد قذف کے مطالبہ کا حق وارثوں کو نہیں ہوتا اللہ کے حقوق میں میراث جاری نہیں ہوتی۔ بندوں کے حقوق کا انتقال وارثوں کی جانب ہوسکتا ہے خواہ وہ حقوق مالی ہوں یا مال سے تعلق رکھنے والے ہوں جیسے ضمانت و کفالت یا مال میں تبدیل ہوجاتے ہوں جیسے قصاص اور حد قذف ان تینوں شقوں میں سے کسی میں شامل نہیں ہے اس لئے تہمت زدہ شخص کے وارثوں کو یہ حق منتقل نہیں ہوسکتا ‘ بلکہ مقذوف کے مرنے کے بعد حد قذف باطل ہوجاتی ہے۔ خواہ اقامتِ حد سے پہلے مقذوف مرجائے تو جتنی حد باقی رہ ہوگئی وہ باطل ہوجائے گی۔ شافعی (رح) : کا قول اس کے خلاف ہے۔ 2) ثبوت حد کے بعد اگر مقذوف معاف کر دے تو حد ساقط نہیں ہوجاتی۔ امام ابوحنیفہ (رح) : کا یہی مسلک ہے۔ امام شافعی اور ایک روایت کے بموجب امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک ساقط ہوجاتی ہے ہاں اگر مقذوف کہے کہ اس نے مجھے تہمت زنا نہیں لگائی اور گواہ جھوٹے ہیں تو بالاتفاق حد ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ (مدعی کے انکار و تردید کی صورت میں) تہمت زنا کا تحقق ہی نہیں پھر سزا کا وجوب کیسے ہوگا یہ بات نہیں ہے کہ سزا کا وجوب ہوگیا تھا پھر ساقط کردی گئی۔ ہاں قصاص ‘ وجوب (یعنی ثبوت قتل) کے بعد بھی ورثاء مقتول کے معاف کردینے سے معاف ہوجاتا ہے کیونکہ قصاص میں حق عبد غالب ہے۔ 3) امام ابوحنیفہ اور امام مالک (رح) کے نزدیک مال یا کوئی اور چیز حد قذف کا عوض نہیں قرار دی جاسکتی (کیونکہ حد قذف میں اللہ کا حق غالب ہے) امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک حد قذف کا معاوضہ ہوسکتا ہے۔ 4) امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک حد قذف میں تداخل ہوسکتا ہے (یعنی متعدد جرائم کی سزا میں ایک ہی مرتبہ حد جاری کی جائے گی) یہاں تک کہ اگر ایک ہی شخص پر چند مرتبہ تہمت زنا لگائی یا چندآدمیوں پر لگائی (اور ثبوت شرعی نہ ہوگا) تو سب کی پاداش میں ایک ہی حد قذف جاری کی جائے گی۔ بشرطیکہ ایک قذف کے بعد سزا نہ دی جا چکی ہو (یعنی اگر تہمت زنا میں حد قذف جاری کردی گئی اور سزا پانے کے بعد اس شخص نے پھر دوبارہ کسی اور پر یا پہلے ہی شخص پر تہمت زنا لگائی تو دوبارہ حد جاری کی جائے گی پہلی سزا بعد والے جرم کے لئے کافی نہ ہو) اور اگر ایک مقذوف نے مطالبہ کیا اور حد جاری کردی گئی اور ابھی کوڑے اسّی لگنے نہ پائے تھے کہ دوسرے شخص نے (جس پر اسی شخص نے تہمت لگائی تھی) بھی اپنے حق کا مطالبہ کیا تو (دوسری حد جاری نہ ہوگی بلکہ) پہلی ہی سزا کا باقی حصہ پورا کردیا جائے گا۔ امام شافعی جواز تداخل کے قائل نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ بات مسلمہ ہے کہ حد قذف میں اللہ کا حق اور بندے کا حق دونوں مشترک ہیں مذکورۃ الصدر متفق علیہا مسائل اس کے شاہد ہیں اور یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ حدود شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں تو گویا اس طرح کہا جائے گا کہ ایک حق تو وجوبِ حد کا مقتضی ہے اور دوسرا حق سقوط حد کا خواستگار لہٰذا سقوطِ حق کا فتویٰ ہونا چاہئے کیونکہ اگر غلط طور پر معافی ہوجائے تو اس سے بہتر ہے کہ غلط طور پر سزا دی جائے (حضرت عمر ؓ : کا یہ قول پہلے نقل کردیا گیا ہے) ۔ اس تنقیح کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ جو حد قذف میں وراثت کو جائز نہیں قرار دیتے ان کا یہ قول صحیح ہے اور اگر مقذوف معاف کر دے تو سزا ساقط ہوجانا چاہئے مقذوف کی طرف سے مطالبہ نہیں رہا اور اجرائے حد کے لئے مطالبہ شرط ہے۔ پس امام شافعی (رح) جو اس صورت میں سقوط حد کے قائل ہیں ان کا قول اس مسئلہ میں درست ہے اور تداخل بھی حد قذف میں ہونا چاہئے جیسا کہ امام ابوحنیفہ (رح) : کا قول ہے اور اگر قاذف و مقذوف نے کسی معاوضہ پر باہم صلح کرلی تو چونکہ مقذوف سقوط حد پر راضی ہوگیا اس لئے حد ساقط ہوجانا چاہئے اور چونکہ اللہ کا حق بھی تعلق ہے اس لئے قاذف کے ذمہ مال کی ادائیگی لازم نہ ہونا چاہئے۔ بخاری نے صحیح میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ ہلال بن امیہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سمحا سے زنا کرنے کی تہمت لگائی (واقعہ یقیناً سچا تھا لیکن شرعی شہادت موجود نہیں تھی اس لئے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (یا تو شرعی ثبوت پیش کرو) ورنہ تمہاری پشت پر کوڑے مارے جائیں گے ہلال نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر کوئی شخص کسی کو اپنی بیوی پر دیکھے تو کیا گواہوں کو تلاش کرنے جائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا گواہ یا تمہاری پشت پر کوڑے۔ ہلال نے کہا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا ہے میں بلاشک و شبہ سچا ہوں اللہ ضرور (کوئی حکم ایسا) نازل فرمائے گا جس سے میری پشت کوڑوں سے بچ جائے گی ‘ اس وقت جبرئیل آیات ذیل لے کر نازل ہوئے۔
Top