Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 5
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ تَابُوْا : جن لوگوں نے توبہ کرلی مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ : اس کے بعد وَاَصْلَحُوْا : اور انہوں نے اصلاح کرلی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
ہاں جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور (اپنی حالت) سنوار لیں تو خدا (بھی) بخشنے والا مہربان ہے
الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا فان اللہ غفور رحیم۔ مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنے اعمال و احوال کو) درست کرلیں تو اللہ غفور (و) رحیم ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا الاَّ الَّذِیْنَکا استثناء گزشتہ آخری جملہ کی طرف راجع ہے۔ (یعنی جو لوگ توبہ کرلیں گے اور اپنے احوال کو درست کرلیں گے وہ فاسق نہیں رہیں گے مطلب یہ ہے کہ توبہ سے قذف کی سزا معاف نہیں ہوگی صرف فاسق ہونے کا حکم جاتا رہے گا) اصول فقہ میں امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے کہ جب استثناء چند جملوں کے بعد آئے تو اس کا رجوع آخری جملہ کی طرف ہوتا ہے ہاں اگر کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو آخری جملہ کی طرف راجع کرنے سے مانع ہو تو مجبوراً کل کی طرف استثناء کو راجع کیا جائے گا۔ امام صاحب کی تفسیر مذکور کے چند دلائل ہیں (1) استثناء کے ساتھ آخری جملہ ہی متصل ہے۔ (2) آخری جملہ اپنے حکم کے لحاظ سے سابق جملوں سے کٹا ہوا ہے اس کی رفتاری ترتیب ہی جدا ہے گو ضمیر اور اسم اشارہ کے لحاظ سے اس کا اتصال گزشتہ تمام جملوں کے ساتھ ہے۔ (3) استثناء کی شرط یہ ہے کہ مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ متصل ہو اور اس جگہ آخری جملہ سابقہ گزشتہ جملوں کے اور مستثنیٰ کے درمیان حائل ہے۔ (4) استثناء کا رجوع سابق کلام کی طرف اس مجبوری کے ساتھ ہوتا ہے کہ تنہا استثناء کا کوئی مستقل معنی نہیں ہوتا اور یہ ضرورت صرف ایک جملہ سے مربوط کرنے سے پوری ہوجاتی ہے اور جملۂ اخیرہ کی طرف رجوع تو بہرحال سب علماء کے نزدیک مسلم ہے اس لئے دوسرے جملوں سے وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ کلام استثناء پر موقوف ہوتا ہے کیونکہ اس کے حکم کو بدلنا تو ضروری ہوتا ہے ‘ استثناء سے وہ حکم بدل جاتا ہے اب یہ تغییر حکم کی ضرورت آخری جملہ کی طرف راجع کرنے سے پوری ہوجاتی ہے۔ ایک شبہ واؤ عطف کے لئے اور سابق کلام کو لاحق کلام کے ساتھ شریک کرنے کے لئے آتا ہے اور سابق میں معطوف معطوف علیہ کی شکل میں چند جملے مذکور ہیں۔ لہٰذا تمام جملوں کا استثناء میں اشتراک ہونا چاہئے۔ ازالہعطف کا یہ مطلب نہیں کہ پورے جملہ کا حکم میں اشتراک ہو حرف عطف تو شرکت اعرابی کو ظاہر کرتا ہے (ہر جملے کا حکم جدا جدا ہوتا ہے) استثناء سے کلام سابق کا حکم بدل جاتا ہے۔ پس ہر جملے کی شرکت استثناء میں نہیں ہوگی۔ (5) توبہ سے فسق ختم ہوجاتا ہے ‘ حدود ساقط نہیں ہوتیں۔ امام شافعی وغیرہ کے نزدیک اگر کوئی قرینہ مانع نہ ہو تو سابق میں جتنے جملے معطوف معطوف علیہ کی شکل میں ذکر کئے گئے ہوں سب کی طرف استثناء کا رجوع ہوتا ہے۔ اسی لئے امام شافعی کا قول ہے کہ توبہ سے حد قذف ساقط ہوجاتی ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک توبہ سے حد ساقط نہیں ہوتی۔ امام شافعی (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک اس جگہ استثناء کا رجوع آخر کے دو جملوں کی طرف ہے اوّل جملہ کی طرف نہیں ہے۔ جملہ لاَ تَقْبَلُوْاچونکہ سابق سے بالکل منقطع ہے اور عدم قبول شہادت حد قذف میں داخل نہیں ہے۔ اس لئے استثناء کا رجوع پہلے جملے کی طرف نہیں ہوگا اس سے روکنے والا قرینہ موجود ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ استثناء کا رجوع گزشتہ تینوں جملوں کی طرف ہے اور اس سے لازم نہیں آتا کہ توبہ کے بعد حد ساقط ہوجائے۔ کیونکہ توبہ کامل اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک حد شرعی کے اجرا کو قبول نہ کرلے یا جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی طلب کرلے اور وہ معاف کر دے۔ میں کہتا ہوں توبہ کا معنی صرف یہ ہے کہ اپنے کئے پر ندامت ہو اور اللہ سے معافی طلب کرلے۔ پس اگر توبہ سے حد کا ساقط ہوجانا فرض کرلیا جائے تو پھر حد شرعی کو قبول کرنا واجب نہیں قرار پاتا ‘ اسی بنیاد پر امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ تہمت لگانے والے کی شہادت صرف تہمت زنا لگانے سے ہی واجب الرد ہوجاتی ہے ‘ خواہ تہمت زدہ شخص حد قذف کا مطالبہ کرے یا نہ کرے کیونکہ قاذف فاسق ہوجاتا ہے۔ اب توبہ کرنے اور پشیمان ہونے اور اپنی حالت کو درست کرلینے کے بعد اس کی شہادت قابل قبول ہوجاتی ہے۔ خواہ اجراء حد کے بعد پشیمان ہوجائے اور توبہ کرلے یا اجراء سزا سے پہلے بہرحال فسق کا دھبہ توبہ کے بعد زائل ہوجاتا ہے اور آئندہ مردود الشہادۃ نہیں رہتا۔ بغوی نے لکھا ہے یہ تشریح حضت عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے سعید بن مسیب سلیمان بن یسار ‘ شعبی ‘ عکرمہ ‘ زہری اور عمر بن عبدالعزیز (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا حد لگائے جانے کے بعد تو قاذف کی حالت اجراء حد سے پہلے کے مقابلہ میں بہتر ہوجاتی ہے کیونکہ حدود گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں۔ (ان سے گناہوں کا اتار ہوجاتا ہے) تو پھر کیا وجہ کہ اچھی حالت ہونے کے بعد تو اس کی شہادت رد کردی جائے اور بری حالت میں جبکہ اس پر ابھی حد جاری نہ کی گئی ہو اس کی شہادت قابل قبول ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک جو قاذف کی شہادت محض قذف سے ہی (اجرائے حد سے پہلے ہی) واجب الرد ہوجاتی ہے خواہ تہمت زدہ شخص معصوم مطالبہ کرے یا نہ کرے کیونکہ تہمت زنا لگاتے ہی وہ فاسق ہوجاتا ہے اب اگر تہمت زدہ شخص اجرائے حد کا مطالبہ نہیں کرتا تو حد جاری نہیں کی جائے گی لیکن جب تک توبہ نہ کرے گا شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔ حضرت عمر ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ آیت الاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا توبہ کرنا ہی اپنے قول (تہمت زنا) کو جھٹلانا ہے (یعنی جب انہوں نے توبہ کی اور اپنے کئے ہوئے پر پشیمان ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے آپ کو جھوٹا مان لیا اور تسلیم کرلیا کہ ہم نے جھوٹ کہا) اب اگر انہوں نے خود اپنی تکذیب کردی (یعنی توبہ کرلی تو مردود الشہادۃ آئندہ نہ رہے یہ حدیث اگر پایۂ صحت کو پہنچ جائے تو امام شافعی (رح) کے مسلک کا ثبوت اس سے ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں احادیث احاد اگر صراحت قرآن کے خلاف ہوں تو ان کو نہیں مانا جاسکتا۔ قرآن میں تو لاَ تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاصراحت کے ساتھ آگیا ہے اب اگر توبہ کرلے گا تو قبول شہادت کے قابل ہوجائے گا۔ فسق کا دھبہ چھوٹ جائے گا اور اگر تہمت زدہ کے مطالبہ کی وجہ سے حد جاری ہوگئی اور اسّی کوڑے لگ گئے تو اس کی شہادت اب کبھی قبول نہیں کی جائے گی خواہ اس نے توبہ کرلی ہو یا نہ کی ہو ‘ کیونکہ رد شہادت کا حکم حق عبد کی وجہ سے ہے اور بندے کا حق توبہ سے ساقط نہیں ہوتا۔ فائدہعلماء کا اتفاق ہے کہ حد قذف سے اللہ کے حق کا بھی تعلق ہے اور بندے کے حق کا بھی تہمت زدہ شخص کی رسوائی اور آبرو ریزی کے عار کو دور کرنے کے لئے حد قذف کا قانون جاری کیا گیا ہے۔ اس سے تہمت زدہ شخص کو خصوصی فائدہ پہنچتا ہے اسی لئے علماء اس کو حق عبد قرار دیتے ہیں ‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حد قذف جرائم سے روکنے والی ہے اسلئے اس کو حد کہا جاتا ہے اس قانون کو جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی دنیا تباہی فساد اور فتنہ سے محفوظ رہے اس لئے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے ‘ چونکہ یہ بندے کا حق ہے اس لئے اس کو جاری کرنے کے لئے مدعی کی طرف سے مطالبہ شرط ہے اور قدیم ہونے کی وجہ سے شہادت باطل نہیں ہوجاتی اور مستامن کافر پر بھی اس کا اجراء ہوتا ہے اور قاضی کو اگر اس کا علم مدت حکومت کے زمانے میں ہو تو وہ یہ سزا جاری کر دے گا ‘ لیکن اگر زمانۂ حکومت سے پہلے علم تھا تو جب تک حکومت کے زمانہ میں شہادت اس کے سامنے نہ آئے وہ سابق شہادت پر حد جاری نہیں کرے گا اور اگر ایک شخص حد زنا اور حد قذف دونوں کا مستحق ہو یا حد سرقہ اور حد قذف دونوں کا مجرم قرار پائے تو حد قذف پہلے جاری کی جائے گی (کیونکہ حد زنا اور حد سرقہ دونوں خالص حق اللہ ہیں اور بندے کا حق اللہ کے حق پر مقدم ہوتا ہے) اور اقرار کے بعد اس سے لوٹ جانا درست نہیں (زنا کے اقرار سے لوٹ جانا تو صحیح ہے لیکن شہادت زنا دینے کے بعد لوٹ جانا جائز نہیں) اور چونکہ حد قذف سے اللہ کا حق متعلق ہے اس لئے تہمت زدہ شخص (یعنی مدعی) خود قاذف کو سزا نہیں دے سکتا۔ سزا جاری کرنے کا اختیار صرف حاکم کو ہے اور شبہات پیدا ہونے کی صورت میں حد قذف ساقط ہوجاتی ہے (کیونکہ حق اللہ ہے) اور حد ساقط ہوجانے کے بعد (دیت کی طرح) مالی معاوضہ میں تبدیل نہیں ہوجاتی اور نہ قاذف سے قسم لی جاسکتی ہے (اگر بندہ کا خالص حق ہوتا تو شہادت نہ ہونے کی صورت میں قاذف سے حلف لیا جاتا) اور غلام قاذف ہو تو سزا آدھی ہوجاتی ہے۔ حقوق اللہ کی حیثیت سے جو سزائیں واجب ہیں ان سب میں غلام کے لئے تنصیف ہوجاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ حد قذف بھی اللہ کا حق ہے۔ البتہ حق عبد کے سلسلہ کی جو سزائیں ہیں ان کی مقدار کی کمی بیشی تلف حق کی کمی بیشی کے موافق ہوتی ہے۔ حق تلف کرنے والا کوئی ہو غلام ہو یا آزاد اس سے سزا کی کمی بیشی کا تعلق نہیں ہوتا۔ مذکورۂ بالا تمام فروعی مسائل پر ائمہ کا اتفاق ہے اور حد قذف میں اللہ اور بندے کے حق کا مشترک ہونا اجماعی فیصلہ ہے لیکن اس میں غالب کس کا حق ہے اللہ کا یا بندہ کا ‘ اس میں ضرور اختلاف ہے ‘ امام شافعی (رح) کے نزدیک بندے کا حق غالب ہے ‘ بندہ محتاج ہے اور اللہ بےنیاز۔ امام ابوحنیفہ کا قول اس کے برعکس ہے کیونکہ بندے کے حق کا ذمہ دار تو اللہ ہے ‘ اللہ کے حق میں بندے کا حق بھی ملحوظ رہتا ہے اور اللہ کا حق بندہ وصول نہیں کرسکتا ‘ ہاں اللہ کا نائب ہونے کی حیثیت سے وصول کرتا ہے اس اختلاف پر بہت سے مختلف مسائل متفرع ہوتے ہیں۔ جن کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے : 1) حد قذف کے مطالبہ کا حق تہمت زدہ کے وارثوں کو بھی منتقل ہوسکتا ہے امام شافعی (رح) : کا یہی قول ہے ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حد قذف کے مطالبہ کا حق وارثوں کو نہیں ہوتا اللہ کے حقوق میں میراث جاری نہیں ہوتی۔ بندوں کے حقوق کا انتقال وارثوں کی جانب ہوسکتا ہے خواہ وہ حقوق مالی ہوں یا مال سے تعلق رکھنے والے ہوں جیسے ضمانت و کفالت یا مال میں تبدیل ہوجاتے ہوں جیسے قصاص اور حد قذف ان تینوں شقوں میں سے کسی میں شامل نہیں ہے اس لئے تہمت زدہ شخص کے وارثوں کو یہ حق منتقل نہیں ہوسکتا ‘ بلکہ مقذوف کے مرنے کے بعد حد قذف باطل ہوجاتی ہے۔ خواہ اقامتِ حد سے پہلے مقذوف مرجائے تو جتنی حد باقی رہ ہوگئی وہ باطل ہوجائے گی۔ شافعی (رح) : کا قول اس کے خلاف ہے۔ 2) ثبوت حد کے بعد اگر مقذوف معاف کر دے تو حد ساقط نہیں ہوجاتی۔ امام ابوحنیفہ (رح) : کا یہی مسلک ہے۔ امام شافعی اور ایک روایت کے بموجب امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک ساقط ہوجاتی ہے ہاں اگر مقذوف کہے کہ اس نے مجھے تہمت زنا نہیں لگائی اور گواہ جھوٹے ہیں تو بالاتفاق حد ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ (مدعی کے انکار و تردید کی صورت میں) تہمت زنا کا تحقق ہی نہیں پھر سزا کا وجوب کیسے ہوگا یہ بات نہیں ہے کہ سزا کا وجوب ہوگیا تھا پھر ساقط کردی گئی۔ ہاں قصاص ‘ وجوب (یعنی ثبوت قتل) کے بعد بھی ورثاء مقتول کے معاف کردینے سے معاف ہوجاتا ہے کیونکہ قصاص میں حق عبد غالب ہے۔ 3) امام ابوحنیفہ اور امام مالک (رح) کے نزدیک مال یا کوئی اور چیز حد قذف کا عوض نہیں قرار دی جاسکتی (کیونکہ حد قذف میں اللہ کا حق غالب ہے) امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک حد قذف کا معاوضہ ہوسکتا ہے۔ 4) امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک حد قذف میں تداخل ہوسکتا ہے (یعنی متعدد جرائم کی سزا میں ایک ہی مرتبہ حد جاری کی جائے گی) یہاں تک کہ اگر ایک ہی شخص پر چند مرتبہ تہمت زنا لگائی یا چندآدمیوں پر لگائی (اور ثبوت شرعی نہ ہوگا) تو سب کی پاداش میں ایک ہی حد قذف جاری کی جائے گی۔ بشرطیکہ ایک قذف کے بعد سزا نہ دی جا چکی ہو (یعنی اگر تہمت زنا میں حد قذف جاری کردی گئی اور سزا پانے کے بعد اس شخص نے پھر دوبارہ کسی اور پر یا پہلے ہی شخص پر تہمت زنا لگائی تو دوبارہ حد جاری کی جائے گی پہلی سزا بعد والے جرم کے لئے کافی نہ ہو) اور اگر ایک مقذوف نے مطالبہ کیا اور حد جاری کردی گئی اور ابھی کوڑے اسّی لگنے نہ پائے تھے کہ دوسرے شخص نے (جس پر اسی شخص نے تہمت لگائی تھی) بھی اپنے حق کا مطالبہ کیا تو (دوسری حد جاری نہ ہوگی بلکہ) پہلی ہی سزا کا باقی حصہ پورا کردیا جائے گا۔ امام شافعی جواز تداخل کے قائل نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ بات مسلمہ ہے کہ حد قذف میں اللہ کا حق اور بندے کا حق دونوں مشترک ہیں مذکورۃ الصدر متفق علیہا مسائل اس کے شاہد ہیں اور یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ حدود شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں تو گویا اس طرح کہا جائے گا کہ ایک حق تو وجوبِ حد کا مقتضی ہے اور دوسرا حق سقوط حد کا خواستگار لہٰذا سقوطِ حق کا فتویٰ ہونا چاہئے کیونکہ اگر غلط طور پر معافی ہوجائے تو اس سے بہتر ہے کہ غلط طور پر سزا دی جائے (حضرت عمر ؓ : کا یہ قول پہلے نقل کردیا گیا ہے) ۔ اس تنقیح کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ جو حد قذف میں وراثت کو جائز نہیں قرار دیتے ان کا یہ قول صحیح ہے اور اگر مقذوف معاف کر دے تو سزا ساقط ہوجانا چاہئے مقذوف کی طرف سے مطالبہ نہیں رہا اور اجرائے حد کے لئے مطالبہ شرط ہے۔ پس امام شافعی (رح) جو اس صورت میں سقوط حد کے قائل ہیں ان کا قول اس مسئلہ میں درست ہے اور تداخل بھی حد قذف میں ہونا چاہئے جیسا کہ امام ابوحنیفہ (رح) : کا قول ہے اور اگر قاذف و مقذوف نے کسی معاوضہ پر باہم صلح کرلی تو چونکہ مقذوف سقوط حد پر راضی ہوگیا اس لئے حد ساقط ہوجانا چاہئے اور چونکہ اللہ کا حق بھی تعلق ہے اس لئے قاذف کے ذمہ مال کی ادائیگی لازم نہ ہونا چاہئے۔ بخاری نے صحیح میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ ہلال بن امیہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سمحا سے زنا کرنے کی تہمت لگائی (واقعہ یقیناً سچا تھا لیکن شرعی شہادت موجود نہیں تھی اس لئے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (یا تو شرعی ثبوت پیش کرو) ورنہ تمہاری پشت پر کوڑے مارے جائیں گے ہلال نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر کوئی شخص کسی کو اپنی بیوی پر دیکھے تو کیا گواہوں کو تلاش کرنے جائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا گواہ یا تمہاری پشت پر کوڑے۔ ہلال نے کہا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا ہے میں بلاشک و شبہ سچا ہوں اللہ ضرور (کوئی حکم ایسا) نازل فرمائے گا جس سے میری پشت کوڑوں سے بچ جائے گی ‘ اس وقت جبرئیل آیات ذیل لے کر نازل ہوئے۔
Top