Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 50
اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗ١ؕ بَلْ اُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۠   ۧ
اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ : کیا ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : کوئی روگ اَمِ : یا ارْتَابُوْٓا : وہ شک میں پڑے ہیں اَمْ : یا يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں اَنْ : کہ يَّحِيْفَ اللّٰهُ : ظلم کرے گا اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول بَلْ : بلکہ اُولٰٓئِكَ : وہ هُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا (یہ) شک میں ہیں یا ان کو یہ خوف ہے کہ خدا اور اس کا رسول ان کے حق میں ظلم کریں گے (نہیں) بلکہ یہ خود ظالم ہیں
افی قلوبہم مرض کیا ان کے دلوں میں کوئی بیماری ہے۔ یعنی کفر اور حق تلفی کی طرف میلان قلبی ہے۔ ام ارتابوا یا شک میں پڑگئے ہیں۔ یعنی آپ ﷺ : کی طرف سے کوئی بات شک آفریں انہوں نے دیکھ لی ہے جس کی وجہ سے آپ پر ان کا یقین جاتا رہا ہے۔ ام یخافون ان یحیف اللہ علیہم ورسولہ یا ان کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی کرے گا۔ (اور غلط فیصلہ کرے گا) ۔ بل اولئک ہم الظلمون۔ بلکہ (مؤخر الذکر دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں۔ کھوٹ انہی کے دلوں کے اندر ہے) وہی ظالم ہیں۔ اپنی جانوں پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ دل سے ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کو نہیں مانتے اور دوسرے لوگوں پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ بغیر استحقاق کے لوگوں کا مال ہڑپ کرنا چاہتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ کے فیصلہ سے باز رہنے کی تین وجوہ آیت مذکورہ میں بیان کیں پھر آخری دونوں وجہوں کی نفی کر کے اوّل وجہ کو ثابت کردیا۔ لفظ بَلْ میں آخری دونوں شقوں سے اعراض اور اوّل شق کا اثبات ہے۔ بات یہ ہے کہ منافقوں کا رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کرانے پر راضی نہ ہونا تین وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کی بناء پر ہوسکتا تھا۔ (1) یا تو کوئی خرابی خود انہی کے اندر ہو۔ (2) یا حاکم میں کوئی نقص ہو۔ (3) حاکم کے اندر عیب ہونے کی دو صورتیں ہوسکتی تھیں ایک یقینی نقص اور (دوسرا) اندیشۂ حق تلفی۔ پیغمبر کی عظمت ‘ نبوت اور عدل و امانت کا تقاضا یہ ہے کہ نہ آپ کی ذات قابل شک اور نہ فیصلہ محل تہمت ‘ اس لئے دونوں آخری شقوں کی نفی یقینی ہے اور صرف اوّل ہی شق کا ثبوت محقق ہے آخری دونوں صورتوں کی نفی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب ان کا حق واقعی ہوتا ہے تو (انصاف ملین کا یقین رکھتے ہوئے) اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتے ہیں ‘ قرآن کا اسلوب بیان اور طریقۂ تعبیر یہ ہے کہ منافقوں اور کافروں کے پہلو بہ پہلو مخلص مؤمنوں کے حالات کا بھی اظہار کرتا ہے ‘ اسی لئے اگلی آیت میں مخلص مؤمنوں کا ذکر فرمایا ہے۔
Top