Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 61
لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِیْقِكُمْ١ؕ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا١ؕ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةً١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي الْاَعْمٰى : نابینا پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْاَعْرَجِ : لنگڑے پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْمَرِيْضِ : بیمار پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : خود تم پر اَنْ تَاْكُلُوْا : کہ تم کھاؤ مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآئِكُمْ : یا اپنے باپوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ : یا اپنی ماؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ : یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ : یا اپنی بہنوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ : یا اپنے تائے چچاؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ : یا اپنی پھوپھیوں کے اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ : یا اپنے خالو، ماموؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ : یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے اَوْ : یا مَا مَلَكْتُمْ : جس (گھر) کی تمہارے قبضہ میں ہوں مَّفَاتِحَهٗٓ : اس کی کنجیاں اَوْ صَدِيْقِكُمْ : یا اپنے دوست (کے گھر سے) لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَاْكُلُوْا : تم کھاؤ جَمِيْعًا : اکٹھے مل کر اَوْ : یا اَشْتَاتًا : جدا جدا فَاِذَا : پھر جب دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا : تم داخل ہو گھروں میں فَسَلِّمُوْا : تو سلام کرو عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : اپنے لوگوں کو تَحِيَّةً : دعائے خیر مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں مُبٰرَكَةً : بابرکت طَيِّبَةً : پاکیزہ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح کرتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : سمجھو
نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ خود تم پر کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس گھر سے جس کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (اور اس کا بھی) تم پر کچھ گناہ نہیں کہ سب مل کر کھانا کھاؤ یا جدا جدا۔ اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں کو) سلام کیا کرو۔ (یہ) خدا کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو
لیس علی الاعمی حرج ولا الاعراج حرج ولا علی المریض حرج اندھے پر کوئی تنگی نہیں ہے ‘ نہ لنگڑے پر کوئی تنگی ہے اور نہ بیمار پر کوئی تنگی ہے۔ بغوی نے سعید بن جبیر اور ضحاک وغیرہ کا بیان نقل کیا ہے کہ لنگڑے اندھے اور بیمار لوگ تندرست لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے سے خود گریز کرتے تھے کیونکہ تندرست لوگ ان سے نفرت کرتے اور ان کے ساتھ کھانے کو برا سمجھتے تھے۔ اندھا کہتا تھا ممکن ہے میں زیادہ کھا جاؤں (اور دوسروں کے واسطے کھانا کم ہوجائے) لنگڑا کہتا تھا ‘ مجھے بیٹھنے کیلئے دو آدمیوں کی جگہ گھیرنا پڑے گی (اس سے دوسروں کو تنگی ہوگی) اس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ مطلب یہ کہ اگر یہ معذور لوگ تندرست لوگوں کے ساتھ کھانا کھائیں تو ان کے لئے کوئی تنگی (گناہ ‘ بندش) نہیں ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اسی طرح ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ جب آیت (یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ ) نازل ہوئی تو بیماروں ‘ لنگڑوں اور اندھوں کے ساتھ کھانے سے مسلمانوں پر دشواری آپڑی ‘ مسلمانوں نے کہا کھانا تو ہر مال سے اونچا درجہ رکھتا ہے اور اللہ نے خلافِ حق کھانے سے منع کیا ہے ‘ نابینا آدمی تو عمدہ کھانے کو دیکھ ہی نہیں سکتا اور لنگڑا ٹھیک طور پر بیٹھ نہیں سکتا اور (کھانے میں اگر لوگوں کے ہاتھ پڑ رہے ہوں یا کھانے کیلئے لوگ گھس رہے ہوں تو) مزاحمت نہیں کرسکتا اور بیمار تو کھانا اٹھانے سے ویسے ہی کمزورہوتا ہے (تو ہم اب ان کے ساتھ کس طرح کھا سکتے ہیں) اس پر یہ آیت مفاتحہ تک نازل ہوئی۔ اس تشریح کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانو ! اندھوں وغیرہ کے ساتھ کھانے سے تم پر کوئی تنگی نہیں ہے۔ سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ مسلمان جب جہاد کو جاتے تھے تو اپنے پیچھے کچھ اپاہج لوگوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں کی کنجیاں ان کو دے جاتے تھے اور کہہ دیتے تھے تم کو ہماری طرف سے اجازت ہے کہ ہمارے گھروں کے اندر جو کچھ ہے تم اس میں سے کھا سکتے ہو۔۔ لیکن ان لوگوں کو دشواری پیش آتی تھی۔ وہ کہتے تھے ‘ گھر والے جب یہاں موجود نہیں تو ہم ان کے گھروں کے اندر داخل نہیں ہوں گے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اجازت عطا کردی۔ حسن نے کہا اس آیت کا نزول جہاد سے رہ جانے یعنی جہاد میں مذکورہ بالا معذوروں کے نہ جانے کی اجازت کیلئے ہوا اور پھر ختم ہوگیا ‘ آئندہ کلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم اور نہ تم پر کوئی تنگی ہے کہ اپنے گھروں میں (رکھی ہوئی چیزوں میں) سے کھالو۔ اپنے گھروں سے مراد ہیں وہ گھر جن میں بیوی بچے ہوں اس میں اولاد کے گھر بھی شامل ہیں ‘ اپنی اولاد کا گھر اپنا ہی گھر ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد گرامی ہے تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے اخراجہ اصحاب الستہ وابن ماجۃ والحاکم عن عائشہ ؓ ۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے ابو داؤد ‘ دارمی ‘ ترمذی ‘ نسائی اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پاکیزہ ترین مال وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کمائے اور آدمی کی اولاد بھی اسی کی کمائی سے ہے مطلب یہ ہے کہ بیویوں کا اور اپنی اولاد کا مال کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کذا قال ابن قتیبہ۔ او بیوت ابآئکم او بیوت امہتکم او بیوت اخوانکم او بیوت اخواتکم او بیوت اعمامکم او بیوت عمتکم او بیوت اخوالکم او بیوت خلتکم او ما ملکتم مفاتحہ یا اپنے باپوں کے گھروں سے اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس مال میں سے جس کی کنجیوں کے تم مالک (بنا دیئے گئے) ہو۔ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗ سے مراد حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک وکیل (یعنی نمائندہ۔ ایجنٹ) اور منتظم ہے جو زمین اور جانوروں کی دیکھ بھال کا مختار بنا دیا گیا ہو۔ ایسا شخص اپنی زیر انتظام زمین کی پیداوار کھا سکتا ہے اور زیر نگہداشت جانوروں کا دودھ پی سکتا ہے البتہ بوجھ نہیں لاد سکتا نہ غلہ اور پیداوار کا ذخیرہ بنا کر رکھ سکتا ہے۔ ضحاک نے کہا ‘ اپنے غلاموں باندیوں کے گھر مراد ہیں آقا اپنے غلام کے گھر کا مالک ہوتا ہے۔ مَفَاتِحخزانے ‘ اللہ نے فرمایا ہے وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا الاَّ ہُوَاور اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مفاتح سے کھولنے کے آلے یعنی کنجیاں مراد ہوں۔ عکرمہ نے کہا جب آدمی کنجی کا مالک (یعنی متصرف) ہوجاتا ہے تو وہ اس مال کا خزانچی بن جاتا ہے اس لئے اگر کچھ اس میں سے کھالے تو کوئی حرج نہیں۔ سدی نے کہا اگر کوئی شخص کسی کو اپنے غلہ وغیرہ کا نگراں ‘ متصرف بنا دے تو اگر یہ نگران اس میں سے کچھ کھالے تو کوئی حرج نہیں۔ بزار نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب ہو کر جہاد کو نکلنے کے بڑے خواہشمند ہوتے تھے۔ چناچہ جہاد کو جاتے وقت (گھروں کی) کنجیاں ان لوگوں کو دے جاتے تھے جو اپاہج (لنگڑے ‘ لولے ‘ اندھے ‘ بیمار وغیرہ) ہوتے تھے اور کہہ دیتے تھے کہ جتنا تم پسند کرو ہمارے گھروں سے لے کر کھا سکتے ہو۔ ہماری طرف سے اجازت ہے لیکن جن لوگوں کو اجازت دی جاتی تھی وہ کہتے تھے اس میں سے کچھ کھانا ہمارے لئے جائز نہیں ‘ ان لوگوں نے بےدلی کے ساتھ (مجبور ہو کر) اجازت دی ہے اس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ ابن جریر کا بیان ہے کہ زہری سے آیت لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی۔۔ کے متعلق دریافت کیا گیا کہ اندھے ‘ لنگڑے اور بیمار کا ذکر اس آیت میں کیوں کیا گیا (اس کا پس منظر کیا ہے ؟ ) زہری نے کہا مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا تھا کہ مسلمان جب جہاد کو جاتے تھے تو اپنے پیچھے ان اپاہجوں کو چھوڑ جاتے تھے اور ان کو اپنے گھروں کی کنجیاں سپرد کر جاتے تھے اور یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ ہمارے گھروں کے اندر جو کچھ ہے اس میں سے کھانے کی تم کو ہماری طرف سے اجازت ہے ‘ لیکن وہ لوگ بڑی دشواری میں پڑجاتے تھے ‘ وہ کہتے تھے کہ جب گھر والے موجود نہیں تو ہم ان کے گھروں کے اندر نہیں جائیں گے۔ (اور گھروں میں داخلے کے بغیر گھروں کے اندر موجود چیز کو کس طرح کھا سکتے ہیں) اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اجازت عطا فرمادی گئی۔ بعض لوگوں نے کہا مَا مَلَکْتُمْ مَّفاتِحَہٗسے مراد یہ ہے کہ جو کھانے پینے کی چیزیں تم نے جمع کر رکھی ہیں ان کو کھا سکتے ہو۔ مجاہد و قتادہ نے یہ مطلب بیان کیا ‘ تم نے اپنے گھروں کے اندر جو کھانے کی چیزیں رکھ چھوڑی ہیں جن کے تم مالک ہو ‘ ان کو کھانا تمہارے لئے ممنوع نہیں۔ او صدیقکم یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ خلیط کے لفظ کی طرح لفظ صدیق ایک کے لئے بھی آتا ہے اور چند کے لئے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے سچے دوستوں کے مکان سے بھی تم (ان کی غیبت میں) کھا سکتے ہو۔ کیونکہ تمہاری یہ بےتکلفی دوستوں کے لئے خوش کن اور پسندیدہ ہوگی۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ‘ اس آیت کا نزول حارث بن عمرو کے حق میں ہوا تھا ‘ حارث رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی جہاد پر جانے لگے تو اپنی بجائے گھر کی نگرانی مالک بن زید کے سپرد کردی ‘ جب واپس آئے تو مالک کو بہت دبلا اور کمزور پایا ‘ وجہ دریافت کی تو مالک نے کہا میں نے آپ کے گھر میں موجود غلہ کھانا ‘ جبکہ آپ کی اجازت بھی نہیں تھی اپنے لئے برا (اور باعث گناہ سمجھا۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے لیکن مالک بن زید کی جگہ خالد بن زید کا لفظ اس روایت میں آیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے حسن اور قتادہ اسی آیت کی بنا پر قائل تھے کہ دوست کے گھر میں داخل ہو کر اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے کوئی چیز کھا لینا جائز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورۂ بالا اشخاص (یعنی اقرباء اور اعزاء) کے گھروں میں جا کر ان کی موجودگی کے بغیر کچھ کھا لینا جائز ہے۔ کھا سکتے ہو لیکن بطور توشہ ذخیرہ کرنا اور اٹھا کرلے آنا جائز نہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے یہ حکم شروع اسلام میں تھا پھر منسوخ کردیا گیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حکم اب بھی باقی ہے لیکن اس کا جواز اس بات پر موقوف ہے کہ گھر والے نے صریح اجازت دے دی ہو یا قرینہ سے اس کی اجازت معلوم ہوگئی ہو یہی وجہ ہے کہ آیت میں ذکر ایسے ہی لوگوں کا کیا گیا ہے جن سے عام طور پر بےتکلفی ہوتی ہے۔ (اور آپس میں کھانے پینے کا کوئی پرہیز یا تکلف نہیں ہوتا) ان لوگوں کا آیت میں تذکرہ صرف عادت و رواج کے پیش نظر ہے (حصہ کے لئے نہیں ہے) اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ بالکل اجنبی اور غیر آدمی کے گھر پہنچ کر اس کی صریحی یا غیر صریحی اجازت کے بغیر کچھ کھا لینا بھی جائز ہے ‘ بشرطیکہ گھر والے کی رضامندی کا کسی طور پر علم ہوگیا ہو۔ مسئلہ یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ عام طور پر قریبی محرم رشتہ داروں میں چونکہ بےتکلفی اور (کھانے پینے سے) انبساط خاطر ہوتا ہے اس لئے حنفیہ کہتے ہیں کہ محرم قرابت دار کے مکان کے اندر سے اگر کوئی شخص اس قرابت دار کا یا کسی غیر کا مال چرا لے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ‘ لیکن اگر کسی غیر کے مکان سے کچھ مال چرایا خواہ چرانے والے کے قریبی محرم ہی کا ہو تب بھی ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ اوّل صورت میں مال محرز نہ تھا اور دوسری صورت میں محرز تھا (محرز بمعنی محفوظ یعنی اوّل صورت میں مال ایسی جگہ نہیں رکھا ہوا تھا جو چرانے والے کے لئے محفوظ مقام سمجھا جائے اور دوسری صورت میں اس چور کے لئے غیر کا گھر ممنوع ہے اور محفوظ مقام ہے) ۔ ایک شبہ اگر یہ بات ہے تو اسی آیت کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ دوست کے مکان کے اندر سے چوری کرنے پر بھی چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ ازالہدوستی عارضی چیز ہے (توڑنے سے ٹوٹ جاتی ہے اور جوڑنے سے جڑ جاتی ہے) قرابت کا درجہ اسی سے جدا ہے (وہ تخلیقی اور فطری ہے توڑنے سے ٹوٹتی نہیں) دوست کے گھر سے مال چرا کر تو چور دوستی کی حدود سے آگے بڑھ جاتا ہے (یہ عمل دوستی شکن ہے) اس فعل کی وجہ سے دوستی ہی باقی نہیں رہتی (لیکن قرابت قریبہ ہر صورت میں باقی رہتی ہے) ۔ بغوی نے لکھا ہے اندھے ‘ لنگڑے اور بیمار کھانا مانگنے کے لئے بعض مسلمانوں کے گھر جاتے تھے صاحب خانہ کے پاس کھلانے کے لئے کچھ موجود نہ ہوتا تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر ان کو لے جاتا یا ان لوگوں میں سے کسی کے گھر لے جاتا جن کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے ایسا کھانا کھانے میں ان معذوروں کو پس و پیش ہوتا اور وہ کہتے یہ ہم کو دوسروں کے گھر لئے پھرتا ہے اور وہاں سے بغیر اجازت کے لے کر ہم کو کھلاتا ہے اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اس تشریح کے بموجب آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نہ اندھوں ‘ لنگڑوں ‘ بیماروں کے لئے کوئی ممانعت ہے نہ تمہارے لئے کوئی گناہ ہے کہ ان معذوروں کے ساتھ مل کر تم اپنے گھروں سے یا اپنی اولاد ‘ اہل و عیال ‘ آباء و امہات ‘ اخوان و اخوات۔ اعمام و عمات اخوال و خالات وغیرہ وغیرہ کے گھروں سے لے کر کچھ کھاؤ۔ بغوی نے بحوالۂ عطا خراسانی حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ مال دار لوگ غریب قرابت داروں یا دوستوں کے گھر جاتے تھے اور وہ کھانا پیش کرتے تھے تو مال دار لوگ کہتے تھے ‘ بخدا ہم یہ گناہ نہیں کریں گے کہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائیں ہم مالدار ہیں اور تم نادار ہو اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا او اشتاتا تم پر کوئی گناہ نہیں اکٹھے ہو کر کھاؤ یا الگ الگ۔ بغوی نے لکھا ہے اس آیت کا نزول بنی لیث بن بکر کنانی کے متعلق ہوا اس قبیلہ کا ایک شخص تنہابغیر مہمان کے نہیں کھاتا تھا مہمان ساتھ کھانے کے لئے مل جاتا تو کھانا کھا لیتا ورنہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ صبح سے بیٹھے بیٹھے شام ہوگئی اور کھانا سامنے رکھا رہا مگر اس شخص نے نہیں کھایا۔ اونٹنیوں کے تھنوں میں دودھ بھرا رہتا مگر وہ تنہا نہ پیتا (اس لئے دودھ دوہتا ہی نہ تھا) جب کوئی مہمان ہم مشرب ہونے کے لئے آجاتا تو پی لیتا۔ دن بھر مہمان کے نہ ملنے اور تنہا نہ کھانے کی وجہ سے بھوکا پیاسا رہتا۔ آخر جب شام ہوجاتی تو کچھ کھا لیتا۔ یہ بیان قتادہ ضحاک اور ابن جریج کا ہے۔ ابن جریر اور بغوی نے اس سلسلہ میں عکرمہ اور ابو صالح کا بیان اس طرح نقل کیا ہے کہ انصار کا دستور تھا کہ جب ان کا کوئی مہمان ہوتا تو اس وقت تک کھانا نہ کھاتے تھے جب تک مہمان کھانے میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوجاتا۔ اس آیت میں ان کو اجازت دے دی گئی کہ جس طرح چاہیں کھائیں (مہمان کے ساتھ) اکٹھے ہو کر کھائیں یا الگ الگ کھائیں۔ فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علی انفسکم پھر جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنوں کو سلام کرو۔ اپنے گھروں میں ہو یا غیر کے عَلَی اَنْفُسِکُمْسے مراد یہ ہے کہ آپس میں سلام کیا کرو۔ انفس کا اطلاق اس جماعت پر بھی ہوتا ہے جو ایک مذہب کے ہوں یا قرابت دار ہوں۔ اللہ نے فرمایا ہے لاَ تُخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ لاَ تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ ۔ ظَنَّ الْمُوؤمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا۔ بعض علماء نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ جب تم گھروں کے اندر داخل ہو اور وہاں کوئی نہ ہو تو خود اپنے آپ کو سلام کیا کرو۔ یعنی یوں کہا کرو۔ اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَاد اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ۔ ایسی صورت میں ملائکہ سلام کا جواب دیتے ہیں 1 ؂۔ تحیۃ بطور دعا۔ تحیۃ کے معنی ہی سلام کرنا ہیں۔ اس لئے لفظ تحیۃً ۔ سَلِّمُوْاکا مفعول مطلق ہے۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ نے آدم ( علیہ السلام) کو اپنی (قائم کردہ) صورت میں پیدا کیا۔ آدم ( علیہ السلام) کے قد کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ بنا چکنے (اور پھونکنے) کے بعد فرمایا کہ جاؤ فرشتوں کی یہ جماعت جو بیٹھی ہوئی ہے اس کو سلام کرو اور سنو وہ تم کو کیا جواب دیتے ہیں۔ وہ جو جواب دیں گے وہی تمہارا اور تمہاری نسل کا جوابِ (سلام) ہوگا۔ آدم ( علیہ السلام) نے جا کر السلام علیکم کہا ‘ فرشتوں نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔۔ الخ۔ من عنداللہ اللہ کی طرف سے۔ یعنی یہ سلام اللہ کی طرف سے شروع ہوا ہے ‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مّنْ عِنْدِاللّٰہِ کا تعلق تحیۃ سے ہو۔ کیونکہ تحیۃ کا معنی دعائے زندگی اور زندگی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ مبرکۃ برکت والی۔ یعنی جس کے ساتھ برکت ہو۔ برکت کا معنی ہے بھلائی کی زیادتی سو سلام علیک کے جواب میں کہے علیکم السلام والبرکۃ تم پر سلام ہو اور بھلائیوں کی زیادتی۔ بعض اہل علم نے کہا ‘ سلام کے جواب کو برکت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے خبر میں زیادتی اور ثواب کی امید کی جاتی ہے۔ طیبۃ پاک ‘ یعنی نفاق اور ریاکاری سے پاک ‘ صاف دل سے نکلی ہوئی۔ بعض کے نزدیک طیبۃ کا یہ مطلب ہے کہ اس سے سننے والے کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا مُبٰرَکَۃَ طَیِّبَۃً سے مراد ہے اچھی خوبصورت ‘ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میرے کسی امتی سے ملو تو اس کو سلام کرو۔ اس سے تمہاری عمر لمبی ہوگی اور جب اپنے گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو۔ اس سے تمہارے گھر کی خیر بڑھے گی اور چاشت کی نماز پڑھا کرو۔ یہ صلوٰۃ اوابین (اللہ کی طرف لوٹنے والوں کی نماز) ہے۔ اخرجہ البیہقی ‘ فی شعب الایمان والثعلبی وحمزۃ بن یوسف الجرجانی فی تاریخ جرجان ‘ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں داخل ہو تو گھر والوں اور جو لوگ گھر کے اندر موجود ہوں ان کو یہ شخص سلام کرے۔ جابر ‘ طاؤس ‘ زہری ‘ قتادہ اور عمرو بن دینار کا بھی یہی قول ہے۔ قتادہ نے کہا اگر تم اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو۔ وہ تمہارے سلام کے زیادہ مستحق ہیں اور اگر خالی گھر میں داخل ہو جہاں کوئی نہ ہو تب (بھی سلام کرو اور) یوں کہو السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَاد اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ ملائکہ سلام کا جواب دیتے ہیں۔ بیہقی نے شعب الایمان میں قتادہ کی مرسل روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم باہر جاؤ تو اپنے گھر والوں کو سلام کے ساتھ رخصت کرو۔ ترمذی نے حضرت انس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا ‘ بیٹے جب تو گھر والوں کے پاس (گھر کے اندر) داخل ہو تو ان کو سلام کیا کر تیرے لئے اور تیر گھر والوں کے لئے برکت ہوگی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ‘ اگر گھر کے اندر کوئی نہ ہو تو یوں کہے السَّلاَمُ عَلَیْنَا مِنّ رَّبِّنَا السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَاد اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ ‘ السَّلاَمُ عَلَی اَہْلِ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِہم پر ہمارے رب کی طرف سے سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو ‘ گھر والوں پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ اس آیت کی توضیح میں عمرو بن دینار نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ جب تو مسجد میں داخل ہو تو یوں کہہ السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَاد اللّٰہِ الصَّلِحِیْنَ ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ : کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا اسلام (میں) کون سا (عمل) سب سے اچھا ہے۔ فرمایا ‘ یہ کہ تم کھانا کھلاؤ اور (ہر شخص کو) سلام کرو۔ خواہ اس کو جانتے ہو یا نہ جانتے ہو۔ متفق علیہ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں اگر کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے۔ اگر وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں یہ حاضر ہو۔ اگر وہ دعوت کرے تو یہ دعوت کو قبول کرے۔ ملاقات ہو تو سلام کرے۔ اس کو چھینک آئے تو یہ یرحمک اللہ کہے ‘ اور سامنے موجود ہو یا نہ ہو بہرحال اس کی خیرخواہی کرے۔ رواہ النسائی۔ ترمذی اور بزار نے بھی اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم جب تک مؤمن نہ ہو گے جنت میں نہ جاؤ گے اور جب تک آپس میں محبت نہ کرو گے مؤمن نہ ہو گے ‘ کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتادوں کہ اگر تم اس کو کرو گے تو آپس میں محبت کرنے لگو گے۔ سلام (کے رواج) کو پھیلاؤ۔ رواہ مسلم۔ ابوہریرہ ؓ کی مرفوع روایت ہے سوار پیدل کو سلام کرے ‘ پیدل بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے (آدمی) بہت کو۔ متفق علیہ۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ : کی دوسری روایت نقل کی ہے اس میں (اتنا زائد) ہے چھوٹا بڑے کو (سلام کرے) حضرت عمران ؓ بن حصین راوی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا ‘ السلام علیکم حضور ﷺ نے سلام کا جواب ویسا ہی دے دیا ‘ وہ شخص بیٹھ گیا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا دس (نیکیاں ہوئیں یا دس ثواب لکھے گئے) کچھ دیر کے بعد ایک اور شخص آیا اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ ‘ حضور ﷺ نے اس کو بھی ویسا ہی جواب دے دیا۔ وہ بھی بیٹھ گیا اور حضور ﷺ نے فرمایا بیس۔ پھر ایک اور شخص آیا ‘ اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور ﷺ نے اس کو بھی (ایسا ہی) جواب دے دیا۔ وہ بھی بیٹھ گیا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا تیس 1 ؂۔ رواہ الترمذی وابو داؤد۔ ابو داؤد نے حضرت معاذ بن انس کی روایت سے بھی اسی کے ہم معنی حدیث نقل کی ہے۔ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ پھر ایک اور شخص آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ حضور نے فرمایا چالیس اور فضائل اسی طرح ہوتے ہیں۔ حضرت ابو امامہ کی مرفوع روایت ہے کہ سب سے زیادہ اللہ سے قرب رکھنے والا وہ شخص ہے جو سلام کی ابتداء کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے جو شخص کسی جلسہ میں پہنچے تو سلام کرے ‘ پھر اس کا دل بیٹھنے کو چاہے توبیٹھ جائے۔ پھر (واپسی کے وقت) جب اٹھے تو سلام کرے ‘ پہلا سلام دوسرے سلام سے زیادہ مستحق (ثواب) نہیں ہے۔ رواہ الترمذی وابو داؤد۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا اگر جماعت گزرے تو ان میں سے ایک کا سلام کرنا (سب کی طرف سے) کافی ہے اور بیٹھنے والوں میں سے بھی ایک کا جواب دے دینا کافی ہے۔ بغوی نے مصابیح میں اس کو حضرت علی ؓ : کا قول قرار دیا ہے اور بیہقی نے شعب الایمان میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد کہا ہے۔ کذلک یبین اللہ لکم الایت لعلکم تعقلون۔ اسی طرح اللہ کھول کھول کر تمہارے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ یہ تیسری تاکیدی آیت ہے جو علاوہ تاکید کے آخری احکام کی عظمت شان کو بھی ظاہر کر رہی ہے۔ نمبر اوّل اور نمبر دوئم آیات کے خاتمہ پر واللہ علیم حکیم فرمایا تھا اور اس آیت کا خاتمہ لَعَلَّکُمْ تعقلون پر فرمایا۔ اوّل و دوئم احکام کے خاتمہ پر اصل علت احکام بیان کردی ‘ یعنی اللہ کے علم و حکمت کا تقاضا یہی ہے اور اس آیت کے خاتمہ پر مقصد حکم کو ظاہر فرما دیا ہے کہ حق کو سمجھنا اور جو کام بہتر ہے اس کو جان لینا ان آیات کا اصل مقصد ہے۔ دلائل میں بیہقی نے اور ابن اسحاق نے عروہ اور محمد بن کعب قرظی کے حوالہ سے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے سال (جب قریش اور غطفان کے قبائل وغیرہ مدینہ پر چڑھ آئے تو) قریش نے مدینہ میں چاہ رومہ کے مجمع الاسیال کے مقام پر اپنا پڑاؤ کیا ان کا کمانڈر ابو سفیان تھا اور غطفان (کے قبائل) نے آکر احد کے ایک طرف نقبین میں قیام کیا ‘ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع مل چکی تھی آپ نے مدینہ کے گرد خندق کھدوا دی تھی خود بھی حضور خندق کھودنے میں مصروف عمل تھے اور مسلمان بھی کام میں لگے ہوئے تھے ‘ لیکن منافقوں میں سے کچھ لوگ سستی کر رہے تھے ‘ جھوٹ موٹ کام میں شریک تھے اور موقع پاتے ہی رسول اللہ ﷺ کے علم و اجازت کے بغیر گھروں کو چپکے سے سرک لیتے تھے پھر کسی مسلمان کو کوئی حادثہ درپیش ہوجاتا جس سے وہ مجبور ہوجاتا تو رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کردیتا اور اجازت لے کرجاتا تھا۔ اجازت ملنے پر ضرورت پوری کر کے فوراً واپس آجاتا تھا اس پر آیات ذیل آخر سورة تک نازل ہوئیں۔
Top