Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 2
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ
اَحَسِبَ : کیا گمان کیا ہے النَّاسُ : لوگ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا : کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اَنْ : کہ يَّقُوْلُوْٓا : انہوں نے کہہ دیا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَهُمْ : اور وہ لَا يُفْتَنُوْنَ : وہ آزمائے جائیں گے
کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی
احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم یا یفتنون۔ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی جانچ نہیں کی جائے گی۔ مدنی صحابہ نے مکی مسلمانوں کو یہ آیت لکھ کر بھیج دی ‘ مکی مسلمانوں نے کہا : اب تو ہم یہاں سے نکل ہی چلیں گے۔ اگر کسی نے ہمارا پیچھا کیا تو ہم اس سے لڑیں گے۔ چناچہ یہ حضرات نکل کھڑے ہوئے ‘ مشرکوں نے ان کا تعاقب کیا۔ راستہ میں دونوں گروہوں کی جنگ ہوئی۔ کچھ مسلمان شہید ہوگئے اور کچھ مسلمان بچ کر نکل گئے۔ ان کے متعلق اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا فُتِنُوْا الخ۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ یہ آیت کچھ مکی لوگوں (یعنی مکی مسلمانوں) کے حق میں نازل ہوئی تھی۔ یہ لوگ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے مکہ سے چل پڑے تھے ‘ مشرکوں نے ان کو روکا تو وہ لوٹ گئے (مدنی) بھائیوں نے ان کو وہ آیت لکھ کر بھیجی جو ان کے بارے میں نازل ہوئی تھی ‘ جدید آیت پڑھ کر وہ نکل کھڑے ہوئے۔ شہید ہونے والے شہید ہوگئے اور بچنے والے بچ گئے۔ انہی کے متعلق اللہ نے یہ آیت نازل ہوئی : ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا الخ۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آیت میں الناس سے مراد ہیں مکہ میں رہ جانے والے مسلمان سلمہ بن ہشام ‘ عیاش بن ربیعہ ‘ ولید بن ولید ‘ عمار بن یاسر وغیرہ۔ ابن سعید ‘ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت عبیدا اللہ بن عمیر کے حوالہ سے بیان کیا کہ آیت ذیل کا نزول حضرت عمار بن یاسر کے متعلق ہوا ‘ آپ کو اللہ کی راہ میں سخت دکھ دئیے جاتے تھے۔ اللہ نے فرمایا : اَحَسِبَ النَّاس الخ بغوی نے ان جریج کا بھی یہی قول نقل کیا ہے۔ مقاتل نے کہا کہ حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام حضرت مہجع بن عبد اللہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی ‘ اس امت میں آپ پہلے شخض ہوں گے جن کو جنت کے دروازہ کی طرف بلایا جائے گا۔ میں کہتا ہوں : حضرت مہجع ہی جنگ بدر کے دن مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلے کافروں کے مقابلہ کے لئے قطار سے باہر نکل آئے تھے۔ عامر بن حضری نے آپ کو تیر مار کر شہید کردیا۔ راہ خدا میں سب سے پہلے شہید ہونے والے آپ ہی ہوئے۔ جب آپ کے والدین اور بی بی بےتابی کے ساتھ گریہ وزاری کرنے لگے تو ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ اَآم کے بعد ہمزہ استفہام کا ذکر کرنا دلالت کر رہا ہے کہ ا آم الگ مستقل جملہ ہے (کیونکہ ہمزہ استفہام کا تقاضا ہے کہ آغاز کلام میں آئے ‘ اگر ا آم سے بعد والے جملہ کا ارتباط ہوتا تو ہمزۂ استفہام ا آم سے پہلے آتی ‘ مترجم) ۔ حسبان سے مراد ہے گمان کرنا اور استفہام انکاری ہے یا زجری ‘ مطلب یہ ہے کہ کیا لوگ اپنے کو یونہی متروک بےامتحانی سمجھ بیٹھے ہیں کہ آمَنَّا کہہ دینے سے چھوٹ جائیں گے ‘ ایسا نہیں ہوگا بلکہ اللہ ان کو مصائب اور دشواریوں میں مبتلا کر کے ان کا امتحان لے گا۔ مثلاً وطن سے ہجرت کرنا ‘ جہاد کرنا اور طرح طرح کے مالی ‘ جانی اور اولاد کے دکھ ان کو اٹھانے ہوں گے تاکہ مخلص اور منافق کے درمیان امتیاز ہوجائے اور دین پر ثابت قدم رہنے والا تردد و شک کرنے والے سے الگ ہوجائے اور صبر کرنے والوں کو اونچے مراتب ملیں۔ بغوی نے ذکر کیا ہے کہ شروع میں اللہ نے صرف ایمان کا حکم دیا تھا پھر نماز ‘ زکوٰۃ اور دوسرے قوانین فرض کئے۔ بعض لوگوں کو اس کی تعمیل میں دشواری ہوگئی اور ان پر یہ حکم شاق ہوا ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس شان نزول پر آیت کا یہ مطلب ہوگا : کیا لوگوں کو یہ خیال ہے کہ صرف ایمان لانے سے (بغیر شرائع کے) ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور دوسرے اوامرو نواہی بھیج کر ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟ صرف ایمان لانا اگرچہ دوامی جہنمی ہونے سے روکتا ہے اور جنت میں (کبھی نہ کبھی) داخل ہونے کا مستحق بنا دیتا ہے لیکن حصول درجات تو اداء طاعات اور ترک خواہشات سے وابستہ ہیں۔
Top