Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 3
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ فَتَنَّا : البتہ ہم نے آزمایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلَيَعْلَمَنَّ : تو ضرور معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے ہیں وَ : اور لَيَعْلَمَنَّ : وہ ضرور معلوم کرلے گا الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اور جو لوگ اُن سے پہلے ہو چکے ہیں ہم نے اُن کو بھی آزمایا تھا (اور ان کو بھی آزمائیں گے) سو خدا اُن کو ضرور معلوم کریں گے جو (اپنے ایمان میں) سچے ہیں اور اُن کو بھی جو جھوٹے ہیں
ولقد فتنا الذین من قبلھم . ہم ان سے پہلے لوگوں کی (سخت) آزمائشیں کرچکے ہیں۔ یعنی انبیاء اور مؤمنین کی سخت آزمائش کرچکے ہیں۔ بعض انبیاء کو آروں سے چیرا گیا ‘ بعض کو قتل کردیا گیا ‘ بنی اسرائیل کو فرعون بدترین عذاب دیتا رہا۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کا یہ پرانا دستور ہے کہ نیک لوگوں کو سخت مصائب میں مبتلا کر کے پرکھا جاتا ہے۔ تمام امتیں اسی آزمائشی دور سے گزری ہیں ‘ تو کیا اس زمانہ میں اس سنت قدیمہ کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ فلیعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکذبین . سو اللہ ان لوگوں کو (ظاہری علم سے) جان کر رہے گا جو (ایمان کے دعویٰ میں) سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا۔ ا اللہ تو ہمیشہ سے جانتا ہے سچوں کو بھی اور جھوٹوں کو بھی اس لئے حصول علم مقصود نہیں ہے بلکہ اس کے علم ازلی کا سچوں کی سچائی اور کاذبوں کے جھوٹ سے بالفعل (بعد العمل) تعلق پیدا کرنا مقصود ہے تاکہ سچے ایمان والے جھوٹے منافقوں سے ممتاز ہو کر الگ ہوجائیں اور ان سے ثواب یا عذاب کا تعلق ہوجائے۔ بعض کے نزدیک آیت کا مطلب اس طرح ہے کہ اللہ سچوں کو جھوٹوں سے الگ کر کے ظاہر کر دے تاکہ اللہ کے ازلی علم کا فعلی ظہور ہوجائے۔ مقاتل نے علم کا ترجمہ دکھانا کیا ہے ‘ اللہ دکھادے گا۔ بعض نے اس طرح معنی بیان کئے کہ اللہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے گا۔
Top