Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 5
مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ١ؕ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
مَنْ : جو كَانَ يَرْجُوْا : وہ امید رکھتا ہے لِقَآءَ اللّٰهِ : اللہ سے ملاقات کی فَاِنَّ : تو بیشک اَجَلَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ لَاٰتٍ : ضرور آنے والا وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
جو شخص خدا کی ملاقات کی اُمید رکھتا ہو خدا کا (مقرر کیا ہوا) وقت ضرور آنے والا ہے۔ اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
ما کان یرجوا لقاء اللہ فان اجل اللہ لات وھو السمیع العلیم . جو شخص اللہ سے ملنے کی امید رکھتا ہو سو اللہ تعالیٰ (سے ملنے) کا وہ معین وقت ضرور آنے والا ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس جگہ رجاء کا معنی ہے خوف یعنی جو شخص حشرنشر ‘ حساب فہمی اور عذاب خدا سے ڈرتا ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : رجاء بمعنی طمع ہے یعنی جو شخص ثواب کا خواہشمند ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخض (دنیا میں) اللہ کے دیدار کا خواہشمند ہے۔ اس مطلب پر آیت سے استدلال کیا جاسکے گا کہ دنیا میں اللہ کا دیدار نہیں ہوسکتا۔ ہاں بعض روایات میں آیا ہے کہ معراج میں رسول اللہ نے اللہ کو دیکھا تھا ‘ مگر یہ دنیا میں دیدار نہ تھا (اس مادی دنیا سے برزخی دنیا الگ ہے۔ اگر حضور ﷺ نے باری تعالیٰ کو دیکھا تو برزخی عالم میں دیکھا تھا ‘ مترجم) اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں چہرہ کی آنکھوں سے خدا کو دیکھنے کا جو شخص مدعی ہو وہ جھوٹا ہے۔ اَجَلَ اللہ یعنی اللہ سے ملنے کا مقرر وقت ضرور آنے والا ہے۔ مقاتل نے کہا : اس سے مراد ہے قیامت کا دن۔ یعنی قیامت کا دن ضرور آئے گا اس لئے آدمی پر لازم ہے کہ ایسے کاموں کی طرف پیش بندی کرے جن سے ثواب کا حصول ہو جس کی اس کو خواہش ہے اور عذاب سے نجات مل جائے جس کا اس کو ڈر ہے۔ دوسری آیت میں اس مفہوم کو اس طرح ادا کیا ہے : فَمَنْ کَانَ یَرجُوْا لقآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَّلاَ یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا۔ وَھُوَ السَّمِیْعُ اور وہی اپنے بندوں کے اقوال سننے والا ہے اور ان کے عقائد و اعمال کو جاننے والا ہے۔
Top