Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 13
فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ۚ۬ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَۙ
فَاِذَا : پھر جب رَكِبُوْا : وہ سوار ہوئے ہیں فِي الْفُلْكِ : کشتی میں دَعَوُا اللّٰهَ : اللہ کو پکارتے ہیں مُخْلِصِيْنَ : خالص رکھ کر لَهُ الدِّيْنَ ڬ : اس کے لیے اعتقاد فَلَمَّا : پھر جب نَجّٰىهُمْ : وہ انہیں نجات دیتا ہے اِلَى الْبَرِّ : خشکی کی طرف اِذَا هُمْ : ناگہاں (فورا) وہ يُشْرِكُوْنَ : شرک کرنے لگتے ہیں
پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خدا کو پکارتے (اور) خالص اُسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اُن کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں
فاذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الذین . (وہ باوجود یہ کہ شرک کرتے ہیں اور اہل توحید سے عناد رکھتے ہیں لیکن) جب کشی میں سوار ہوتے ہیں (اور ڈوبنے کا خطرہ ہوجاتا ہے) تو اللہ کو پکارتے ہیں خلوص کے ساتھ اس کی اطاعت کرتے ہوئے۔ یعنی جیسے مؤمن خالص طور پر اللہ کی ہی اطاعت کرتا ہے اور اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکارتا اسی طرح مشرک بھی ڈوبنے کے خطرہ کے وقت صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اس مصیبت سے ان کو نہیں بچا سکتا ‘ اس وقت عبادت و اطاعت صرف اللہ کی کرتے ہیں۔ فلما نجنھم الی البر اذا ھم یشرکون . لیکن جب اللہ ان کو مصیبت سے بچا کر خشکی تک لے جاتا ہے تو پھر وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔ یک دم شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ عکرمہ کا بیان ہے کہ دور جاہلیت والے جب سمندر میں سفر کرتے تھے تو اپنے بتوں کو ساتھ رکھتے تھے لیکن جب ہوا میں طوفان آجاتا تھا تو بتوں کو سمندر میں پھینک دیتے تھے اور پکارتے تھے : اے رب ! اے رب ! مطلب یہ کہ سخت مصائب کے وقت تو خالص طور پر دل سے اللہ کے اطاعت گزار ہوجاتے تھے اور شرک چھوڑ دیتے تھے اور نجات پا جاتے تو شرک کی طرف لوٹ آتے تھے۔
Top