Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 9
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَنُدْخِلَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں داخل کریں گے فِي الصّٰلِحِيْنَ : نیک بندوں میں
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو ہم نیک لوگوں میں داخل کریں گے
والذین امنو وعملوا الصلحت لندخلنھم فی الصلحین . اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیکیاں کیں ہم ضرور ہی ان کو صالحین میں شامل کردیں گے۔ اَلصَّالِحِیْنَ سے مراد ہیں انبیاء ‘ اولیاء ‘ شہداء۔ یعنی ہم نیکوکار مؤمنوں کو انبیاء ‘ اولیاء وغیرہ کے ساتھ شامل کردیں گے یا ان کا حشر ان لوگوں کے ساتھ کریں گے یا جنت میں ان کے ساتھ ان کو داخل کریں گے ‘ جنت میں سب ساتھ ہوجائیں گے۔ صلاح اور نیکی میں کمال مؤمنوں کے درجات کی انتہا ہے اور انبیاء مرسلین کی تمنا کا بھی یہ ہی آخری نقطہ ہے کیونکہ کمال صلاح کا معنی یہ ہے کہ کسی طرح کا بگاڑ اور خرابی نہ ہو ‘ نہ عقیدہ میں ‘ نہ عمل میں ‘ نہ اخلاق و مشاغل زندگی میں۔ ابن جریر اور ابن المنذر نے بروایت عکرمہ حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ مکہ کے کچھ لوگ تو مسلمان ہوگئے تھے مگر وہ اپنے ایمان پوشیدہ رکھتے تھے۔ بدر کی لرائی میں مشرک ان کو اپنے ساتھ (مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے) لے گئے۔ ان میں سے کوئی مارا گیا تو مسلمانوں نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ یہ لوگ تو مسلمان تھے ‘ مجبور ابنا گواری خاطر مشرکوں کے ساتھ آئے۔ جو لوگ مارے گئے ان کے لئے آپ دعاء مغفرت فرما دیجئے۔ اس پر سورة نساء کی آیت اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلَآءِکَۃُ ظَالَمِی اَنْفُسَھُمْ الخ نازل ہوئی۔ مدینہ کے مسلمانوں نے یہ آیت لکھ کر مکہ میں رہ جانے والے مسلمانوں کو بھیج دی اور یہ بھی لکھا دیا کہ اب تمہارے لئے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رہا۔ یہ خط پڑھ کر مکہ کے مسلمان نکل کھڑے ہوئے۔ مشرکوں نے ان کا تعاقب کیا اور زبردستی واپس لے گئے۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔
Top