Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 29
اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ
اِنْ كَانَتْ : نہ تھی اِلَّا : مگر صَيْحَةً : چنگھاڑ وَّاحِدَةً : ایک فَاِذَا : پس اچانک هُمْ : وہ خٰمِدُوْنَ : بجھ کر رہ گئے
وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی (آتشین) سو وہ (اس سے) ناگہاں بجھ کر رہ گئے
ان کانت الا صیحۃ واحدۃ فاذاھم خمدون .‘ بس وہ سزا ایک چیخ کی آواز تھی جس سے وہ اسی دم بجھ کر رہ گئے ‘ یعنی مرگئے۔ عَلٰی قَوْمِہٖ حبیب کی قوم پر۔ مِنْم بَعْدِہٖ حبیب کے شہید ہونے کے بعد۔ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمآء یعنی آسمان سے فرشتوں کا کوئی لشکر ہم نے نہیں اتارا جیسے خندق اور بدر کے دن اتارا تھا ‘ بلکہ ایک فرشتہ کی ایک چیخ ہی ان کیلئے کافی ہوگئی۔ اس میں حبیب کی قوم کی تحقیر کا اظہار اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ وَمَا کُنَّا مُنْزِلِیْنَ یعنی ہماری یہ عادت اور دستور نہیں ہے کہ کسی قوم کو ہلاک کرنے کیلئے فرشتوں کی فوجیں بھیجیں ‘ اللہ کو اس کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ بات خندق اور بدر کے دن جو فرشتوں کو بھیجا گیا تھا ‘ وہ محض بشارت دینے اور رسول کی عظمت کا اظہار کرنے اور مسلمانوں کے دلوں کو تسکین دینے کیلئے تھا۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ الاَّ بُشْرٰی لَکُمْ وَلَتِطَمَءِنَّ قُلُوْبُکُمْ بِہٖ وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ۔ بعض اہل علم کے نزدیک وَمَا کُنَّا میں مَا موصولہ ہے اور جند سے مراد ہے آسمان سے سنگ باری ‘ یا طوفان ‘ یا شدید بارشیں یعنی جس طرح گذشتہ قوموں پر ہم نے عذاب کی فوج بھیجی ‘ ایسی عذابی فوج حبیب کی قوم پر نازل نہیں کی۔ بغوی نے لکھا ہے : حضرت جبرئیل نے شہر کے دروازے کے دونوں بازو پکڑ کر ایک چیخ ماری تھی ‘ یہ مفسروں کا قول ہے۔ خٰمِدُوْنَ یعنی سب یکدم مرگئے۔ خمود (بجھنا) سے مراد موت ہے ‘ کیونکہ زندگی حرارت غریزیہ سے وابستہ ہے۔ جب طبعی حرارت بجھ جاتی ہے ‘ موت ہوجاتی ہے۔ یحسرہ علی العبادہ ما یاتیھم من رسول الا کانوا بہ یستھزء ون . افسوس ایسے بندوں کے حال پر ‘ کبھی ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا جس کی انہوں نے ہنسی نہ اڑائی ہو۔
Top