Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 42
وَ خَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا یَرْكَبُوْنَ
وَخَلَقْنَا : اور ہم نے پیدا کیا لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ مِّثْلِهٖ : اس (کشتی) جیسی مَا : جو۔ جس يَرْكَبُوْنَ : وہ سوار ہوتے ہیں
اور ان کے لئے ویسی ہی اور چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں
وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون اور پیدا کیا ہم نے ان کے لیے اس کی مثل دوسری سواریاں بظاہر ذریت سے مراد لڑکے ہیں جو تجارتی سفر میں ساتھ جاتے ہیں ‘ یا بچے اور عورتیں مراد ہیں جن کو لوگ اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے ہیں۔ ذریت کا اطلاق عورتوں پر بھی ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت کو مقتول پا کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ تو لڑنے کی اہل نہ تھی۔ خالد سے جا کر کہہ دو کہ ذریت کو اور مزدوروں کو قتل نہ کرے۔ چونکہ عورت کو مقتول پا کر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا ‘ اسلئے ذریت سے مراد عورتیں ہی ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا تھا : ذریت کے ساتھ حج کرو ‘ ان کی روزی نہ کھاؤ اور نہ ان کی گردنوں میں پڑی ہوئی رسیاں چھوڑو (گلے میں پڑی ہوئی رسیوں سے مراد (فریضۂ حج ہے) یعنی عورتوں کو ساتھ لے کر حج کرو ‘ کذا فی النہایہ۔ الفلک سے مراد ہیں کشتیاں ‘ جہاز۔ ذریت کا خصوصی ذکر اسلئے کیا کہ کشتیوں میں جم کر اور استقرار کے ساتھ بیٹھ کر ان کیلئے نہایت دشوار ہوتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ الفلک سے مراد حضرت نوح کی کشی ہے اور ذریت سے مراد ہیں آباؤ اجداد۔ ذریت کا اطلاق جیسے اولاد پر ہوتا ہے ‘ اسی طرح آباء پر بھی ہوتا ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے : اگر کشتی نوح مراد ہو تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے نوح کی کشتی میں ان کے آباء کو اس وقت سوار کیا جب ساری ذریت ان کی پشت پر تھی۔ اس وقت ذریت کا خصوصی ذکر اسلئے کیا گیا کہ ایجاز اور اختصار عبارت کے ساتھ کامل منّت نہی اور تعجب کا پرزور اظہار ہوجائے۔ مِنْ مِثْلِہٖ یعنی عام کشتیوں کی طرح یا کشتی نوح کی طرح۔ مَا یَرْکَبُوْنَ اللہ نے سواریاں پیدا کردیں۔ سواریوں سے مراد ہیں اونٹ ریگستان کے جہاز ہوتے ہیں ‘ یا یہ مطلب ہے کہ کشتی نوح کی شکل کی اللہ نے دوسری کشتیاں اور ڈونگے پیدا کر دئیے۔
Top