Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 52
قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا١ؐٚۘ هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ
قَالُوْا : وہ کہیں گے يٰوَيْلَنَا : اے وائے ہم پر مَنْۢ بَعَثَنَا : کس نے اٹھا دیا ہمیں مِنْ : سے مَّرْقَدِنَا ۆ : ہماری قبریں ھٰذَا : یہ مَا وَعَدَ : جو وعدہ کیا الرَّحْمٰنُ : رحمن۔ اللہ وَصَدَقَ : اور سچ کہا تھا الْمُرْسَلُوْنَ : رسولوں
کہیں گے اے ہے ہمیں ہماری خوابگاہوں سے کس نے (جگا) اُٹھایا؟ یہ وہی تو ہے جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا
قالوا یویلنا من بعثنا من مرقد نام . وہ کہیں گے : ہائے ہماری کم بختی ! ہم کو ہماری خوابگاہ سے کس نے اٹھا دیا۔ یعنی کافر کہیں گے۔ یقینی ہونے کی وجہ سے مستقبل کی جگہ قالُوْا ماضی کا صیغہ استعمال کیا۔ ویل مصدر ہے ‘ اس سے فعل مشتق نہیں ہوتا۔ صاحب قاموس نے ویل کا معنی حلول شر لکھا ہے۔ بعض اہل تحقیق کا قول ہے کہ لغت میں اس معنی کیلئے ویل کا لفظ وضع نہیں کیا گیا ‘ بلکہ یہ جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔ امام احمد ‘ ترمذی ‘ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن حبان ‘ حاکم ‘ بیہقی ‘ ابن ابی الدنیا اور ہنّاد نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ویل جہنم کے اندر ایک وادی ہے جس میں کافر چالیس برس تک (نیچے کو) تہہ تک پہنچنے سے پہلے لڑھکتا چلا جائے گا (یعنی چالیس برس تک لڑھکتا ہوا تہہ میں پہنچے گا) ۔ سعید بن منصور ‘ ابن المنذر اور بیہقی نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا ہے : ویل جہنم کے اندر ایک وادی ہے جس میں دوزخیوں کا کچ لہو بہہ کر آتا ہے۔ یہ وادی اللہ کے رسول ﷺ کی تکذیب کرنے والوں کیلئے بنائی گئی ہے۔ ابن جریر نے حصرت عثمان بن عفان کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ویل دوزخ کے اندر ایک پہاڑ ہے۔ بزار نے ضعیف سند سے حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دوزخ میں ایک پتھر (یعنی پہاڑ) ہے جس کو ویل کہا جاتا ہے۔ اس پر عرفاء چڑھیں گے اور اتریں گے۔ مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا حضرت ابن عباس اور قتادہ نے فرمایا : کافروں کے اس قول کی وجہ یہ ہوگی کہ دونوں نفخوں کی درمیانی مدت ان پر سے عذاب اٹھا لیا جائے گا اور وہ سو جائیں گے۔ دوسری مرتبہ نفخ صور کے بعد جب اٹھیں گے تو یہ بات کہیں گے۔ معتزلہ عذاب قبر کے منکر ہیں ‘ ان کے قول کی تردید حضرت ابن عباس کی تفسیر سے ہو رہی ہے۔ معتزلہ نے اس آیت سے عذاب قبر کی نفی پر استدلال کیا ہے (کیونکہ آیت میں لفظ مرقد آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر مرنے کے بعد سو جاتا یا سوتے ہوئے آدمی کی طرح ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول سے اس کی تردید ہو رہی ہے ‘ کیونکہ آپ نے مدت خواب دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کو قرار دیا جو چالیس سال کو ہوگا۔ مترجم) اہل حقیقت کہتے ہیں کہ کافر جب جہنم کے گوناگوں عذاب کو دیکھیں گے تو عذاب جہنم کے مقابلہ میں ان کو قبر کا عذاب ‘ خواب کی طرح محسوس ہوگا۔ اس وقت کہیں گے کہ ہم کو خواب سے کس نے اٹھایا۔ ھذا ما وعد الرحمن وصدق المرسلون . یہ وہی ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔ کافروں کی طرف سے اس وقت وجود قیامت (اور صداقت انبیاء) کا اقرار ہے ‘ لیکن بےسود۔ بعض نے کہا : یہ قول ملائکہ کا ہوگا ‘ ملائکہ کافروں کے کلام کا جواب دیں گے۔ مجاہد نے کہا : کافروں کی بات کا یہ جواب مؤمن دیں گے۔ کلام مذکور میں طرز جواب اختیار نہیں کیا ‘ اس سے مقصود ہوگا ان کو کفر کی یادددہانی کرنی اور اس بات پر تنبیہ کرنی کہ زندہ کرکے اٹھانے والا کون ہے۔ یہ سوال بیکار ہے ‘ اصل اہمیت اس کی ہے کہ وہ یہ دریافت کریں کہ کیا ان کو زندہ کر کے اٹھا دیا گیا ؟ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے جو تم سے دوبارہ زندہ کرنے کا وعدہ کیا تھا ‘ وہ اس نے پورا کردیا اور پیغمبروں نے جو کچھ تم سے کہا تھا ‘ وہ سچ کہا تھا۔ واقعی تم کو زند کر کے اٹھا دیا گیا ‘ تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تم کو نیند سے جگایا گیا ہے۔ یہ بعث اکبر ہے جو کثیر ہولناکیوں کا حامل ہے۔ کس نے زندہ کیا ‘ یہ سوال فضول ہے۔
Top