Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں تو اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں تو کیا یہ سمجھتے نہیں؟
ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق افلا یعقلون . اور ہم جس کی زیادہ عمر کردیتے ہیں تو اس کو طبعی حالت میں الٹا کر دیتے ہیں۔ سو کیا یہ لوگ (اتنا بھی) نہیں سمجھتے ؟ یعنی جس کی عمر ہم دراز کرتے ہیں ‘ اس کو سرنگوں کردیتے ہیں۔ سرنگوں کردینے سے یہ مراد ہے کہ شروع میں وہ برابر روبہ ترقی تھا ‘ قوت مسلسل بڑھ رہی تھی ‘ پھر کمزوری آتی رہی اور مرنے کے وقت تک ضعف میں اضافہ ہوتا رہا۔ اَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ استفہام انکاری ہے ‘ یعنی ان کو اتنا جاننا اور سمجھنا چاہئے کہ جو خدا اتنے عظیم الشان تغیر پر قادر ہے ‘ وہ آنکھوں کو نابود کرنے اور صورتوں کو مسخ کرنے پر بھی قادر ہے ‘ فرق صرف یہ ہے کہ یہ تغیرات تدریجی ہوتے ہیں (اور اگر مسخ ہوتا تو یکدم ہوتا) ۔ بغوی نے حسب قول کلبی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کفار مکہ شاعر قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد جو کلام بناتے ہیں ‘ یہ شعر ہیں۔ اس کی تردید میں آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top