Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 21
وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَكَيْفَ : اور کیسے تَاْخُذُوْنَهٗ : تم اسے لوگے وَقَدْ : اور البتہ اَفْضٰى : پہنچ چکا بَعْضُكُمْ : تم میں ایک اِلٰى بَعْضٍ : دوسرے تک وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا مِنْكُمْ : تم سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے
و کیف تاخذونہ اور کونسی وجہ ہے کہ اس کو لے لو۔ یہ بھی انکاری سوال ہے یعنی جب مہر مقرر ہوچکا اور ادا کرنا واجب ہوگیا تو پھر واپس لینے کی کوئی وجہ نہیں۔ و قد افضیٰ بعضکم الی بعض امام شافعی کے نزدیک افضاء سے کنایۃً جماع مراد ہے اسی لیے انہوں نے آیت کا ترجمہ کیا ہے تم جماع کرچکے ان سے۔ امام شافعی کے دو قول ہیں ظاہر ترین قول یہ ہے کہ صرف خلوت سے مہر پختہ نہیں ہوتا ہے اگر جماع نہ کیا ہو اسی بنا پر انہوں نے فرمایا : کہ اگر خلوت صحیحہ ہوگئی اور جماع نہ کیا مگر جماع دے کوئی طبعی اور شرعی مانع نہ تھا پھر طلاق دیدی تو نصف مہر کی ادائیگی واجب ہے امام اعظم (رح) اور امام احمد (رح) نے فرمایا : خلوت صحیحہ سے (پورا) مہر پختہ ہوجاتا ہے خواہ جماع نہ کیا ہو۔ افضاء کا معنی ہے فضاء یعنی صحراء میں داخل ہوجانا یہاں فضاء میں داخل ہونے سے مراد ہے خالی مکان میں (جہاں کوئی روک ٹوک نہ ہو) داخل ہوجانا۔ امام مالک کے نزدیک بھی خلوت صحیحہ بغیر جماع کے موجب مہر ہوجاتی ہے بشرطیکہ خلوت کی مدت طویل ہو۔ ابن قاسم نے طول مدت کی حد ایک سال بیان کی ہے۔ امام شافعی کے قول کی دلیل یہ آیت ہے : وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ یعنی اگر تم نے عورتوں کا مہر مقرر کردیا تھا اور جماع سے پہلے طلاق دیدی تو مقرر کردہ مہر کا آدھا لازم ہے 3 ؂۔ ہم کہتے ہیں یہ امر قطعی ہے کہ مس سے مجازی معنی مراد ہے مس کا حقیقی معنی تو جماع نہیں ہے (بلکہ مس کا لفظ عام ہے اور جماع کا معنی خاص) عام لفظ بول کر شافعی نے خاص معنی مراد لیا ہے اور یہ مجاز ہے لیکن لفظ مس سے خلوت بھی بطور مجاز مراد لی جاسکتی ہے کیونکہ خلوت مس کا سبب ہے اور مس خلوت کا نتیجہ ہے مسبب بول کر سبب مراد لینا مجاز کا عام ضابطہ ہے۔ عام بول کر خاص مراد لینے سے تو تسمیۃ السبب باسم المسبب اولیٰ ہے لہٰذا آیت میں خلوت مراد ہے (رہا نصف یا کل مہر کا وجوب تو ہم کل مہر کے وجوب کے قائل ہیں کیونکہ) قرن اوّل کا اجماع ہے کہ اگر خلوت صحیحہ ہوگئی خواہ جماع نہ ہوا ہو پھر بھی کل مہر واجب ہے۔ شیخ ابوبکر رازی نے الاحکام میں اس کو نقل کیا ہے اور طحاوی نے اس پر صحابہ کا اجماع ہونا بیان کیا ہے ابن منذر نے کہا کہ یہی قول حضرات عمر و علی و زید بن ثابت و عبد اللہ بن عمر و جابر و معاذ بن جبل و ابوہریرہ ؓ کا ہے۔ بیہقی نے بروایت احنف بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ نے فرمایا : کہ اگر دروازہ بند کرلیا اور پردہ چھوڑ دیا تو عورت کے لیے پورا مہر لازم ہوگیا اور عدت بھی ضروری ہوگئی۔ یہ روایت منقطع ہے۔ موطا میں یحییٰ بن سعد کی وساطت سے سعید بن مسیب کی روایت آئی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : جب پردے چھوڑ دیئے گئے (یعنی کامل خلوت ہوگئی) تو مہر واجب ہوگیا۔ عبد الرزاق نے مصنف میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بھی حضرت عمر ؓ کا قول اسی طرح نقل کیا ہے۔ دارقطنی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ٗ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جب دروازہ بند کردیا اور پردہ چھوڑ دیا اور ستر کو دیکھ لیا تو شوہر پر مہر واجب ہوگیا۔ ابو عبیدہ نے کتاب النکاح میں زرارہ بن اوفیٰ کا قول نقل کیا ہے کہ خلفاء راشدین کا یہ فیصلہ ہے کہ جب دروازہ بند کردیا اور پردہ چھوڑ دیا تو مہر واجب ہوگیا اور عدت لازم ہوگئی۔ دار قطنی نے اس مبحث کی ایک مرفوع حدیث محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان کی روایت سے مرسلاً نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے عورت کا دوپٹہ کھول دیا اور اسکی طرف دیکھ لیا تو مہر واجب ہوگیا جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابن لہییہ ضعیف ہے لیکن ابن جوزی کا بیان ہے کہ علماء نے ابن لہیعہ کی روایت کو لیا ہے ابو داؤد نے مراسیل میں ابن ثوبان کی اس روایت کو نقل کیا ہے اس مسند کے تمام راوی ثقہ ہیں اور مرسل ہمارے نزدیک قابل استدلال ہے۔ مذہب شافعی کی تائید میں حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ کے بعض اقوال بھی روایات میں آئے ہیں لیکن یہ روایات صحیح نہیں ہیں۔ بیہقی نے بروایت شعبی حضرت ابن مسعود کی طرف سے اس قول کی نسبت کی ہے کہ اگر کسی نے کسی عورت سے خلوت کرلی ہو اور جماع نہ کیا ہو تو عورت کا نصف مہر لازم ہوجاتا ہے یہ روایت منقطع ہے۔ شافعی نے حضرت ابن عباس کا بھی یہ قول نقل کیا ہے لیکن اس کی سند میں ضعف ہے۔ ابن ابی شیبہ اور بیہقیء نے دوسری سند سے بھی یہ قول نقل کیا ہے مگر وہ سند بھی صحیح نہیں ہے۔ و اخذن منکم میثاقا غلیظا اور تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں اس جملہ کا عطف افضیٰ پر ہے۔ حسن، ابن سیرین، ضحاک اور قتادہ کے نزدیک پختہ عہد سے مرادعورت کے ولی کا یہ قول ہے کہ میں نے اس عورت کو تیرے نکاح میں ان شرائط و حقوق کے بموجب دیا جو اللہ نے عورتوں کے لیے مردوں پر رکھے ہیں یعنی ضابطہ اور دستور کے مطابق نکاح میں رکھنا یا خوبی کے ساتھ آزاد کردینا۔ شعبی اور عکرمہ نے کہا پختہ عہد سے وہ مضمون مراد ہے جو حدیث مسلم میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو تم نے ان کو بامان خدا لیا ہے اور ان کی شرمگاہوں کو بحکم خدا اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ (رواہ جابر) ابن جریر نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ نے عورتوں کے لیے تم پر کچھ بندشیں لگائی ہیں گویا عورتوں نے تم سے عہد لیا ہے (کہ ان بندشوں کی پابندی کریں گے) ۔ ابن سعد نے محمد بن کعب قرظی کا بیان نقل کیا ہے کہ (دور جاہلیت میں دستور تھا کہ) جب کوئی شخص مرجاتا تھا تو اس کی بیوی کا حقدار اس کا (بڑا) بیٹا ہوتا تھا چاہے وہ خود اس سے نکاح کرلے بشرطیکہ وہ عورت اس لڑکے کی ماں نہ ہو اور چاہے کسی دوسرے سے اس عورت کا نکاح کرادے ابو قیس بن سلمہ کا انتقال ہوا تو (دستور جاہلیت کے مطابق) ابو قیس کا بیٹا محصن باپ کی بیوی سے نکاح کا حقدار ہوگیا اور ابو قیس کی بیوی کو ترکہ میں کوئی حصہ اس نے نہیں دیا۔ عورت نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اب تو و اپس چلی جا امید ہے کہ تیرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوگا۔ ابن ابی حاتم، فریانی اور طبرانی نے حضرت عدی بن ثابت کی وساطت سے یہ قصہ ایک انصاری کی روایت سے نقل کیا ہے اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ابو قیس بن سلمہ کا انتقال ہوگیا ابو قیس بڑا نیک انصاری تھا اس کے بیٹے نے ابو قیس کے مرنے کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرنا چاہا عورت نے قیس سے کہا میں تو تجھے اپنا بیٹا جانتی ہوں اور تو قوم کے نیک لوگوں میں سے بھی ہے (پھر نکاح کیسا) اس کے بعد عورت نے حاضر ہو کر رسول اللہ کو واقعہ کی اطلاع دیدی حضور ﷺ نے فرمایا : اب تو اپنے گھر چلی جا (اور حکم کا انتظار کر) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top