Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ
: حرام کی گئیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اُمَّھٰتُكُمْ
: تمہاری مائیں
وَبَنٰتُكُمْ
: اور تمہاری بیٹیاں
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
وَعَمّٰتُكُمْ
: اور تمہاری پھوپھیاں
وَخٰلٰتُكُمْ
: اور تمہاری خالائیں
وَبَنٰتُ الْاَخِ
: اور بھتیجیاں
وَبَنٰتُ
: بیٹیاں
الْاُخْتِ
: بہن
وَاُمَّھٰتُكُمُ
: اور تمہاری مائیں
الّٰتِيْٓ
: وہ جنہوں نے
اَرْضَعْنَكُمْ
: تمہیں دودھ پلایا
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
مِّنَ
: سے
الرَّضَاعَةِ
: دودھ شریک
وَ
: اور
اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ
: تمہاری عورتوں کی مائیں
وَرَبَآئِبُكُمُ
: اور تمہاری بیٹیاں
الّٰتِيْ
: جو کہ
فِيْ حُجُوْرِكُمْ
: تمہاری پرورش میں
مِّنْ
: سے
نِّسَآئِكُمُ
: تمہاری بیبیاں
الّٰتِيْ
: جن سے
دَخَلْتُمْ
: تم نے صحبت کی
بِهِنَّ
: ان سے
فَاِنْ
: پس اگر
لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ
: تم نے نہیں کی صحبت
بِهِنَّ
: ان سے
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَحَلَآئِلُ
: اور بیویاں
اَبْنَآئِكُمُ
: تمہارے بیٹے
الَّذِيْنَ
: جو
مِنْ
: سے
اَصْلَابِكُمْ
: تمہاری پشت
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَجْمَعُوْا
: تم جمع کرو
بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ
: دو بہنوں کو
اِلَّا مَا
: مگر جو
قَدْ سَلَفَ
: پہلے گزر چکا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
حرمت علیکم امھتکم تمہاری مائیں تمہارے لیے حرام کردی گئی ہیں بطور عموم مجاز ماؤں سے مراد ہیں باپ دادا یا ماں اور نانی نانا کی طرف سے تمام اصولی عورتیں (جیسے ماں، دادی، پر دادی، نانی، پر نانی وغیرہ) بعض علماء نے کہا کہ لفظ ام کا لغوی معنی ہے اصل۔ قاموس میں ہے : ام کل شی اصلہ ہر چیز کی ماں اس کی اصل کو کہتے ہیں۔ ام القریٰ مکہ۔ ام الکتاب سورة فاتحہ یا لوح محفوظ۔ اس تحقیق پر لفظ امہات باپ اور ماں کی طرف سے تمام جدات کو خواہ کتنا ہی اونچا رشتہ ہو لغۃً باجماع علماء شامل ہے۔ و بنٰتکم اور تمہاری بیٹیاں۔ بنات کا لفظ بھی بطور عموم تمام فروع کو شامل ہے پوتیاں اور نواسیاں نیچے تک بالاجماع اس لفظ میں داخل ہیں۔ و اخواتکم اور تمہاری بہنیں حقیقی ہوں یا علاتی یا اخیافی۔ و عمٰتکم و خالتکم اور تمہاری پھوپھیاں اور خالائیں لفظ عمان کے اندر باپ کی حقیقی اور علاتی اور اخیافی بہنیں داخل ہیں۔ اسی طرح خالات کے اندر ماں کی حقیقی اور علاتی اور اخیافی بہنیں مندرجۂ ہیں۔ یہ فیصلہ اجماعی ہے۔ انہی کے ذیل میں باجماع علماء باپ اور ماں کی پھوپھیاں اور خالائیں اور دادا دادی نانا نانی کی پھوپھیاں اور خالائیں اور اسی طرح تمام ذکور و اناث اصول کی پھوپھیاں اور خالائیں داخل ہیں گویا بطور عموم مجاز اصل بعید کی تمام فروع قریبہ کو حکم حرمت شامل ہے لیکن اصل بعید کی فرع بعید بالاجماع جائز ہے جیسے چچا یا پھوپھی یا خالہ یا ماموں کی بیٹیاں۔ و بنت الاخ و بنت الاخت اور بھائی بہن کی بیٹیاں یعنی بھائی اور بہن کی تمام فروع لڑکیاں پوتیاں نواسیاں نیچے تک۔ بھائی اور بہن کا لفظ عام ہے حقیقی ہوں یا علاتی یا اخیافی۔ اللہ نے نسبی محرمات سات بیان فرمائیں جن کا خلاصہ یہ ہوا کہ چار اصناف کی عورتیں حرام ہیں نکاح کرنے والے کی اصل نکاح کرنے والے کی فرع۔ اصل قریب کی فرع خواہ قریب ہو یا بعید۔ اصل بعید کی فرع قریب۔ اس سے بھی زیادہ مختصر الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ان دو مردو عورت کا باہم نکاح حرام ہے جن میں باہم رشتہ ولادت ہو یا ایک دوسرے کے باپ یا ماں کی فرع ہو۔ وامھتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور دودھ شریک بہنیں باجماع علماء رضاعی پھوپھیاں خالائیں بھتیجیاں بھانجیاں بھی حرام ہیں اور نسب کی وجہ سے جس سے نکاح حرام ہے رضاعت کی وجہ سے بھی اس سے نکاح درست نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے : رضاعت سے (بھی) وہی حرام جو نسب سے حرام ہے۔ دوسری روایت میں نسب کی جگہ ولادت کا لفظ آیا ہے۔ (رواہ الشیخان البخاری والمسلم) یہ حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے مذکور ہے حضرت علی کی روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ کو اپنے چچا حمزہ کی لڑکی (سے نکاح کرنے) کی خواہش ہے وہ قریش میں حسین ترین عورت ہے فرمایا : کیا تم کو علم نہیں ہے کہ حمزہ میرے رضاعی بھائی ہیں اور اللہ نے جس نسبی رشتہ میں نکاح حرام کیا ہے اسی رضاعی رشتہ میں بھی حرام کیا ہے۔ (رواہ مسلم) حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ میرا رضاعی چچا آیا اور میرے پاس اندر آنے کی اس نے اجازت طلب کی۔ میں نے اجازت دینے سے انکار کردیا تاوقتیکہ رسول اللہ سے دریافت نہ کرلوں اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے میں نے مسئلہ دریافت کیا فرمایا : وہ تیرا چچا ہے اس کو اجازت دیدے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے تو عورت نے دودھ پلایا تھا مرد نے نہیں پلایا فرمایا : بلاشبہ وہ تیرا چچا ہے تیرے پاس اندر آسکتا ہے۔ یہ واقعہ پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ (متفق علیہ) حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف فرما تھے کہ میں نے ایک مرد کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں داخلہ کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کوئی شخص آپ ﷺ کے گھر کے اندر داخلہ کی اجازت کا طلبگار ہے آپ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کے رضاعی چچا کے متعلق فرمایا : میرے خیال میں فلاں شخص ہوگا میں نے (یہ سن کر) اپنے رضاعی چچا کا نام لے کر کہا یا رسول اللہ ﷺ اگر فلاں شخص زندہ ہوتا تو کیا وہ (میرے پاس) اندر آسکتا تھا ؟ فرمایا : ہاں جو حرمت ولادت (کے رشتہ) سے ہوتی وہی رضاعت (کے رشتہ) سے ہوتی ہے۔ (رواہ البغوی) فائدہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک کے نزدیک رضاعت تھوڑی ہو یا بہت (چاہے ایک چسکی ہو) وہی حرمت پیدا کردیتی ہے جو نسب سے ہوتی ہے کیونکہ یہ آیت مطلق ہے نیز حدیث : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب بھی مطلق ہے (آیت اور حدیث دونوں میں کمی زیادتی کی کوئی قید نہیں ایک روایت میں امام احمد کا قول بھی یہی آیا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : رضاعت سے حرمت صرف اس وقت ہوگی جب بھوک کی حالت میں پانچ مختلف جدا جدا اوقات میں پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر دودھ پیا ہو ایک روایت میں امام احمد کا قول بھی یہی آیا ہے ایک اور روایت میں امام احمد بجائے پانچ مرتبہ کے تین مرتبہ کے قائل ہیں۔ ابو ثور، ابن المنذر، داؤد اور ابو عبید کا قول بھی یہی ہے۔ تین مرتبہ کی تعیین کی وجہ حضرت عائشہ کی روایت کردہ حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ایک چسکی اور دو چسکیاں حرمت کی موجب نہیں۔ ام فضل کی مرفوع روایت میں چسکی اور دو چسکی کی جگہ ایک بار پینا اور دو بار پینا کا لفظ آیا ہے۔ بعض روایات میں املاجۃ واملاجتان کا لفظ آیا ہے مطلب ایک ہی ہے 1 ۔ احمد، نسائی، ابن حبان اور ترمذی نے یہ حدیث بحوالہ حضرت عبد اللہ بن زبیر بوساطت حضرت زبیر ؓ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بیان کی ہے لیکن طبری نے اس کو مضطرب کہا ہے کیونکہ حضرت عبد اللہ نے حضرت زبیر کی وساطت سے رسول اللہ کا فرمان نقل کیا ہے اور بعض روایات میں عبد اللہ عن عائشہ عن رسول اللہ اور بعض بلا واسطہ عن عبد اللہ عن رسول اللہ آیا ہے ابن حبان نے تینوں اسناد کی وجہ جامع اس طرح بیان کی ہے کہ ممکن ہے حضرت ابن زبیر نے اپنے باپ سے بھی سنا ہو اور حضرت عائشہ سے بھی اور خود حضور ﷺ کی زبان مبارک سے بھی۔ بخاری نے لکھا ہے کہ یہ حدیث عن ابن الزبیر عن عائشہ صحیح ہے بیچ میں حضرت زبیر کی وساطت صرف محمد بن دینار کے قول میں ہے اور اس میں ضعف ہے اور اختلاف بھی ہے بعض روایات میں حضرت عائشہ کا ذکر نہیں ہے اور سند میں ارسال ہے لیکن مرسل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نسائی نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کی ہے۔ ابن عبد البر نے کہا یہ حدیث مرفوعاً صحیح نہیں ہے۔ علماء حنابلہ نے اسی حدیث کو اپنے مسلک کی تائید میں پیش کیا ہے کیونکہ حدیث میں صرف ایک یا دو بار دودھ پینے کو غیر محرم فرمایا ہے لہٰذا تین بار پینے سے حرمت ہوجائے گی۔ جو لوگ کم سے کم پانچ مرتبہ دودھ پینے کو موجب حرمت قرار دیتے ہیں ان کی دلیل حضرت عائشہ کی حدیث ہے امّ المؤ منین نے فرمایا : کہ قرن میں عشر رضعات معلومات نازل ہوا تھا پھر خمس معلومات سے اس کو منسوخ کردیا گیا اور رسول اللہ کی وفات ہوئی تو قرآن میں اسی کو پڑھا جاتا تھا۔ ترمذی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن میں عشر رضاعت نازل ہوا تھا پھر اس سے پانچ منسوخ کردئیے گئے اور پانچ رضعات رہ گئے اور رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو اس وقت تک امر یونہی تھا (یعنی اسی کو پڑھا جاتا تھا) ہم کہتے ہیں کہ قرآن کی نص متواتر کے مقابلہ میں حدیث آحاد ناقابل وقعت ہے اور تعارض کے وقت احتیاطاً تحریم کو ترجیح دی جائے گی اس کے علاوہ حضرت عائشہ کی حدیث اگرچہ سند کے لحاظ سے صحیح ہے مگر واقع میں متروک ہے ورنہ لازم آئے گا کہ حضور کی وفات تک قرآن میں خمس معلومات کی قراءت کی جاتی تھی 2 ۔ اس صورت میں روافض کی بات صحیح ماننی پڑے گی کہ رسول اللہ کے بعد قرآن کا بہت حصہ ضائع ہوگیا حالانکہ یہ کلمہ کفر ہے اس سے آیت : وَ اِنَّا لَہُ لحافظون کی تکذیب لازم آتی ہے۔ اگر حضرت عائشہ ؓ کے قول کی توجیہ اس طرح کی جائے کہ رسول اللہ کی وفات ہونے سے مراد ہے 3 ۔ حضور ﷺ کی وفات کا زمانہ قریب آجانا تو مطلب اس طرح ہوجائے گا کہ عشر معلومات کا نسخ تو خمس معلومات سے ہوگیا تھا پھر حضور کی وفات سے کچھ تھوڑا پہلے خمس معلومات بھی منسوخ ہوگیا یہی صحیح ہے حضرت ابن عباس ؓ سے جب کہا گیا کہ لوگ کہتے ہیں ایک بار دودھ پینے سے حرمت نہیں ہوتی تو فرمایا پہلے ایسا تھا پھر یہ منسوخ کردیا گیا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : امر رضاعت آخر اس طرف لوٹ آیا کہ تھوڑی رضاعت ہو یا بہت سب موجب حرمت ہے حصرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : قلیل رضاعت بھی موجب حرمت ہے حضرت ابن عمر ؓ سے کہا گیا کہ حضرت ابن زبیرتو فرماتے ہیں کہ ایک دو بار پینے سے حرمت نہیں ہوتی فرمایا : اللہ کا فیصلہ ابن زبیر کے فیصلے سے بہتر ہے اللہ نے فرمایا ہے : و امھاتکم اللّٰاتی ارضعنکم (یعنی اس آیت میں ایک دو بار پینے کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا) اگر حضرت عائشہ کے قول : تَوَفّٰی رَسُوْلُ اللہ وَ ھِیَ فِیْمَا یَقْرَا ءُ کا مطلب یہ بیان کیا جائے کہ وفات کے وقت پانچ رضعات کا حکم قراءت میں موجود تھا تو یہ مطلب غلط ہے کیونکہ قراءت کا تعلق الفاظ سے ہوتا ہے حکم سے نہیں ہوتا۔ مسئلہ مدت شیر خوارگی کے بعد دودھ پینا موجب حرمت نہیں کیونکہ اس سے نہ تو لید ہوتی ہے نہ نمو۔ مدت رضاعت کے بعددودھ پلانے والی کو ماں نہیں کہا جاتا داؤد (ظاہری) کے نزدیک ہر زمانہ میں شیر خوارگی سے حرمت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ابو حذیفہ کی بیوی سہلہ بنت سہیل نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ سالم (جو ابو حذیفہ کے حلیف ہیں) کے آنے سے میں ابو حذیفہ کے چہرہ پر کچھ ناگواری محسوس کرتی ہوں فرمایا : سالم کو تو پانچ بار دودھ پلا دے تو اس کی محرم ہوجائے گی۔ (رواہ الشافعی) مسلم وغیرہ نے اس حدیث میں تعداد کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ باجماع علماء یہ حدیث منسوخ ہے رسول اللہ کا یہ فرمان روایۃً صحیح ہے کہ صرف وہ رضاعت موجب حرمت ہے جو پستان سے ہو اور انتڑیوں کو پھاڑنے والی ہے۔ حضرت ام سلمہ کی روایت سے یہ حدیث ترمذی نے بیان کی ہے اور اس کو صحیح کہا ہے حضرت ابن مسعود کی روایت سے ابوداؤد نے رسول اللہ کی ایک حدیث بیان کی ہے کہ صرف وہی رضاعت موجب حرمت ہے جس سے گوشت پیدا ہو اور ہڈیوں میں نمو ہو۔ صحیحین میں حضرت عائشہ کی روایت آئی ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ تشریف لائے اس وقت میرے پاس ایک آدمی موجود تھا فرمایا : عائشہ یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا میرا رضاعی بھائی ہے۔ فرمایا : عائشہ اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا کرو رضاعت (وہی موجب حرمت ہے جو) بھوک سے ہو (یعنی دودھ پینے کے زمانہ میں ہو) ۔ مسئلہ موجب حرمت رضاعت کی مدت دو سال ہے امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی، امام احمد، امام مالک، سعید بن مسیب، عروہ اور شعبی کا یہی قول ہے دار قطنی نے حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول نقل کیا ہے ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت علی کی طرف بھی اسی قول کی نسبت کی ہے۔ امام مالک کے تین قول اور بھی مروی ہیں ایک قول میں دو سال ایک ماہ دوسری روایت میں ایک سال دو ماہ آئے ہیں اور تیسری روایت میں کوئی محدود مدت نہیں ہے جب تک بچہ حاجتمند ہو وہی مدت رضاعت ہے۔ امام اعظم (رح) کے نزدیک دو سال چھ ماہ اور امام زفر کے نزدیک تین سال مدت رضاعت ہے۔ اوّل قول کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے : وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَولَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ اس آیت میں پوری مدت رضاعت دو سال بیان کی ہے پوری کے بعد زیادہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک اور آیت میں : وَ فِصَالُہٗ فِی عَامَیْں صاف فرمایا ہے ایک تیسری آیت ہے : وَ حَمْلُہٗ وَ فِصَالُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا حمل اور فصال کی مدت تیس ماہ ہے اور چونکہ حمل کی مدت (کم سے کم) چھ ماہ ہے اس لیے دودھ پلانے کی مدت دو سال ہی باقی رہتی ہے۔ رسول اللہ کا بھی ارشاد ہے کہ رضاعت (معتبر) نہیں مگر وہی جو دو سال کے اندر ہو۔ دار قطنی نے یہ حدیث حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ صرف ہیثم بن جمیل نے اس حدیث کو مرفوع کیا ہے۔ مگر ہیثم ثقہ اور حافظ تھا۔ احمد اور عجلی نے بھی اس کو ثقہ کہا ہے ابن عدی نے کہا یہ غلطی کردیتا تھا سعید بن منصور نے ابن عیینہ کی روایت سے اس کو موقوفاً بیان کیا ہے (مرفوع نہیں کیا) امام اعظم (رح) کی دلیل یہ ہے کہ آیت حَمْلُہٗ وَ فِصَالُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا میں حمل اور فصل دو چیزوں کی مدت 30 ماہ بیان کی ہے لہٰذا دونوں میں سے ہر ایک کی مدت پوری 30 ماہ بیان کی ہے لہٰذا دونوں میں سے ہر ایک کی مدت پوری 30 ماہ ہونی چاہئے جیسے اگر کسی کا دو آدمیوں پر قرض ہو اور مدت ادا اس کی 30 ماہ ہو تو ہر مقروض کے اداء قرض کی مدت 30 ماہ کامل قرار دی جاتی ہے (ایسا نہیں ہوسکتا کہ 15 ماہ ایک کے لیے اور 15 ماہ دوسرے کے لیے ہو) لیکن مدت حمل کو (باوجودیکہ آیت سے 30 ماہ مستنبط ہوتی ہے ہم نے) دو سال قرار دیا ہے کہ کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کے قول میں یہی آیا ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ کے اندر دو سال سے زیادہ نہیں رہتا اگرچہ تکلے کے دمر کہ کے برابر ہو دوسری روایت میں ہے اگرچہ تکلے کے سایہ کے برابر ہو یہ قول اگرچہ حضرت عائشہ ؓ کے ہے لیکن مدت کی حد بندی صرف رائے سے نہیں ہوسکتی سماع کے بغیر تعیین مدت ممکن نہیں (معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ سے سن کر ہی یہ تحدید مدت کی ہے) رہی مدت فصال تو وہ ظاہر آیت کے مطابق (30 ماہ) ہی رہے گی۔ یہ دلیل چند وجوہ سے غلط ہے : (1) رسول اللہ نے فرمایا : کہ دو سال کے بعد رضاعت (کا حکم) نہیں آیت میں آیا ہے۔ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃ یہ دونوں مدت رضاعت کی (30 ماہ سے کم کرکے) دو سال میں تحدیدکررہی ہیں پھر یہ کہنا کہ حضرت عائشہ کے قول نے مدت حمل کی تنقیص کردی قابل ترجیح نہیں۔ لفظ ثلاثون شھرا میں حقیقت و مجاز کا اجتماع لاز م آئے گا حمل کے پیش نظر 24 ماہ (مجازاً ) مراد ہوں گے اور مدت رضاعت کے لحاظ سے 30 ماہ (حقیقۃً ) لفظ ثلاثین سے 24 مراد لینا پڑے گا حالانکہ اسماء عد دکو بول کر دوسرا عدد مجازاً مراد نہیں لیا جاسکتا۔ اسم عدد کا درجہ وہی ہے جو اسم معین کا اپنے معین شخص کے لیے ہے بکثرت اہل تحقیق نے اس کی صراحت کی ہے۔ امام اعظم کے قول کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ دو سال تک اعضا کا نمو دودھ سے ہوتا رہتا ہے اس کے بعد غذا بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مزید اتنی مدت کی ضرورت ہے کہ بچہ تبدیل غذا کا عادی ہوجائے۔ امام مالک نے اس اضافی مدت کی کوئی حد بندی نہیں کی۔ امام زفر نے ایک سال کی تعیین کی ہے تاکہ چاروں فصلیں گذر جائیں اور امام صاحب نے ایک ششماہی مقرر کی کیونکہ یہی حمل کی کم سے کم مدت ہے ہم کہتے ہیں کہ دو سال کے اندردودھ کے علاوہ کوئی اور غذا دینے کی شریعت میں ممانعت نہیں کی ہے پھر دو سال سے زیادہ مدت مقرر کرنے کی کیا ضرورت ہے دو سال ختم ہونے سے پہلے بھی بچہ دودھ کے ساتھ دوسری غذا کا عادی بن سکتا ہے۔ ابن ہمام اور طحاوی نے صاحبین کے قول کو ہی اختیار کیا ہے۔ و امھٰت نسائکم اور تمہاری عورتوں کی مائیں۔ یہ لفظ تمام جدات کو شامل ہے تمام دور اور قریب کی دادیاں اور نانیاں اس میں داخل ہیں اور ازروئے حدیث بیبیوں کی رضاعی مائیں اور نانیاں دادیاں بھی نسبی کے ساتھ شامل ہیں۔ جن عورتوں سے ملکیت یا شبہ ملکیت کی وجہ سے قربت کرلی گئی ہو۔ باجماع علماء ان کی ماؤں کا بھی یہی حکم ہے۔ امام اعظم (رح) کے نزدیک مزنیہ (جس عورت سے زناء کیا گیا ہو) کی امہات بھی اسی حکم میں داخل ہیں اور اگر کسی اجنبی عورت کو شہوت کے ساتھ چھولیا تو اس کی امہات بھی مزنیہ کی امہات کی طرح حرام ہوجائیں گی۔ و ربائبکم اور تمہاری پروردہ لڑکیاں۔ ربائب ربیبۃ کی جمع ہے ربیب وہ بچہ جو پہلے شوہر کا ہو اور ماں کے ساتھ چلا آئے (کڈھیلڑ پرکٹا) لفظ ربائب میں بعموم مجاز ازروئے قیاس باجماع علماء بیویوں کی تمام پوتیاں، نواسیاں خواہ قریبی ہوں یا دور کی داخل ہیں اور ان عورتوں کی نسل کو بھی یہ لفظ شامل ہے جن سے ملکیت یا شبہ ملکیت کی وجہ سے قربت کرلی ہو۔ بلکہ امام صاحب کے نزدیک تو مزنیہ کی تمام نسوانی نسل کا یہی حکم ہے۔ التی فی حجورکم جو تمہاری گود میں (یعنی زیر پرورش) ہوں بالاجماع یہ شرط احترازی نہیں (کہ اگر ربائب زیر پرورش نہ ہوں تو حلال ہوجائیں) بلکہ عام طور پر چونکہ ایسا ہوتا ہی ہے کہ یتیم لڑکیاں سوتیلے باپوں کی پرورش میں آجاتی ہیں اس لیے اس قید کو ذکر کردیا۔ داؤد کے نزدیک قید احترازی ہے یعنی جو ربائب زیر پرورش نہ ہوں وہ حلال ہیں عبد الرزاق اور ابن ابی حاتم نے صحیح اسناد کے ساتھ حضرت علی کا قول بھی یہی بیان کیا ہے اگر روایۃً حضرت علی کا یہ قول ثابت ہوجائے تو پھر مطلق ربائب کی حرمت پر اجماع صحابہ ؓ ثابت نہ ہوگا بلکہ اجماع سے قرن اوّل کے بعد کا اجماع مراد ہوگا۔ من نسائکم التی دخلتم بھن ربائب ان عورتوں کی بیٹیاں ہوں جن سے تم نے قربت کرلی ہو۔ الّٰتِی دَخَلتُمْ بِھِنَّ نساء کی صفت ہے اور باجماع علماء قید احترازی ہے (یعنی جن عورتوں سے قربت نہ کی ہو ان کی بیٹیاں حرام نہ ہوں گی) یہ دونوں نسائکم کی صفت نہ ہوگی کیونکہ دونوں کے عامل مختلف ہیں اور ایک معمول پر دو مختلف عاملوں کا عمل نہیں ہوسکتا صرف فراء کا ایک قول اس کا مجوز ہے۔ ترکیب عبارت من نسائکم کا تعلق فعل محذوف سے ہے اور فی حجورکم اسی سے متعلق ہے اس وقت اوّل الذکر الّٰتی کا یہ صلہ ہوگا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فی حجورکم کی ضمیر سے من نسائکم حال ہو لیکن زیادہ ظاہر یہ ہے کہ اس کو ربائبکم سے حال قرار دیا جائے۔ اس صورت میں من نسائکم کا تعلق امہات سے نہ ہوگا کیونکہ ربائب سے تعلق ہونے کی بنا پر من نسئکم میں من ابتدائیہ ہوگا اور امہات سے تعلق کی بنا پر من بیانیہ ہوگا اور جمہور کے نزدیک ایک لفظ کا (ایک حالت میں) دو مختلف معانی پر حمل نہیں کیا جاسکتا ہاں امام شافعی عموم مشترک کے جواز کے قائل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک خرابی یہ ہوگی کہ جب من کو بیانیہ کہا جائے گا تو اس کا حال ہونا بھی صحیح ہوگا تو اس کا یہ معنی ہوا کہ من نسائکم جس طرح ربائبکم سے حال اسی طرحنسائکم (جو امہات نسائکم میں مذکور ہے) سے بھی حال ہے اور یہ کسی کے نزدیک جائز نہیں کہ ذوالحال دو ہوں اور دونوں کا حال ایک ہو ربائبکم تو مرفوع ہے اور نسائکم مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے ہاں اگر لفظ من اتصالیہ (یعنی محض ملابست اور مصاحبت کے لیے) ہو نہ ابتدائیہ ہو بیانیہ تو دو معنی مختلف نہ ہوں گے اس وقت من محض مصاحبت کے لیے ہوگا اور امہات سے بھی حال ہوگا اور ربائب سے بھی کیونکہ دونوں مرفوع ہیں اور دونوں کا رفع ایک ہی جہت سے ہے) ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ توجیہ دوراز کا رہے اس کے علاوہ حدیث مرفوع اور اجماع علماء کے خلاف ہے ترمذی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اس شخص کے لیے جائز نہیں کہ اس عورت کی ماں سے نکاح کرے خواہ جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ ترمذی نے لکھا ہے کہ سند کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابن لہیعہ اور مثنی بن صباح جو اس سند میں دو راوی ہیں دونوں کمزور ہیں۔ شیخ ابن حجر نے لکھا کہ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں نہایت قوی سند سے حضرت ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا عورت مرجائے اور جماع کی نبوت نہ آئی ہو تب بھی اس عورت کی ماں سے اس شخص کو نکاح کرنا درست نہیں۔ طبرانی نے اس مسئلہ پر اجماع ہونا بیان کیا ہے۔ (1) [ روایت میں آیا ہے کہ کسی شخص کو اپنی بیوی کی ماں پسند آگئی۔ اس نے اپنی بیوی سے قربت نہیں کی تھی۔ اس نے حضرت ابن مسعود ؓ سے مسئلہ پوچھا۔ آپ ؓ نے حکم دیا کہ بیوی کو طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کرسکتے ہو۔ اس شخص نے ایسا کرلیا اور چند بچے بھی پیدا ہوگئے۔ کچھ مدت کے بعد حضرت ابن مسعود ؓ مدینہ پہنچے تو حضرت عمر ؓ سے یہ مسئلہ پوچھا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ صحابہ ؓ سے دریافت کیا۔ سب نے جواب دیا ‘ جائز نہیں ہے۔ جب آپ کوفہ لوٹ کر آئے تو اس شخص سے فرمایا : وہ عورت تیرے لیے حرام ہے۔ حسب الحکم اس شخص نے عورت کو چھوڑ دیا۔ میں کہتا ہوں اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر صحابہ کا اجماع تھا۔] لیکن حضرت زید بن ثابت کے قول کے متعلق روایات میں اختلاف ہے۔ مسند ابن ابی شیبہ میں ہے کہ اگر جماع نہ کیا ہو اور طلاق دیدے تو حضرت زید کے نزدیک مطلقہ کی ماں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن جماع سے قبل عورت مرجائے تو اس کی ماں سے نکاح کرنے کو آپ مکروہ جانتے تھے۔ مالک بن یحییٰ بن سعید کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت زید ؓ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کسی کی بیوی جماع سے پہلے ہی مرجائے تو کیا اس کی ماں سے اس کے لیے نکاح کرنا درست ہے ؟ فرمایا : نہیں۔ ماں کا کوئی حال وضاحت سے نہیں بیان کیا گیا ہے۔ (جماع کی) شرط ربائب کے متعلق ہے ابن ابی حاتم نے حضرت علی کا قول نقل کیا ہے کہ دونوں کی حرمت (جماع سے) مشروط ہے مجاہد کا بھی یہی قول ہے ابن ابی شیبہ وغیرہ نے حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن عباس کی طرف بھی اس قول کی نسبت عبد الرزاق اور ابن ابی حاتم کی روایت میں حضرت ابن زبیر کا بھی یہی قول منقول ہے اگر حضرت علی اور مجاہد کا قول مذکور وایۃً صحیح ثابت ہوجائے تو طبرانی کے قول میں جو اجماع کا لفظ آیا ہے اس سے مراد یہ ہوگی کہ صحابہ اور تابعین کے دور کے بعد علماء کا اجماع ہے کہ ساس سے بہر حال نکاح جائز نہیں خواہ بیوی سے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ دَخَلْتُمْ بِھِنَّ میں باء تعدیہ کے لیے ہے یعنی تم نے عورتوں کو پردہ کے اندر داخل کرلیا ہو یا مصاحبت کے لیے ہے یعنی تم ان کو لے کر پردہ کے اندر داخل ہوگئے ہو۔ پردہ میں داخل ہونے سے بطور کنایہ جماع مراد ہے ہے جیسے عرب کا محاورہ ہے۔ بَنِی عَلَیْھَا وَ ضَرَبَ عَلَیْھَا الحجاب اس عورت پر خیمہ نصب کردیا اور پردہ لگا دیا یعنی جماع کیا۔ کسی عورت کو شہوت سے چھونا اور اندرونی شرمگاہ کو شہوت کے ساتھ دیکھ لینا امام اعظم (رح) کے نزدیک جماع کے حکم میں ہے۔ فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم پھر اگر تم ان کے پاس داخل نہ ہوئے ہو تو ربائب سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں (ممکن تھا کہ غیر مدخولہ کو مدخولہ پر قیاس کرکے غیر مدخولہ کی بیٹیوں سے بھی نکاح کو حرام سمجھ لیا جاتا اس) قیاس کو دفع کرنے کے لیے صراحۃً فرما دیا کہ غیر مدخولہ کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں کوئی گناہ نہیں اگرچہ بطور اشارہ گذشتہ آیت (میں التی دخلتم بھن) سے بھی یہ بات معلوم ہوگئی تھی (لیکن صراحت نہیں تھی) اس جگہ صراحت ہے۔ وحلائل اور حرام کی گئی ہیں بیبیاں۔ حلائل جمع ہے حلیلہ کی حلیلہ کی حلیلہ کا معنی ہے بیوی۔ بیوی کو حلیلہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بیوی شوہر کے لیے حلال ہوتی ہے (اس صورت میں فعیل بمعنی مفعول ہوگا) یا یہ وجہ کہ عورت شوہر کے بستر پر فروکش ہوتی ہے (اس صورت میں فعیل بمعنی فاعل ہوگا۔ اوّل معنی کے لحاظ سے حلیلہ کا مصدر حِلّ ہوگا اور دوسرے معنی پر مصدر حلول ہوگا) ۔ جن عورتوں سے بیٹیوں نے بحق ملکیت یا بشبہ ملکیت جماع کرلیا ہوگا وہ بھی بیویوں کے حکم میں آجائیں گی یہ مسئلہ اجماعی ہے اور جن عورتوں سے بیٹوں نے زنا کیا ہو امام اعظم (رح) کے نزدیک باپ کے لیے ان کی حرمت بھی منکوحہ کی طرح ہے۔ ابناء کم تمہارے بیٹوں کی عموم مجاز کے طور پر لفظ ابناء تمام فروع کو شامل ہے پوتے ہوں، نواسے ہوں غرض نیچے تک بیٹوں اور بیٹیوں کے تمام بیٹوں کو شامل ہے۔ الذین من اصلابکم جو تمہاری پشت سے (یعنی نسل سے) ہوں اس قید سے منہ بولا بیٹا خارج ہوگیا اہل عرب منہ بولے بیٹے کو بھی بیٹا کہتے تھے۔ ابن جریر نے لکھا ہے کہ ابن جریح کہتے تھے میں نے عطا سے آیت : و حلائل ابنائکم الذین من اصلابکم کی تشریح دریافت کی عطاء نے جواب دیا ہم آپس میں کہتے تھے کہ رسول اللہ نے جب زید بن حارثہ کی بیوی سے نکاح کرلیا تو مشرک چہ میگوئیاں کرنے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آیت : وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَاءُ کُمْ اَبْنَاءَ کُمْ بھی نازل ہوئی اور آیت : مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ من رجالکم بھی نازل ہوئی۔ نسبی پوتا اور نواسا خواہ بلا واسطہ ہو یا بلاواسطہ اس آیت سے خارج نہیں ہو اکیون کہ یہ سب صلبی نسل سے ہوتے ہیں۔ رہا رضاعی بیٹا اور اس کی فروع تو اس قید (من اصلابکم) سے وہ ضرور خارج ہوگئے مگر انکی بیبیوں کی حرمت حدیث : یحرم من الرضاع ما یحر م من النسب سے ثابت ہے اور اس پر اجماع بھی منعقد ہوچکا ہے۔ و ان تجمعوا بین الاختین اور حرام ہے دو بہنوں کو جمع کرنا یعنی نکاح میں جمع کرنا اور ملکیت کی وجہ سے دونوں سے جماع کرنا لیکن دو نسبی بہنیں ہوں ‘ دو رضاعی بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت حدیث کی وجہ سے بہنوں کو جمع کرنے کی حرمت کی طرح ہے دونوں نسبی حقیقی ہوں یا علاتی یا اخیافی یا رضاعی حقیقی یا رضاعی علاتی یا رضاعی اخیافی لیکن اگر ایک بہن سے زناء کیا ہو تو دوسری سے نکاح کرنا حرام نہیں جیسے ایک بہن کے مرنے کے بعد یا طلاق دیدینے یا عدت گذر جانے کے بعد دوسری بہن سے نکاح حرام نہیں۔ حدیث اور اجماع کی وجہ سے مندرجہ ذیل دو عورتوں کو بھی نکاح میں جمع کرنا درست نہیں پھوپھی، بھتیجی، خالہ، بھانجی۔ کوئی عورت اور اس کے باپ یا ماں کی پھوپھی یا دونوں میں سے کسی کی خالہ یا دادا نانا اور دادی نانی کی پھوپھی خواہ کتنے ہی اوپر کی ہو اور باپ کی طرف سے ہو یا ماں کی طرف سے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ جمع نہ کیا جائے نہ عورت کو اس کی خالہ کے ساتھ جمع کیا جائے۔ (متفق علیہ) ابو داؤد ترمذی اور دارمی کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے پھوپھی پر بھتیجی سے نکاح نہ کیا جائے اور نہ بھتیجی پر اس پھوپھی سے اور نہ خالہ پر اس کی بھانجی سے اور نہ بھانجی پر اس کی خالہ سے نہ چھوٹی پر بڑی سے نہ بڑی پر چھوٹی سے۔ نسائی کی روایت میں آخری جملہ نہیں ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے بخاری نے حضرت جابر کی روایت سے بھی یہ حدیث نقل کی ہے اور ابن عبد البر نے مختلف سندوں سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اس کو نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس کی روایت سے احمد اور ابو داؤد اور ترمذی اور ابن حبان نے اور حضرت ابو سعید کی روایت سے ضعیف سند کے ساتھ ابن ماجہ نے اور حضرت علی کی روایت سے بزار نے اور حضرت ابن عمر کی روایت سے ابن حبان نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابن مسعود کی بی بی زینب اور حضرت ابو امامہ اور حضرت عائشہ اور حضرت ابو موسیٰ اور حضرت سمرہ بن جندب بھی اس حدیث کے ناقل ہیں۔ ابن عدی نے اور صحیح میں ابن حبان نے عکرمہ کے حوالہ سے حضرت ابن عباس کی روایت سے یہ پوری حدیث بیان کی ہے جس کے آخر میں اتنا زائد ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو ان عورتوں کے آپس میں قرابتیں منقطع کردو گے۔ ابو داؤد نے مراسیل میں عیسیٰ بن طلحہ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے کسی عورت سے اس کی قرابتدار (یعنی اصل یانسل) پر نکاح کرنے سے اندیشہ کے تحت ممانعت فرمائی ہے کہ اس سے قربت کٹ جائے گی۔ ابن حبان نے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے کہ تم اگر ایسا کروگی تو ان کی قرابتیں کاٹ دو گی۔ دو رضاعی بہنوں کو جمع کرنے کی ممانعت پر اجماع سلف ہونا بتارہا ہے کہ جس طرح قرابت نسبی منقطع کرنا حرام ہے اسی طرح رشتہ رضاعت کاٹنا بھی ممنوع ہے۔ اکرام مرضعہ کے متعلق نبی ﷺ کی حدیث ہے کہ ابو طفیل غنوی نے کہا میں حضور ﷺ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی حضور ﷺ نے اسکے لیے چادر مبارک بچھا دی ‘ وہ بیٹھ گئی۔ جب وہ چلی گئی تو بتایا گیا کہ اس نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ (رواہ ابو داؤد) خلاصہ بیان یہ ہے کہ نسب و رضاعت دونوں سلسلوں میں عورت کے لیے شوہر کے اصول و فروع سے مطلقاً نکاح حرام ہے اور شوہر کے لیے عورت کے اصول سے تو مطلقاً نکاح ناجائز ہے اور عورت کی فروع سے اس وقت ناجائز ہے جب عورت سے قربت کرلی ہو اور زوج و زوجہ کے اقارب میں سے سوائے نسبی ستونوں کے اور کسی سے نکاح ناجائز نہیں ہاں قطع رحم اور رشتہ رضاعت منقطع ہونے کے اندیشہ سے ایسی دو عورتوں کو جمع کرنا ناجائز ہے جن میں سے ایک دوسری کی اصل قرب کی فرع ہو۔ وا اللہ اعلم۔ (2) [ حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا گیا کہ اگر دو باندیاں آپس میں بہنیں ہوں اور ایک کے بعد دوسری سے جماع کیا جائے تو کیا جائز ہے آپ نے اس کی ممانعت فرمادی اور فرمایا : دونوں کو جمع کرنے کی اجازت دینا میں پسند نہیں کرتا۔ امام مالک اور امام شافعی نے بروایت قبیصہ بن ذویب بیان کیا کہ ایک شخص نے حضرت عثمان سے دو بہنوں کی ملکیت میں جمع کرنے (اور دونوں سے جماع کرنے) کا مسئلہ پوچھا فرمایا : ایک آیت نے تو دونوں کو حلال کہا ہے اور دوسری آیت نے حرام کہا ہے اور میں تو ایسا نہیں کرسکتا۔ سائل نے حضرت عثمان کے پاس سے جا کر ایک اور صحابی سے دریافت کیا میرے خیال میں وہ حضرت علی بن ابی طالب تھے انہوں نے فرمایا : اگر میرا کچھ اختیار ہوتا اور پھر میں کسی کو ایسا کرتے پاتا تو اس کو عبرتناک سزا دیتا۔ لیکن ابو صالح کی روایت ہے کہ حضرت علی نے دو مملوک بہنوں کے مسئلہ میں دریافت فرمایا ایک آیت نے دونوں کو حلال قرار دیا ہے اور دوسری آیت نے حرام نہ حکم ہے ممانعت۔ میں نہ حلال کہتا ہوں نہ حرام اور خود نہ میں کرتا ہوں نہ میرے اہل خانہ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ والبیہقی) ابن منذر اور بیہقی نے حضرت ابن مسعود کا قول نقل کیا ہے کہ جو حرمت آزاد عورتوں کی ہے وہی حکم باندیوں کی حرمت کا ہے سوائے تعداد کے (کہ باندیاں رکھنے کی کوئی تعداد مقرر نہیں اور نکاح میں چار عورتوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتا) یہی قول عبد الرزاق نے حضرت عمار بن یاسر کا بھی نقل کیا ہے میں کہتا ہوں کہ حضرت عثمان یا حضرت علی کا یہ قول کہ ایک آیت نے دونوں کو حلال کہا ہے اور دوسری آیت نے حرام اس سے مراد شک کا اظہار نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جب محرم اور محلل دونوں موجود ہیں تو محرم کو محلل پر ترجیح ہے ابن عبد البر نے استذکار میں لکھا ہے کہ ایاس بن عامر نے آپ سے پوچھا کہ دو بہنیں باندیاں ہیں میں نے ان کو غنیمت میں حاصل کیا ہے اور ایک کے بطن سے میری اولاد بھی ہوئی ہے اب میں دوسری سے رغبت کرنی چاہتا ہوں کیا کروں فرمایا : جس سے تم جماع کرتے تھے پہلے اس کو آزاد کردو پھر دوسری سے قربت کرنا۔ پھر فرمایا : مملوکہ باندیوں کی حرمت کا بھی وہی حکم ہے جو آزاد عورتوں کے متعلق قرآن میں حکم حرمت آیا ہے سوائے تعداد کے یا فرمایا سوائے چار کے۔ اور سلسلہ رضاعت کی حرمت کا بھی وہی حکم ہے جو کتاب اللہ میں نسبی حرمت کا ہے۔ (از مؤلف قدس سرہٗ )] الا ما قد سلف مگر جو گذر گیا یعنی ممنوعہ عورتوں سے نکاح پر عذاب ہوگا مگر ممانعت کے حکم سے پہلے جو ہوچکا اس پر عذاب نہ ہوگا یا یہ مطلب کہ جو پہلے گذر چکا اس پر اللہ مواخذہ نہیں کرے گا معاف فرما دے گا اوّل صورت میں مستثنیٰ منہ وہ معنی ہے جو نہی کے لیے لازم ہے اور دوسری صورت میں استثناء منقطع ہوگا۔ ان اللہ کان غفورا رحیما بلاشبہ اللہ غفور رحیم ہے معاف کردے گا اور حم فرما دے گا۔ قانون خداوندی کو نہ جاننے کا عذر مقبول ہوجائے گا۔ اللہ نے خود فرمادیا ہے : وَ مَا کَانَ اللہ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ اِذْ ھَدٰھُمْ حَتّٰی یُبَِیِّنَ لَھُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ دوسری آیت میں آیا ہے : و مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا .
Top