Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 25
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ١ؕ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ١ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَسْتَطِعْ : نہ طاقت رکھے مِنْكُمْ : تم میں سے طَوْلًا : مقدور اَنْ يَّنْكِحَ : کہ نکاح کرے الْمُحْصَنٰتِ : بیبیاں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن (جمع) فَمِنْ : تو۔ سے مَّا : جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہارے ہاتھ مالک ہوجائیں مِّنْ : سے فَتَيٰتِكُمُ : تمہاری کنیزیں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن۔ مسلمان وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِاِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان کو بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض مِّنْ : سے بَعْضٍ : بعض (ایک دوسرے سے فَانْكِحُوْھُنَّ : سو ان سے نکاح کرو تم بِاِذْنِ : اجازت سے اَھْلِهِنَّ : ان کے مالک وَاٰتُوْھُنَّ : اور ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ : ان کے مہر بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق مُحْصَنٰتٍ : قید (نکاح) میں آنے والیاں غَيْرَ : نہ کہ مُسٰفِحٰتٍ : مستی نکالنے والیاں وَّلَا : اور نہ مُتَّخِذٰتِ : آشنائی کرنے والیاں اَخْدَانٍ : چوری چھپے فَاِذَآ : پس جب اُحْصِنَّ : نکاح میں آجائیں فَاِنْ : پھر اگر اَتَيْنَ : وہ کریں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی فَعَلَيْهِنَّ : تو ان پر نِصْفُ : نصف مَا : جو عَلَي : پر الْمُحْصَنٰتِ : آزاد عورتیں مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب (سزا) ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : اس کے لیے جو خَشِيَ : ڈرا الْعَنَتَ : تکلیف (زنا) مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبرو کرو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو (دی جائے) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المؤمنت اور تم میں سے جو کوئی آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔ طول ‘ طائل ‘ طائلہ سب کا لغوی معنی ہے فضل ‘ قدرت ‘ دولت ‘ مالی وسعت (قاموس) یہاں طول بمعنی استطاعت ہے یعنی قدرت۔ مطلب یہ کہ جو کوئی تم میں سے استطاعت نہ رکھتا ہو نکاح کرنے کی استطاعت۔ اس صورت میں طولاً مفعول مطلق اور ان ینکحمفعول بہ ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طولاً مفعول بہ ہو اور اس کا معنی ہو اونچا ہونا کیونکہ اونچا ہونا فضل و دولت کے لوازم میں سے ہے اور ان ینکح سے پہلے با محذوف ہو اس صورت میں مطلب اس طرح ہوگا کہ جو شخص آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی حد تک اونچا نہ اٹھ سکے (یعنی اس کے پاس اتنا مال نہ ہو) (مؤلف نے اس جملہ کی دو نحوی ترکیبیں اور بھی لکھی ہیں لیکن مطلب میں کوئی خاص تفاوت نہیں اس لئے ہم نے اختصار کو پسند کیا) محصنت (محفوظ عورتیں) اس سے مراد ہیں آزاد عورتیں کیونکہ وہ غلامی کی ذلت سے محفوظ ہوتی ہیں۔ فمن ما ملکت ایمانکم تو وہ نکاح کرلے اس عورت سے جو تم میں سے کسی کی مملوکہ ہو یعنی کسی دوسرے کی باندی سے کیونکہ اپنی باندی سے (باندی رکھتے ہوئے) تو نکاح کی ضرورت ہی نہیں اس لئے اپنی باندی سے نکاح جائز نہیں۔ من فتیتکم المؤمنت . لیکن وہ تمہاری مسلمان باندیوں میں سے ہو (مشرکہ باندیوں سے نکاح درست نہیں) اس آیت سے امام شافعی ‘ امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) نے دو امور پر استدلال کیا ہے : 1) اگر آزاد عورت سے نکاح کا مقدور ہو تو باندی سے نکاح حرام ہے۔ 2) کتابیہ باندی سے مطلقاً نکاح حرام ہے کیونکہ فلینکحامر کا صیغہ اباحت کے لئے ہے اور باندی سے نکاح کی اباحت کو دو شرطوں سے مشروط کیا ہے ایک تو حرہ سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو دوسرے باندی مؤمن ہو کیونکہ ایمان کو اگرچہ بصورت شرط ذکر نہیں کیا گیا ہے ‘ بلکہ پیرایۂ وصف میں ذکر کیا ہے مگر) وصف شرط کے حکم میں ہے اور شرط کے انتفاء سے حکم معدوم ہوجاتا ہے اور اباحت معدوم ہوگئی تو حرمت ثابت ہوگئی۔ حضرت جابر اور حضرت ابن مسعود ؓ کی طرف اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ بیہقی نے ابوالزبیر کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے خود سنا حضرت جابر ؓ فرما رہے تھے حرہ پر باندی سے نکاح نہ کیا جائے۔ باندی کے اوپر حرہ سے نکاح کیا جاسکتا ہے اور جس کے پاس حرہ کو دینے کے لئے مہر ہو وہ باندی سے کبھی نکاح نہ کرے۔ اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابن المنذر نے حضرت ابن مسعود ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے باندیوں سے نکاح اس شخص کے لئے حلال کیا ہے جس کے پاس حرہ کا مہر نہ ہو اور اس کو اپنے متعلق گناہ میں پڑجانے کا اندیشہ ہو۔ حنفیہ نے اس کا جواب چند طرح سے دیا ہے (1) ہمارے نزدیک مفہوم مخالف کو دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں اور انتفاء شرط سے عدم حکم بھی لازم نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہ شرط کو علت کا درجہ دے دیا جائے لیکن علت کے انتفاء سے معلول کا انتفاء ضروری نہیں ممکن ہے معلول کے وجود کی کوئی دوسری علت بھی ہو۔ لہٰذا وجود شرط و وصف موجب حکم ضرور ہیں (بشرطیکہ کوئی مانع موجود نہ ہو) اور شرط وصف نہ ہونے کی صورت میں عدم حکم لازم نہیں بلکہ عدم حکم کی طرف سے سکوت اختیار کیا جائے گا اب اگر شرط و وصف نہ ہونے کی صورت میں کسی دوسری علت کی وجہ سے حکم موجود ہوگا تو بہتر ورنہ عدم حکم کا فیصلہ کیا جائے گا مگر یہ عدم اصلی عدم ہوگا کیونکہ وجود حکم تو وجود شرط کی وجہ سے عارضی تھا اصل عدم حکم ہی تھا اس عدم کو حکم شرعی نہیں کہا جائے گا۔ اب صورت مسئلہ پر غور کیجئے باندی مومنہ ہو یا کتابیہ کافرہ اور مرد حرہ سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ‘ بہرحال مطلقاً باندی سے نکاح کا ولایت فانکحوا ما طالب لکم من النسآئ سے ثابت ہے نیز آیت احل لکم ماوراء ذلکمکو بھی اس جواز پر دلالت کر رہی ہے لہٰذا آیت فمن ما ملکت ایمانکمکا مفہوم مخالف نکال کر کتابیہ سے نکاح کو حرام قرار دینا یا باندی سے نکاح کے جواز کی شرط حرہ سے نکاح کے عدم استطاعت کو قرار دینا درست نہیں۔ (2) جو لوگ مفہوم مخالف سے استدلال کرتے ہیں ان کے نزدیک بھی یہ ضروری ہے کہ وہ شرط یا وصف احترازی ہو ‘ اتفاقی نہ ہو ‘ لیکن اس جگہ ہوسکتا ہے کہ قید کا ذکر صرف عادت اور رواج پر مبنی ہو (احترازی نہ ہو) کیونکہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ آدمی باندی سے نکاح اسی وقت کرتا ہے جب حرہ سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو (ورنہ کون اپنی نسل کو باندی کی اولاد کہلوانا پسند کرتا ہے) اور یہ بھی رواج اہل اسلام کا تقاضا ہے کہ کوئی مسلمان کافرہ باندی سے معاشرت کو پسند نہیں کرتا۔ اسی عرف اور عادت کی وجہ سے المحصنٰتکی صفت المومنٰتبیان کی ورنہ باجماع علماء یہ قید احترازی نہیں ہے۔ امام شافعی (رح) نے بھی اسی لئے فرمایا کہ حرہ کتابیہ سے نکاح کرنے کی استطاعت ہو تو باندی سے نکاح درست نہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ المؤمنٰت کی قید نہ احترازی ہے نہ اتفاقی بلکہ افضل صورت بیان کرنے کے لئے ہے۔ (3) اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ مفہوم مخالف عدم اباحت پر دلالت کر رہا ہے تب بھی ضروری نہیں کہ ہر غیر مباح حرام ہوجائے ممکن ہے کہ غیر مباح مکروہ ہو اور ہم کراہت کے قائل ہی ہیں۔ بدائع میں اس کی صراحت کردی گئی ہے کہ کتابیت خواہ باندیاں ہوں یا حرہ سب سے نکاح مکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عمل سے کافروں سے موالات لازم آتی ہے جس کی ہم کو ممانعت کردی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دو دوستوں میں رشتۂ محبت کو مضبوط کرنے والا سوائے نکاح کے اور کوئی (رشتہ) تم کو نہیں ملے گا۔ (رواہ ابن ماجہ عن ابن عباس ؓ اللہ تعالیٰ نے (موالات کفار کی ممانعت میں) فرمایا ہے : لاََ تَّتِخِذْوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَآءَدوسری آیت میں کہا لاَ تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِب اللّٰہُ عَلَیْہِمْ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عورتوں سے نکاح کی رغبت چار امور کی وجہ سے ہوتی ہے مال ‘ شرافت نسب ‘ جمال ‘ دین داری۔ تم دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیاب بنو۔ رواہ مسلم والبخاری من حدیث ابی ہریرہ ؓ مسلم نے حضرت جابر ؓ کے حوالہ سے حدیث کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ عورت سے نکاح اس کے دین اور مال اور حسن کی وجہ سے کیا جاتا ہے تو دیندار کو اختیار کر۔ حاکم اور ابن حبان نے حضرت ابو سعید ؓ کی روایت سے اور ابن ماجہ ‘ بزار اور بیہقی نے حضرت عبداللہ ؓ بن عمر ؓ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث بیان کی ہے۔ باندیوں سے نکاح کی کراہت اس وجہ سے ہے کہ اولاد غلام ہوگی اور غلامی موت کے حکم میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے نطفوں کے لئے انتخاب کرو ‘ کفو سے نکاح کرو اور کفوا سے نکاح کراؤ۔ رواہ ابو داؤد والحاکم۔ بیہقی نے اس حدیث کی تصحیح کی۔ یہ حدیث حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے آئی ہے۔ واللہ اعلم بایماناکم . اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے ‘ ایمان اور اعمال کی وجہ سے ہی ایک دوسرے پر برتری ہوتی ہے۔ بعضکم من بعض . یعنی تم باہم ایک دوسرے کی نسل سے ہو یعنی آزاد ہوں یا باندی غلام سب ایک ہی آدم ( علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اب کوئی شبہ نہیں کہ اللہ نے تم سے (دور) جاہلیت کی خرابی اور باپ دادا پر شیخی کرنے کو دور کردیا ہے اب تو آدمی یا مؤمن متقی ہے یا کافر بدبخت۔ سب آدم ( علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم ( علیہ السلام) مٹی سے (بنے) تھے۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ترمذی اور ابوداؤد نے بیان کی ہے۔ امام احمد اور بیہقی نے حضرت عقبہ ؓ بن عامر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے یہ نسب کسی کے لئے باعث عیب نہیں۔ تم سب آدم ( علیہ السلام) کی اولاد ہو۔ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر دین اور تقویٰ کی وجہ سے۔ آدمی کے لئے بدزبان فحاش اور بخیل ہونا پورا پورا عیب ہے۔ یہ دونوں جملے اس لئے فرمائے کہ لوگ باندیوں سے نکاح کرنے کو عار نہ سمجھیں بلکہ ان کو اس طرف رغبت خاطر پیدا ہو۔ فانکحوہن باذن اہلہن تو مؤمن باندیوں سے تم ان کے آقاؤں کی اجازت سے نکاح کرو۔ ہُنَّکی ضمیر فتیات کی طرف راجع ہے اور فتیات سے مراد ہیں باندیاں۔ خواہ خالص مملوکہ ہو یا مکاتبہ یا مدبرہ یا ام ولد (مکاتبہ وہ باندی جس سے آقا نے عقد کتابت کرلیا ہو یعنی اس سے کہہ دیا ہو کہ اتنا روپیہ اگر تو اپنی قیمت کا دے دے گی تو آزاد ہوجائے گی اور مدبرہ وہ باندی ہے جس سے آقا نے کہہ دیا ہو کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے اور ام ولد وہ باندی ہے جس سے آقا کی کوئی اولاد ہوگئی ہو) فانکحوا امر کا صیغہ وجوب کے لئے ہے اور وجوبی کا حکم قید (باذن) کی طرف راجع ہے یعنی باندیوں سے نکاح ان کے آقاؤں کی اجازت کے بغیر جائز نہیں چونکہ اجازت کی قید کا وجوبی طور پر ذکر مقصود تھا اسی لئے دوبارہ فانکحوا کا صیغۂ امر ذکر کیا کیونکہ باندیوں سے نکاح کی اجازت تو مماملکت ایمانکم سے معلوم ہوگئی تھی مگر آقاؤں کی اجازت کا وجوب معلوم نہ ہوا تھا کیونکہ ایک ہی صیغہ سے جواز اور وجوب دونوں یکدم مستفاد نہیں ہوسکتے اسی لئے دوبارہ فانکحوا فرمایا تاکہ پہلے سے اباحت اور دوسرے سے وجوب سمجھ میں آجائے۔ غلام کا بھی یہی حکم ہے۔ کسی مملوک کا نکاح آقا کی اجازت کے بغیر نہیں ہوگا یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کیا وہ زانی ہے۔ حضرت جابر ؓ کی روایت سے یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی نے بیان کی ہے اور ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے۔ سنن میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جو غلام آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے اس کا نکاح باطل ہے۔ مسئلہ : کیا غلام نے اگر آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو نکاح منعقد نہیں ہوتا یا منعقد تو ہوجاتا ہے مگر اس کا نفاذ آقا کی منظوری پر موقوف رہتا ہے۔ یہ مسئلہ اتفاقی ہے امام ابوحنیفہ (رح) امام مالک (رح) اور ایک روایت کے بموجب امام احمد (رح) کا قول یہ ہے کہ انعقاد نکاح تو ہوجاتا ہے مگر نفاذ آقا کی اجازت پر موقوف رہتا ہے کیونکہ غلام میں نکاح کی اہلیت ہے اور وہ اپنی اہلیت سے تصرف کر رہا ہے اجازت مولیٰ کی ضرورت صرف اس وجہ سے ہے کہ اگر باندی نے مولیٰ کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو مولیٰ کی رضامندی کے بغیر اس کا حق قربت ساقط ہوجائے گا اور غلام نے اذن آقا کے بغیر نکاح کیا تو آقا کو اپنی مرضی کے بغیر ادائے مہر کا ذمہ دار بننا پڑے گا۔ آیت میں بھی صرف اذن مولیٰ کی شرط مذکور ہے عقد کی شرط نہیں ہے۔ امام شافعی (رح) : کا قول ہے کہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا (یعنی اگر آقا بعد کو راضی بھی ہوجائے تب بھی نکاح سابق کا لعدم ہوگا اور جدید نکاح کرنا پڑے گا) کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے نکاح کو باطل فرمایا ہے۔ اور آیت میں بھی باذن کی باء اتصال کو چاہتی ہے لہٰذا اذن کو نکاح سے متصل ہونا چاہئے نکاح کے بعد اذن ہونے پر نکاح موقوف نہ رہنا چاہئے۔ واتوہن اجورہن اور ان باندیوں کو ان کے مہر دے دو ۔ امام مالک (رح) نے فرمایا بظاہر یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ مہر باندی کا حق ہے (آقا کو نہیں پہنچے گا) جمہور کا قول ہے کہ باندی کا مہر اس کے آقا کی ملک ہوگا باندی تو غیر مختار ہے اس کے مالکہ ہونے کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا۔ رہی آیت تو اس میں قید باذن اہلہن کی محذوف ہے یعنی باندیوں کو ان کا مہر ان کے آقاؤں کی اجازت دے دو چونکہ سابق میں باندیوں سے نکاح کرنے کی یہ شرط ذکر کردی تھی اس لئے یہاں دوبارہ ذکر کرنا ضروری نہ تھا۔ یا یوں کہا جائے کہ باندیوں کے دینے سے مراد ہے ان کے آقاؤں کو دینا یعنی اَتُوْہُنَّمیں مضاف محذوف ہے اصل میں تو اتوا مَوَالیُہُنَّتھا آیت کی یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں۔ (1) اس لئے کہ عطف کا تقاضا یہ نہیں ہوتا کہ معطوف میں بھی وہی قید معتبر ہے جس کا ذکر معطوف علیہ کے ساتھ کردیا گیا ہو قید موخر میں اشتراک کو عطف نہیں چاہتا مقدم کے اشتراک کو چاہتا ہے۔ (2) دوسری تاویل اس لئے کمزور ہے کہ مضاف کو حذف کرنے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ اہل کا ذکر پہلے ہوچکا ہے پھر بجائے اٰتُوْہُمْکے اتوہُنَّکہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ محقق تفتازانی نے ہنکہنے کا یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ اس سے مملوکات سے نکاح کے مہر کو واجب کرنا اور ان کے صنفی اعضاء سے تمتع اندوزی کے معاوضہ کو لازم قرار دینا مقصود ہے اس بیان کا تقاضا یہ ہے کہ مہر اون ہی کو دیا جائے۔ رہا مولیٰ کا مالک ہوجانا تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مولیٰ اپنی مملوکہ کی ذات کا مالک ہے (لہٰذا مملوکہ کا ہر مال اسی کی ملک ہے) زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ منکوحہ باندی مہر پر قبضہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے جیسے وہ غلام جس کو مولیٰ نے تجارت کی اجازت دے دی ہو بیع اور ثمن پر قبضہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے لہٰذا باندیوں کے قبضہ میں ہی ان کا مہر شوہروں کی طرف سے دیا جانا چاہئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اجور سے (مہر مراد نہ ہوں بلکہ) نان نفقہ مراد ہو اس صورت میں آقا کے اذن کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ بالمعروف دستور کے مطابق یعنی مہر کی ادائیگی میں کمی نہ کی جائے نہ ٹالا جائے۔ اس لفظ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ شرعی حکم کے مطابق مہر دیا جائے یعنی آقا کی اجازت کے ساتھ کیونکہ آقا کی اجازت کے بغیر ان کو مہر دے دینا (یعنی مہر کا مالک بنا دینا) شرعاً ممنوع ہے۔ محصنت پاک دامن۔ غیر مسفحت علی الاعلان بدکاری کرنے والیاں نہ ہوں۔ والامتحذت اخدان نہ چھپ کر یار بنانے والیاں ہوں۔ حسن (رح) نے فرمایا مسفحتکا معنی ہے ہر جائی ہوجانا اور یار بنانے والی سے مراد ہے کسی کی مخصوص داشتہ بن جانے والی۔ عرب کے نزدیک اوّل فعل حرام تھا اور دوسرا جائز۔ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلاَ مُتَّحِذَاتِ اَخْدَانٍ ۔ مُحْصنَاتٌکا بیان ہے یعنی پاکدامن عورتیں وہی ہیں جن میں یہ دونوں عیب نہ ہوں۔ نکاح کو محصنت کے ساتھ مقید کرنے سے مراد ہے بہتر صورت کا اظہار (یعنی افضل یہ ہے کہ محصنات سے نکاح کرو اگرچہ زانیہ سے بھی نکاح درست ہے) یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کا ہے۔ امام احمد (رح) کے نزدیک زانیہ سے جب تک وہ توبہ نہ کرلے نکاح درست نہیں خواہ وہ حرہ ہو یا باندی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ الاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُہَآ اِلاَّ زَانٍٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الُمُؤْمِنِیْنَ (یعنی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح مؤمنوں کے لئے حرام کردیا گیا ہے) اس آیت کی تفسیر سورة نور میں انشاء اللہ آئے گی۔ امام مالک (رح) نے فرمایا زانیہ سے نکاح مطلقاً مکروہ ہے (خواہ اس نے توبہ کرلی ہو) چونکہ نکاح کے لئے عورت کے محصن ہونے کی شرط تھی اس لئے ادائے مہر کے لئے بھی یہ شرط لگا دی جب نکاح حالت احصان میں ہوگا تو مہر کی ادائیگی بھی اسی حالت میں ہوگی ‘ اب یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ ادائے مہر کے لئے بالاجماع عورت کا پاک دامن ہونا ضروری نہیں۔ فاذا احصن پھر جب مسلمان باندیاں شوہر والیاں ہوں۔ احصانکا لغوی معنی ہے روک بازداشت قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال کئی معانی میں آیا ہے۔ حرہ ہونا ‘ پاکدامن ہونا ‘ شوہر والی ہونا ‘ مسلمان ہونا۔ کلام چونکہ مسلمان باندیوں کے متعلق ہے اس لئے اس جگہ حرہ یا مسلمہ مراد نہیں ہے اور عفت بھی مراد نہیں ہے کیونکہ آئندہ آیت میں مرتکب زنا ہونے کا حکم بیان کیا گیا ہے اس لئے شوہر والی باندیاں ہی مراد ہیں۔ فان اتین بفاحشۃ اگر وہ زنا کی مرتکب ہوجائیں۔ فعلیہن نصف ما علی المحصنت تو ناکت خدا عورتوں سے آدھی سزا ان کو دی جائے اس جگہ المحصنت سے مراد ہیں۔ آزاد ناکت خدا عورتیں۔ کیونکہ شوہر والی آزاد عورتوں کے فعل زنا کی سزا سنگسار کردینا ہے اور سنگساری کی سزا کی تنصیف ممکن نہیں۔ من العذاب یعنی حد شرعی (کا نصف) ۔ مسئلہ : آزاد مرد اور عورت اگر مرتکب زنا ہوجائیں اور نکاح شدہ نہ ہوں تو امام اعظم (رح) کے نزدیک اس کی سزا سو ” تازیانے “ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا اَکُلَّ وَاِحِد مِّنْہُمَا ماءَۃَ جَلْدَۃٍزانی اور زانیہ میں سے ہر ایک کے سو تازیانے مارو۔ امام احمد اور امام شافعی (رح) کے نزدیک سو کوڑوں کے ساتھ ایک سال کے لئے جلاوطن کردینا بھی ضروری ہے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا جلاوطن کرنے کی سزا مرد کے لئے ہے عورت کے لئے نہیں ہے۔ جلاوطنی کی سزا کی دلیل حضرت عبادہ ؓ بن صامت کی روایت کردہ یہ حدیث ہے کہ بےشوہر والی بےبیوی والے سے زنا کرے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی (ان کی سزا ہے) رواہ مسلم۔ حضرت زید بن خالد کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ غیر محصن زانی کو سو کوڑے مارنے اور ایک سال کے لئے دیس بدر کرنے کا حکم دے رہے تھے۔ رواہ البخاری۔ امام مالک (رح) نے فرمایا حدیث میں لفظ البکرآیا ہے اور بکر کا لفظ عورتوں کو شامل نہیں ہے لہٰذا عورتوں کے لئے جلا وطنی کی سزا نہیں ہے۔ مگر یہ دلیل ہیچ ہے (بکر کا لفظ مرد عورت دونوں کو شامل ہے اور حدیث میں دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے) کیونکہ حدیث کی رفتار بتارہی ہے کہ حضور ﷺ نے عورتوں کی زنا کی سزا ہی بیان فرمائی ہے کیونکہ ارشاد فرمایا تھا مجھ سے لے لو ‘ مجھ سے لے لو ‘ اللہ نے ان (زانیہ) عورتوں کے لئے راہ نکال دی بغیر شوہر والی بغیر بیوی والے سے زنا کرے الخ لفظ بکر عورت کو شامل نہیں ہے یہ بات غلط ہے (اول تو یہ کہ اسی حدیث میں البکر بالبکر فرمایا ہے اوّل بکر سے مرد اور دوسرے بکر سے عورت مراد ہے یا برعکس دوسرے یہ کہ) حضور ﷺ نے فرمایا بکر سے نکاح کی اجازت لی جائے (اس حدیث میں بھی بکر سے مراد دوشیزہ عورت ہی ہے) اس کے علاوہ حضرت زید بن خالد ؓ کی روایت میں جو مَنْ زنیکا لفظ آیا ہے وہ مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا یہ حدیث آحاد ہے اور حدیث آحاد سے کتاب اللہ کے حکم پر زیادتی جائز نہیں (کتاب اللہ میں صرف سو کوڑے مارنے کا حکم ہے اور حدیث میں جلا وطن کردینے کا بھی ذکر ہے لہٰذاحدیث آحاد سے قرآنی حکم پر زیادتی نہیں ہوسکتی) سورة نور میں انشاء اللہ اس کی مزید تنقیح آئے گی۔ مسئلہ : شادی شدہ ہو یا ناکت خدا ‘ غلام ہو یا باندی اس کی سزا چاروں اماموں کے نزدیک بالاتفاق پچاس کوڑے ہے۔ باندی کی یہ سزا تو عبارت النص سے معلوم ہی ہو رہی ہے (کہ نصف ما علی المحصنٰت فرمایا ہے یعنی آزاد عورتوں کی سزا کا نصف) اور غلام کی یہ سزا دلالت نص سے بطریق مساوات ثابت ہوگی۔ مملوک (باندی ہو یا غلام) کو جلاوطنی کی سزا کسی امام کے نزدیک نہیں دی جائے گی صرف امام شافعی کا ایک قول آیا ہے کہ چھ ماہ کے لئے مملوک کو دیس بدر کردیا جائے۔ ابو ثور (رح) : کا قول ہے کہ شادی شدہ مملوک کو سنگسار کردیا جائے۔ مگر آیت مذکور ابو ثور کے قول کی تردید کر رہی ہے سنگساری کی سزا کو آدھا کرنا ناممکن ہے اور آیت میں مملوک کی سزا آدھی قرار دی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ مجاہد ؓ اور سعید ؓ بن جبیر کے نزدیک ناکت خدا باندی اور غلام کے زنا کی کوئی شرعی حد نہیں ہے کیونکہ آیت میں سزا کے لئے احصان کی شرط لگائی ہے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ غیر محصن کی کوئی سزا نہیں۔ امام اعظم کے نزدیک تو مفہوم شرط (ترتب حکم کے لئے) معتبر ہی نہیں باقی تینوں امام اگرچہ مفہوم شرط کا اعتبار کرتے ہیں مگر ان کے نزدیک اس آیت میں شرط کا کوئی مفہوم (مخالف) ہی نہیں ہے بلکہ اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ باندی غلام خواہ محصن ہی ہو اس کو سنگسار نہیں کیا جائے گا اس کی سزا صرف تازیانہ ہے (اور وہ بھی نصف) حر کا حکم اس کے خلاف ہے (محصن حر کی سزا رجم اور غیر محصن کی تازیانہ) اس کا حکم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی کی باندی ارتکاب زنا (پہلی مرتبہ) کرے اور زنا کھل جائے تو اس کو تازیانہ کی سزا دے اور لعنت ملامت نہ کرے پھر (دوبارہ) زنا کرے اور اس کا زنا کھل جائے تب بھی کوڑے مارے اور تثریب نہ کرے اس کے بعد (تیسری بار) زنا کرے اور اس کا زنا ثابت ہوجائے تو اس کو بیچ ڈالے خواہ بالوں کی رسی کے عوض ہی ہو۔ رواہ البخاری و مسلم من حدیث ابی ہریرہ ؓ ۔ اس حدیث میں لفظ اَمَۃُدائرہ شرط میں آیا ہے جو مفید عموم ہے اجماع کا یہی فیصلہ ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا لوگو ! اپنی باندی غلاموں پر حد شرعی قائم کرو۔ کت خدا ہوں یا ناکت خدا ‘ کیونکہ رسول اللہ ﷺ : کی ایک باندی نے زنا کیا تھا تو حضور ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اس کے کوڑے ماروں ‘ مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس کے حال ہی میں بچہ پیدا ہوا ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر اس وقت میں اس کے کوڑے ماروں گا تو یہ مرجائے گی۔ اس لئے کوڑے نہیں مارے اور رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں اس کا تذکرہ کیا آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اچھا کیا۔ رواہ مسلم۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عیاش بن ابی ربیعہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مجھے اور کچھ قریشی جوانوں کو حکم دیا کہ حکومت کی چند باندیوں کو زنا کی سزا میں پچاس پچاس کوڑے مارے جائیں۔ ذلک لمن خشی العنت منکم قانون سزا کا یہ اجرا تم میں سے ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو چوٹ کے دکھ سے ڈرتے ہوں تاکہ تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ (اور مار کھانے سے ڈرتے رہو) وان تصبروا خیر لکم اور شہوت رانی اور زنا سے رکا رہنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے آخرت میں بھی اور دنیا میں بھی۔ اکثر اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ ذلک سے اشارہ باندیوں سے نکاح کرنے کی طرف ہے یعنی جن لوگوں کو زنا میں پڑجانے کا اندیشہ ہو ان کے لئے باندیوں سے نکاح جائز ہے کیونکہ زنا موجب مصیبت ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی (اس صورت میں عنتبول کر زنا مراد ہوگا کیونکہ زنا عنت کا سبب ہے) اور باندیوں سے نکاح سے بچا رہنا بشرطیکہ پاکدامنی ہاتھ سے جانے کا اندیشہ نہ ہو زیادہ بہتر ہے تاکہ اولاد غلام نہ پیدا ہو اور فعل مکروہ کا ارتکاب نہ کرنا پڑے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آزاد عورتیں گھر کی درستی اور باندیاں گھر کی تباہی (کا سبب) ہیں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے دیلمی نے مسند الفردوس میں اور ثعلبی نے بیان کی ہے لیکن تحریر میں اس کو ضعیف کہا ہے۔ میں کہتا ہوں گھر کی تباہی اس طرح ہوگی کہ باندیوں کی اولاد باندیوں کے آقاؤں کی غلام ہوگی اور باپ کا گھر ان سے خالی رہے گا یہ تفسیر آئندہ آیت کے مناسب ہے۔ واللہ غفور رحیم یعنی جو شخص باندیوں سے نکاح کے بغیر نہ رہ سکے تو اللہ اس کو معاف کرنے والا ہے اور رحمت والا ہے کہ اس کو باندیوں سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ تفسیر امام شافعی (رح) اور امام مالک کے قول کو ثابت کر رہی ہے کہ باندیوں سے نکاح صرف ان ہی لوگوں کے لئے جائز ہے جن کو زنا میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو کیونکہ لمن میں لام اختصاص کے لئے ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ یہی قول حضرت جابر ؓ : کا ہے اور طاؤس اور عمر بن دینار بھی اسی کے قائل تھے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک باندی سے نکاح کے جواز کی یہ شرط نہیں ہے کہ عدم نکاح کی صورت میں زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو ہاں بتقاضائے آیت امام صاحب کے نزدیک بےضرورت باندیوں سے نکاح مکروہ ضرور ہے۔ فائدہ : امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) نے فرمایا کہ باندی سے نکاح مشروط ہے اوّل شرط یہ کہ حرہ سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو دوئم یہ کہ باندی مسلمان ہو پھر اس کے نتیجہ میں اولاد غلام پیدا ہوتی ہے۔ بدرجۂ مجبوری صرف ضرورت کے تحت شریعت نے اس کی اجازت دی ہے اور چونکہ ایک سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے اس لئے ایک سے زائد سے نکاح کرنا حر کے لئے جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا باندی سے نکاح کا جواز عمومی ہے باندی مسلمان ہو اہل کتاب میں سے ہو ‘ حرہ سے نکاح کرنے کی استطاعت ہو یا نہ ہو بہرحال جائز ہے صرف ضرورت پوری کرنے کے لئے ہی نہیں ہے اگرچہ بےضرورت مکروہ ہے (مگر جائز ہے) کیونکہ آیت وَاُحِلَّ لَکُمْ مَا وَرَآءَ ذٰلِکُمْاور فانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْکا حکم مطلق ہے (اس میں کوئی قید یا شرط نہیں) اگر حر کے لئے باندی سے نکاح کے عدم جواز کی علت اس بات کو قرار دیا جائے کہ اولاد غلام پیدا ہوگی (اور حر کی اولاد کا غلام ہونا لازم آئے گا) تو پھر غلام کے لئے بھی باندی سے نکاح کرنا ناجائز ہونا چاہئے جب کہ اس کو حرہ سے نکاح کرنے کی استطاعت ہو حالانکہ اس کا قائل کوئی نہیں۔ اس کے علاوہ غلام کے لئے تو دو باندیوں سے نکاح آپ کے نزدیک بھی جائز ہے پھر حر کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ یہ جواز ہونا چاہئے کیونکہ حر کے لئے چار عورتوں سے نکاح جائز ہے اور غلام کے لئے صرف دو سے۔ اوّل حکم قرآن میں آیا ہے اور دوسرا حدیث سے ثابت ہے۔ مزید یہ کہ چار عورتوں سے حر کے نکاح کا جواز مطلق ہے حرہ عورتوں سے ہو یا باندیوں سے صرف حرہ عورتوں کے ساتھ اس نکاح کو مقتید رکھنا جائز نہیں۔ امام مالک (رح) کے نزدیک بھی حر کے لئے چار عورتوں سے نکاح جائز ہے خواہ وہ آزاد ہوں یا باندیاں (یا مخلوط) مسئلہ : تین اماموں کے نزدیک حرہ پر باندی سے نکاح درست نہیں (خواہ حرہ رضامند ہی ہو) صرف امام مالک (رح) قائل ہیں کہ اگر حرہ رضامند ہو تو اس کے اوپر باندی سے نکاح کیا جاسکتا ہے ورنہ آپ کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ حرہ سے باندی پر نکاح کرنا بالاتفاق جائز ہے۔ ائمۃ ثلثہ کہتے ہیں کہ آیت فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً کا مفہوم بتارہا ہے کہ حرہ پر باندی سے نکاح ناجائز ہے کیونکہ جس کے نکاح میں حرہ ہوگی اس کو یقیناً حرہ کی استطاعت ہوگی لہٰذا حر ہو یا غلام اور حرہ رضامند ہو یا ناراض کسی صورت میں حرہ پر باندی سے نکاح جائز نہیں ہوسکتا۔ امام اعظم نے حرہ پر باندی سے نکاح کے عدم جواز کی دلیل میں یہ حدیث بھی بیان کی ہے کہ اصحاب سنن نے سعید بن منصور کی اسناد سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حرہ پر باندی سے نکاح کی ممانعت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ باندی پر حرہ سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔ بیہقی اور طبری نے حسن بصری تک سند کا اتصال کر کے اس حدیث کو لکھا ہے البتہ عامر احوال کی روایت کو غریب قرار دیا ہے بلکہ عمرو بن عبید عن الحسن معروف سند ہے۔ حافظ نے سعید بن منصور کی روایت کو مبہم کہا ہے (کیونکہ سعید (رح) نے ابن علیہ کا قول نقل کیا ہے اور ابن علیہ نے اپنے اور حسن (رح) بصری کے درمیان کے راوی کا نام نہیں بتایا صرف اتنا کہا کہ مجھ سے ایسے شخص نے بیان کیا جس نے خود حسن (رح) بصری سے سنا تھا) عبدالرزاق نے یہ حدیث حسن (رح) کی روایت سے مرسلاً بیان کی ہے ابن ابی شیبہ (رح) نے اس کو مرسلاً بیان کیا ہے۔ ہمارے نزدیک حدیث مرسل حجت ہے اور شافعی (رح) کے نزدیک بھی حدیث مرسل قابل استدلال ہے بشرطیکہ اس کی تائید صحابہ ؓ کے اقوال سے ہو رہی ہو اور اس حدیث کو صحابہ ؓ کی تائید حاصل ہے۔ ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے حضرت علی ؓ کا قول موقوفاً بیان کیا ہے کہ حرہ کے اوپر باندی سے نکاح کرنا مناسب نہیں دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حرہ کے اوپر باندی سے نکاح نہ کیا جائے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کا قول بھی اسی طرح منقول ہے۔ عبدالرزاق نے ابوالزبیر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت جابر : ؓ فرما رہے تھے کہ حرہ کے اوپر باندی سے نکاح نہ کیا جائے اور باندی پر حرہ سے نکاح کیا جاسکتا ہے بیہقی نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے بیہقی کی روایت میں اتنا زائد ہے کہ جس میں حرہ کے مہر کی استطاعت ہو وہ باندی سے کبھی نکاح نہ کرے اس کی اسناد صحیح ہے۔ ابن ابی شیبہ نے سعید بن مسیب کا قول نقل کیا ہے کہ باندی کے اوپر حرہ سے نکاح کر اور حرہ پر باندی سے نکاح نہ کر۔ اس موضوع پر حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بھی حدیث آئی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ غلام کی طلاق دو بار ہے۔ اس کے آخر میں حضور ﷺ نے فرمایا باندی کے اوپر حرہ سے نکاح کیا جاسکتا ہے اور حرہ کے اوپر باندی سے نہیں کیا جاسکتا۔ رواہ الدارقطنی۔ اس کی سند میں ایک راوی مظاہر بن اسلم ضعیف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) : کتاب کی تخصیص اخبار آحاد سے جائز نہیں قرار دیتے مگر اس جگہ یہ تخصیص لازم آرہی ہے کیونکہ آیت واحل لکم ماوراء ذلکمکا حکم عام ہے (اور احادیث میں حرہ پر باندی سے نکاح کی ممانعت کردی گئی ہے تو آیت کا حکم عام نہیں رہا) اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے یہ تاویل کی جاسکتی ہے کہ حدیث اگرچہ خبر آحاد ہے مگر اس کی تائید اجماع سے ہوگئی ہے (اور اجماع سے کتاب کی تخصیص جائز ہے) امام شافعی (رح) کے نزدیک غلام کے لئے حرہ پر باندی سے نکاح جائز ہے لیکن امام اعظم اور دوسرے ائمہ کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ احادیث مرسلہ ممانعت کی عام ہیں۔ پھر مفہوم مخالف سے استدلال کو درست قرار دینے والے ائمہ کے نزدیک مفہوم مخالف سے عدم جواز کا استنباط عام ہے غلام کے لئے بھی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top